کورونا کی وباء نے جہاں پر دنیابھر کو متاثر کیا ہے، وہیں پر پاکستان اس کے متاثرین میں نمایاں مقام حاصل کر رہا ہے۔ مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور اسی شرح سے اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔
لاک ڈائون کے آغاز میں عوام میں خوف کی کوئی علامت نظر نہیں آتی تھی لیکن جب سے لاک ڈائون کا خاتمہ ہوا ہے اور کورونا سے اموات کی شرح بڑھ گئی ہے تب سے عوام میں پریشانی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ خوف کی فضاء ہے اور ہر انسان دوسرے کے لیے اچھوت بن گیا ہے۔ ہر دوسرا شخص وبا کا شکار بن گیا ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ وہی اس وبا سے محفوظ ہے جس نے ابھی تک اپنا ٹیسٹ نہیں کرایا۔
ان حالات میں عرب میں قحط کے زمانے میں ایک مسلمان حکمران کے کردار کا ذکر کر کے میں اپنے آج کے مسلمان اور ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا البتہ ایک غیر حکمران درویش اور صوفی کا سرسری ذکر کرتا ہوں کہ پیران پیر حضرت سید عبدالقادر جیلانی نے آخری عمر میں کھانا اس لیے ترک کر دیا تھا کہ ان کے علم کے مطابق کئی مسلمانوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا۔
کیا ہمارے کسی حکمران نے ایسی درویشی اختیار کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان بدترین وبا کا شکار ہے اور یہ جاں گسل صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ ہمیں اس کا پہلے سے علم تھا اور ہمارے وزیراعظم بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ آنے والے دن مشکل ہوں گے جیسا کہ انھوں نے جولائی اور اگست کے مہینوں میں اس وبا کی سختی کے متعلق پہلے سے آگاہ کر دیا ہے۔
ایک عفریت ہے جو منہ کھولے بڑھے چلا آرہا ہے مگر ہم سب اپنی سیاست میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسا کر اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ اصل میں اس وباء سے کتنے انسان جان کی بازی ہار چکے ہیں کیونکہ ابھی تک سرکاری اعداوشمار پر ہی بھروسہ کیا جارہا ہے۔
کوئی بھی وباء اسلامی اصطلاح میں عذاب کی ایک صورت ہے اور یہ عذاب اس وقت نازل ہوا ہے جب ہم بطور مسلمان پستیوں کو چھو رہے ہیں۔ ہمارے اندر کا انسان مر چکا ہے، ہم نے ناجائز منافع خوری اور ناپ تول میں کمی کو اپنا ایمان بنا لیا ہے۔ بے ایمانی اور چوری ہم نے اپنے آپ پر لازم کر لی ہے۔ اﷲ اوراس کے رسول ﷺ کے احکامات سے صریحاً رو گردانی کرتے ہیں یعنی ہم نے وہ تما م اسباب جمع کر لیے ہیں جو عذاب الٰہی کے لیے کافی ہیں اور یہ عذاب اب ہمارے درمیان موجود ہے اور بڑھتا چلا جارہا ہے۔
چند ایک محفوظ علاقوں کے باشندے اپنے ہم وطنوں کی بے بسی کی حالت دیکھ رہے ہیں جو موت سے لڑ رہے ہیں۔ دل تسلیم نہیں کرتا مگر حیرت اس بات پر ہے کہ ہماری اپوزیشن اورغیر جانبدارسیاسی قیادت بالکل خاموش ہے بلکہ قرنطینہ میں ہے۔ حالانکہ ان کو اس مشکل وقت میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے تھا مگر یہ سب خود قرنطینہ میں چلے گئے اور صورتحال یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
سرکاری اور غیر ملکی چندوں پر پلنے والی تنظیمیں بھی کونے کھدروں میں دبک گئی ہیں، صرف ایک واحد جماعت اسلامی کا نام ہے جو الخدمت فائونڈیشن کی صورت میں چہار سو گونج رہا ہے۔ جماعت کے رضا کار اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں مشغول ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا سیاسی قیادت عوام میں شامل ہو جاتی اور ان کے دکھ درد کی ساتھی بن جاتی، ان کے زخموں پر مرہم رکھتی لیکن افسوس کہ ایسی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ مجھے وہ پرندہ یاد آرہا ہے جو حضرت ابراہیم کا دوست تھا جب اس نے دیکھا کہ اس کے دوست کو آگ میں ڈال دیا گیا ہے تو ا س نے کہا کوئی بات نہیں میں یہ آگ بجھا دوں گا چنانچہ وہ اڑ کر پانی تک جاتا چونچ میں پانی کا قطرہ بھر لیتا اور اسے آگ پر ڈال دیتا وہ اسی کام میں لگا رہا تا آنکہ یہ آگ قدرت نے گلزار کر دی اور جب اس پرندے نے یہ دیکھا تو اپنے دوست کی نجات اور اپنی کامیابی پر خوشی سے دیوانہ ہو گیا اور ہوا میں قلابازیاں لگانے لگا مگر ہم بے بس پاکستانی تو اس پرندے سے بھی بدقسمت ہیں جوکسی قلابازی کے لیے اپنے رہنمائوں کی طرف سے ہمدردی کے چندبولوں کے منتظر رہتے ہیں۔
میں ٹیلی ویژن پر اپنے رہنمائوں کو دیکھ رہا ہوں ان کے الفاظ بناوٹی اور ان کے چہرے مہرے سے کسی پریشانی کا کوئی اظہار مجھے دکھائی نہیں دے رہا۔ ہمارے وہ لیڈر حضرات جنھوں نے اب تک عوام کا حال نہیں پوچھا جو اب تک اس گرم موسم میں اپنے ٹھنڈے گھروں اور سرکاری دفتروں میں کافیاں پی رہے ہیں اور وباء کے خطرے سے اپنے آپ کو لاتعلق رکھے ہوئے ہیں جو ان علاقوں اور لوگوں سے لاپروا ہیں جن سے وہ ووٹ حاصل کر کے آئے ہیں، میری خواہش ہے کہ ان سب عوامی نمایندوں کو زبردستی عوام میں بھیج دیا جائے تا کہ ان کو معلوم ہو کہ عوام پر کیا بیت رہی ہے۔
میں نے اس وباء کامقابلہ کرنے کے لیے حکمرانوں کے کئی اجلاس دیکھے ہیں جن کے شرکاء پر کسی طرف سے یہ گمان نہیں گزرتا کہ وہ ایک عذاب میں مبتلا ہیں اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کے ذمے دار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان اجلاسوں میں ان کے حفاظتی امور پر جتنا خرچ آتا ہے اس سے کئی انسانوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہوں گی۔ کوئی مجھ سے پوچھے تو ہمارے کسی صاحب دل حکمران کو یہاں کہیں کسی سرکاری اسپتال میں کسی پاکستانی کے ساتھ مرجانا چاہیے تھا۔ مرنا تو ایک دن ہے ہی کیوں نہ ایسی موت مریں جو قوم کوزندگی دے جائے۔