ہماری سیاسی قیادت کا پاکستان سے باہر پسندیدہ مقام لندن ہے جہاں پر وہ حکومت سے بے دخلی کے بعد اپنے شب و روز گزارنا پسند کرتے ہیں۔
آکسفورڈ اسٹریٹ پر چہل قدمی کرنا ہو یا ہائیڈ پارک کی پرسکون فضاء میں جھیل کنارے کسی بینچ پر بیٹھ کر دلکش مناظر سے لطف اندوز ہونا ہماری اشرافیہ کا محبوب مشغلہ ہے۔ اشرافیہ کا یہ مشغلہ آج کے دور کی بات نہیں بلکہ یہ شغل پاکستانی اشرافیہ نے قیام پاکستان کے بعد سے ہی شروع کر دیا تھا اور انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کے پیچھے پیچھے لندن پہنچ گئے۔
اکثر انگریز یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ جب ان ہندوستانیوں کوہمارے ملک میں ہی رہنا تھا تو پھر ہمیں ہندوستان سے نکالنے کے لیے انھوں نے اتنے پاپڑ کیوں بیلے تھے۔ غلامی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور قیام پاکستان سے آج تک ہم لندن کا طواف کرنا ہی پسند کرتے ہیں۔
ہم میں سے جو باحیثیت ہیں انھوں نے لندن میں اپنی رہائش کے لیے قیام گاہیں خرید رکھی ہیں جہاں پر وہ چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان تو اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی بدنام ہیں لیکن اگر کوئی تحقیق کرے تو سیاستدانوں سے زیادہ ان لوگوں کی رہائش گاہیں نکل آئیں گی جو گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں اورجن کے بارے میں ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ یہ لوگ بھی لندن جیسے مہنگے اور پرتعیش شہر میں رہائش رکھ سکتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی رؤسا سکون کی تلاش میں لندن سدھارتے ہیں۔
لندن کی یاد مجھے اس دوست کے فون کی وجہ سے آئی ہے جس نے رسماً خیر و عافیت پوچھنے کے بعد وجہ دریافت کی ہے کہ میں کہاں گم ہو گیا ہوں، کیا میرے قویٰ سفر سے جواب دے گئے ہیں یا جیب ساتھ نہیں دے رہی۔ جیب ساتھ نہیں دے رہی تو یہ کوئی پرابلم نہیں پہلے بھی اس نے کب ساتھ دیا ہے اگر قویٰ میں ضعف ہے تو اس کا شافی علاج بھی موجود ہے لیکن لاہور میں نہیں یہاں لندن میں ہے۔ ایک دوست نے ای میل میں لکھا ہے کہ حافظ کا یہ شعر تمہارے اوپر تو شاید صادق نہیں آئے گا لیکن دست و پا کے ضعف والے حضرات کے لیے موزوں ہے۔
گرچہ پیریم، شب وصل تنگ در آغوشم گیر
تا کہ سحر گاہ زکنار تو جواں برخیزم
گو بوڑھا ہوں مگر شب وصل خوب بھینچ بھینچ کر آغوش میں دبوچ لو تا کہ وقت سحر تمہارے پہلو سے جوان ہو کر اٹھوں۔
یہ حافظ والا علاج بھی جس قدر شافی لندن میں موجود ہے لاہور میں نہیں ہے۔ دوسرے ملکوں میں آنا جانا تو رہا لیکن مستقل قیام اگر کہیں ہوا تو وہ لندن میں ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ اس شہر سے میرے دوست مجھے بہت یاد کرتے ہیں۔ اب توآپ دنیا کے کسی کونے میں ہوں کالم لکھ کر ای میل کا بٹن دبائیں اور لمحوں میں کالم دفتر پہنچ جاتا ہے۔
آنا جانا اور قیام و طعام کا کوئی مسئلہ نہیں لیکن نہ معلوم مجھے کیا ہو گیا ہے کہ اس ملک پر مجھے اعتبار نہیں رہا۔ بھروسہ نہیں کہ میں چلا گیا تو واپس کہاں آؤں گا۔ میرے گاؤں اور لاہور کے درودیوار کیسے ہوں گے میرے دوست کس کیمپ میں پڑے ہوں گے۔
بیرون ملک پاکستانیوں اور اپنے غیر ملکی دوستوں کو پاکستان سے ہی آداب عرض کرتا ہوں کہ ہم امید و بیم کے جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں امید سے وابستہ ہیں اب تو لندن ہی ہمارے لیے پاکستان بنا ہوا ہے جہاں سے پاکستانیوں کو آداب عرض کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ لندن میں ہمارے ایک مرحوم دوست کا دفتر ہمارا مستقل اڈا تھا جہاں ہم پاکستانی جمع رہتے تھے وہاں ہمارا ایک ہم نشین دن میں کسی وقت ذرا سی چھٹی کا کہہ کر جاتا اور واپسی پر کچھ سامان اٹھائے آجاتا۔ میں نے اپنے میزبان سے ایک دن شکوہ کیا کہ ہمارا یہ دوست جو بے روزگار ہے ہمارے لیے کھانے پینے کا سامان لے کر آجاتاہے یہ زیادتی ہے۔ دوسرے دن مجھے اس دوست کے ساتھ بھیج دیا گیا ایک دفتر میں کچھ انتظار کے بعد واپسی پر وہ صاحب مٹھی میں کچھ رقم لے کر میرے پاس آگئے۔
ہم نے کچھ سامان خریدا اور واپس اپنے اڈے پر پہنچ گئے۔ کچھ دن بعد مجھے پتہ چلا کہ ہمارے دوست انگریزوں کے کھاتے میں بے روزگار ہیں اس لیے وہ بے روزگاری الاؤنس وصول کرتے ہیں جس سے وہ ہماری خاطر تواضح بھی کرتے ہیں اور کچھ بچا بھی لیتے ہیں۔ اس طرح انگریزوں کے خرچ پر ان کی دوستی اور گھر سب چلتے ہیں۔ میں نے سنا تو پہلے بھی تھا لیکن بے روزگاری الاؤنس دیکھا پہلی بار اور معلوم ہوا کہ ہم کئی پاکستانی یہاں بے روز گار، ہیں اور انگریز ان کی بیروزگاری میں ان کی مالی مدد کیا کرتے ہیں۔
الاؤنس وصولی مجھے اچھی تو نہ لگی لیکن مجھے اپنا ماضی یاد آیا جب ہم ان انگریزوں کے غلام تھے اور یہ ہمیں بے پناہ لوٹتے تھے۔ ان کے کئی شہری اپنی خوبصورتی کے لیے ہماری دولت کے محتاج ہیں اور ان کا عالمی کروفر ہماری طویل غلامی کا نتیجہ اور ثمر ہے لیکن ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ان کی غلامی میں آگئے اور وہ ہمارے بادشاہ بن گئے اور کوئی صدی ڈیڑھ صدی تک ہم پر بادشاہی کرتے رہے۔ بادشاہی کا مطلب ہے کہ ہم اور ہماری جائیداد سبھی بادشاہ کی ملکیت ہے۔ البتہ اب ہم نے انگریزوں کی پیروی کرتے ہوئے پاکستانی دولت سے برطانیہ میں کاروبار بھی شروع کر لیے ہیں۔
ہندوستان میں ہر ضلع میں زمین کا ایک ٹکڑا کراؤن لینڈ کہلاتا تھاجو ڈی سی ضلع انعام میں کسی مخلص کو بخش دیتا تھا۔ ہمارے کئی رؤسا اپنے ضلعوں کے ڈی سی صاحبان کی مہربانی سے رئیس تھے اور ان کی یہ مہربانی نسل در نسل چلتی ہے اور چل رہی ہے۔ ذرا انتظار کیجیے فی الحال میں اپنے لندنی دوستوں کو لاہور سے ہی سلام عرض کرتا ہوں، کیا معلوم حالات کی کوئی کروٹ ہمیں آمنے سامنے کھڑا کر دے اس کا انتظار کریں میں بھی آپ کے لیے بہت اداس ہوں۔ کہاجاتا ہے کہ دنیا ایک گاؤں بن گئی ہے اور فاصلوں کی کھچی ہوئی تنابیں ہم دیکھ اور سن رہے ہیں۔