میں ان دنوں اپنے پسندیدہ منظروں میں گم ہوں۔ ٹیلی ویژن پر بے شمار اقساط پر مشتمل ترک ڈرامہ سیریل ارتغرل غازی چل رہا ہوتا ہے اور میں اس کے اپنے پسندیدہ مناظر میں گم ہو کر قونیہ پہنچ جاتا ہوں۔ میں نے آج سے کئی برس قبل قونیہ میں مولانا روم کے مرقد پر حاضری دی تھی جہاں مجھے اس دوراہے کا بھی بتایا گیا جہاں مولانا روم اور ان کے درویش دوست کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
قونیہ میں اس نیم چوک اور دوراہے کو مجمع البحرین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی دو سمندروں کی ملاقات کا مقام۔ یادوں کی ایک بارات ہے جو روز امڈ آتی ہے اور ترکی کی کئی یادگاریں تاریخ کے جھروکوں سے ایک بار پھر جھانکتی ہیں۔ قونیہ میں مولانا کے مزار کے قریب ہی ان کے دوست کا بھی مزار ہے۔ میں جب بھی حاضر ہوا خواتین کے ہجوم سے راستہ نکال کر بڑی مشکل سے اس قبر تک پہنچا۔ مولانا کے مقبرے کے قریب ہی اس قبر کو بڑی ہی عقیدت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے جن کو شہید کر دیا گیا تھا۔
ان دونوں دوستوں کی کہانی پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن افسوس کہ میں دمشق نہ جا سکا جہاں کے ایک حجرے میں ان صوفیوں کا ڈیرہ تھا۔ میں دمشق تو جاتا رہا لیکن تب مجھے ان کے قیام کے مقام کا علم نہیں تھا۔ صاحب قبر کی تاریخ بتاتی ہے کہ مولانا کی جب اس درویش کے ساتھ اتفاقاً پہلی ملاقات ہوئی تو دونوں ہی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور ان کے درمیان معرفت کا ایسا مکالمہ شروع ہوا کہ کئی دنوں تک اہل قونیہ کو ان کے مرشد مولانا روم دکھائی نہ دیے۔ دونوں کسی ہجرے میں تنہا ہو کر بیٹھ گئے ان کے درمیان کیا گفتگو ہوتی رہی کسی کو اس کا علم نہیں ہے۔
تاریخ تصوف کی یہ ایک عجیب کہانی ہے کہ اہل قونیہ کی نظروں سے مولانا اوجھل ہو گئے اور پورا شہر مدرسے کے طالبعلموں سمیت اپنے استاد اور مرشد کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔ پہلے تو اہل شہر ان دونوں کو ایک ہجرے میں بند ایک ساتھ کلام کرتے ہوئے دیکھتے رہے لیکن وہ پھر دنیا کی نظروں سے گم ہو گئے۔
مولانا کے مرید سخت پریشان ہو گئے اور انھوں نے اس درویش کو الزام دینا شروع کر دیا جس کے ساتھ ملاقات کے بعد مولانا اتنے بدل گئے تھے کہ انھوں نے اپنے عقیدت مندوں سے ملاقاتیں ترک کردیں اور مدرسہ بھی چھوڑ دیا۔
یہ کیفیت مختصر وقت کے لیے تھی لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ دونوں درویشوں کی ملاقات اس قدر طویل ہو گئی کہ وہ اپنے خیالات کی تاب نہ لا کر قونیہ سے چلے گئے۔ یہ ایک طویل کہانی ہے کہ مولانا اور ان کے دوست کہاں اور کس حال میں رہے اور سلوک اور معرفت کے کیا تجربے کیے۔ پھر ایک دن وہ برآمد ہوئے اپنے پیرو مرشد کے ساتھ۔ اس واقعہ کو ایک شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔۔
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزے نہ شد
مولانا روم مولوی سے مولانا صرف اس صورت میں بن سکے جب وہ شمس تبریز کے غلام ہو گئے۔
ارتغرل کے بہت بعد کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جب ترک سلطان سلیمان عالیشان تخت نشین ہوا تھا تو اپنے بڑھاپے میں ایک دن اپنے وزیر اعظم پیری پاشا سے ایک گفتگو میں کہنے لگا کہ پاشا ہم تو جانے والے ہیں ہمارے بعد دنیا کیسی ہو گی۔ وزیر اعظم نے اپنے سلطان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ سلطان معظم انگورہ کی بکریاں اپنی اون کے ساتھ اور مولانا کے درویش اپنے رقص کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ مجھے تو آنے والی دنیا یہی دکھائی دے رہی ہے۔
سلطان جو دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کر چکا تھا یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا اور کچھ دیر بعد بولا پیری پاشا لگتا ہے یہی ہو گا جو تم نے کہا ہے۔ انگورہ کی بکریاں اپنی اون سے جسم ڈھانپیں گی اور مولانا روم کے درویش اپنا رقص جاری رکھیں گے۔
میرے لاؤنج میں ایک بہت بڑی تصویر لگی ہوئی ہے جس میں مولانا کے درویش رقصاں ہیں۔ یہ تصویر اچھے وقت میں میرے دوست، شاعر اور افسرشعیب بن عزیز نے مجھے اپنی حکمرانی کے وقت تحفتاً بجھوائی تھی۔ میرے دوست کو مولانا روم سے میری عقیدت کا بخوبی علم ہے۔ اس لیے یہ نادر تحفہ مجھے خصوصی طور پر عنایت کیا تھا۔ مولانا کے درویشوں کا یہ رقص اپنے پیچھے ایک روایت رکھتا ہے اور آسمانوں سے زمینوں پر اترنے اور زمین سے
بلندیوں کی طرف پرواز کی کوئی داستاں بیان کرتا ہے۔ ان رقاصوں کو حالت رقص میں دیکھ کر لطیف دلوں کو کچھ القاء اور الہام سا ہوتا ہے جسے وہ شاید پوری طرح بیان نہ کرسکیں صرف محسوس کر سکیں۔ اس وقت یہ سب کچھ ایک تصویر کی صورت میں میرے سامنے ہے اور یہ تصویر جس پیار اور عقیدت سے سجائی گئی ہے وہ میں محسوس کر رہاہوں۔
اس تصویر کے علاوہ ہم دنیا پرست پاکستانیوں کو ترکوں نے اور بھی بہت کچھ دیا ہے مولانا کے ملک کے حکمران جو ہمارے سچے دوست ہیں ان کی طرف سے پاکستانیوں کے لیے تحفے تحائف موصول ہوتے رہتے ہیں اور ان سرکاری تحفوں میں سے کچھ ہم اپنے ذاتی استعمال میں بھی لے آتے ہیں۔
جیسے ایک بیش قیمت ہار جوترک خاتون اول نے تحریک خلافت میں برصغیر کی خواتین کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اپنے گلے سے اتارکر پاکستان کو تحفہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی سلسلہ نقشبندیہ کے پیروکار ترکوں نے پاکستان کا بھر پور ساتھ نبھایا ہے جس کا نعرہ ہے۔
"دست بکار دل بہ یار " کہ ہاتھ کام میں مصروف اور دل یار میں۔ آج کے ترکوں نے یہی کیا ہے مگر ان کے ہاتھ اور دل دونوں پاکستانیوں کے ساتھ ہیں۔ میں اپنے سامنے تصویر میں درویشوں کے ذریعے مولانا اور ترکوں کو یاد کرتا رہتا ہوں جو سفید لبادے اور سرخ ٹوپی میں رقص کناں ہیں۔