سیاست کے ہنگامے میں جب نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں تو مجھے سیاسی اتحادوں کے سرخیل نوابزداہ نصر اللہ خان یاد آرہے ہیں۔ جن کی ذات گرامی زندگی بھر حکومت کی اپوزیشن تحریکوں کی روح رواں رہی۔ نواب صاحب جمہوریت کے ایسے دیوانے تھے کہ وہ اس کی بحالی اور وجود کے لیے سیاستدانوں پر کوئی قدغن لگانے کے حق میں نہیں تھے۔
وہ جمہوریت کی خرابیوں کا علاج بھی جمہوریت میں ہی سمجھتے تھے۔ وہ چونکہ جمہوری مزاج کے سیاستدان تھے اس لیے میں تما م تر نیاز مندی کے باوجود بعض اوقات زبانی اور تحریری اختلاف کر لیتا تھا کہ آپ ان لوگوں کوکسی جمہوری حکومت کے قابل سمجھتے ہیں جو مصدقہ کرپٹ ہیں۔ لیکن وہ یہی جواب دیتے تھے کہ اس کا علاج بھی جمہوریت میں ہے، یہ چھلنی حرکت میں رہے تو سب ناقص دانے اس میں سے چھٹ کر نکل جائیں گے۔ جمہوریت پر ان کا یہی پختہ ایمان ان کو عمر کے آخری حصے تک شہر شہر لیے پھرتا رہا۔
نوابزادہ صاحب کے تمام اتحادوں کا میں عینی شاہد اور زیادہ تر کا واحد ہمدرد رپورٹر رہا ہوں۔ اپوزیشن کا وجود جمہوریت کے لیے لازم سمجھتا ہوں، اگر کسی حکومت کی موثر اپوزیشن موجود نہیں ہے تووہ ملک کے لیے ایک خطرہ ہے۔ جنرل ضیاالحق کا زمانہ تھا، ان کی حکومت گو بے فکر نہ تھی مگر بے خطر ضرور تھی۔ جناب صدر اپنی مشہور زمانہ عجزو انکساری کے ساتھ مسکرائے چلے جارہے تھے۔
ان کے نیاز مندوں یا مستقل ملاقاتیوں میں، میں بھی شامل تھا۔ افواج پاکستان کے سپہ سالار اور پاکستان کے مطلق فرمانروا مگر اس قدر نفیس مزاج اور نرم خو کہ ان سے ملاقات میں الجھن ہر گز نہیں ہوتی تھی۔ نواب زادہ صاحب صدر ضیاء سے بیزار ہو چکے تھے اور پیپلز پارٹی تو تھی ہی بیزار اور متنفر چنانچہ ان دونوں کے درمیان رابطے کا فیصلہ ہوا اور میرا غریب خانہ جائے ملاقات تجویز ہوا۔ نوبزادہ نصراللہ خان، بھائی ملک معراج خالد اور میاں احسان الحق ایک دن خاموشی کے ساتھ میرے ہاں وقت مقررہ پر تشریف لائے اور بحالی جمہوریت کے لیے تحریک شروع کرنے کے امکانات پر گفتگو ہوئی۔
میں اس وقت دوسرے کمرے میں تھا۔ میرا ان کے پاس بیٹھے رہنا مناسب نہ تھا۔ دونوں متحارب گروپوں میں برف پگھل گئی اور اس کے بعد رفتہ رفتہ وہ دن آیا جب ایم آر ڈی کے نام سے ایک تحریک قائم اور شروع ہو گئی۔ یہ وہ واحد تحریک تھی جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی ورنہ نواب صاحب کسی تحریک کی ناکامی سے شناسا نہیں رہے تھے۔
میرے ہاں ملاقات کا رازکھل گیا، خفیہ ادارے سرگرم ہو گئے مگر حکومت کے تخت پر ایک شریف انسان بیٹھا تھا، اس نے کسی ملاقات میں اس طرف اشارہ تک نہ کیا اور نہ ہی ان کی گرمجوشی میں کوئی کمی آئی بلکہ میں نے محسوس کیا کہ وہ پہلے سے زیادہ مہربان ہیں۔ ممکن ہے وہ اس طرح مجھے زیادہ شرمندہ کرنا چاہتے ہوں۔
نواب صاحب عمر بھر جمہوریت دشمنوں پر کاری ضرب لگانے کے حق میں رہے اور اس میں کامیاب بھی رہے۔ عمر کے آخری حصے میں بھی انھوں نے ایک جواں مردکی طرح نئے اتحاد کی بنیاد ڈالی حالانکہ ان کی جسمانی صورتحال یہ تھی کہ وہ اپنے دل کی دھڑکنوں کو متوازن رکھنے کے لیے ایک آلہ لگوانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر آرام کا مشورہ دیتے رہے کیونکہ ایسے مریضوں کی بقا ہی آرام میں ہے لیکن یہ مریض اپنی بقا آخری دم تک ایک بامقصد زندگی میں سمجھتا تھا ایک سرگرم اور کارکن زندگی جو اس کی اپنی بقا کے لیے مضر ہی کیوں نہ ہو جمہوریت کی بقا کے لیے لازم ہے۔
انھوں نے اپنی شاعری سمیت اپنی تما م جمع پونجی جو وراثتی زمینوں اور آم کے باغوں کی صورت میں موجود تھی، وہ سیاست کی آبیاری پر لٹا دی اور اپنے پاس سیاست کے سوا کچھ نہیں چھوڑا۔ ان کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی اتنی پختہ رہی کہ جب تک آنکھوں میں دم رہا وہ جمہوریت کی پرورش کے لیے ساغر و مینا اپنے سامنے رکھے رہے۔
نوابزادہ صاحب کی اپنی ایک پارٹی پاکستان جمہوری پارٹی کے نام سے قائم رہی۔ یہ جماعت نواب صاحب نے چوٹی کے لیڈروں کی معیت میں قائم کی تھی جسے وہ زندگی بھر چلاتے رہے لیکن افسوس کہ ان کے وفات کے بعد ان کے صاحبزادے اپنے والد کی سیاسی میراث کو سنبھال نہ سکے۔
اب یہ تاریخی جماعت باقی نہیں اور اس کا ادغام عمران خان کی تحریک انصاف میں کئی برس پہلے کر دیا گیا تھا، ویسے تو حالات نے اس جماعت کو وقت کی نذر کر ہی دیاتھا کیونکہ اسے اپنے نام لیوا نہ مل سکے اور بالآخر نواب صاحب کے صاحبزادے منصور علی خان جو پارٹی کے صدر تھے انھوں نے اپنی جماعت کو عمران خان کے سپرد بلکہ ان کی نذر کر دیا جس کے قائد نوابزادہ صاحب تھے اور جسے ہم انھیں تنگ کرنے کے لیے تانگہ پارٹی کہا کرتے تھے لیکن چند افراد پر مشتمل یہ جماعت اپنے لیڈر کی عظمت کی وجہ سے اتنی بڑی تھی کہ ملک بھر کے سیاستدان اور پارٹی سربراہان اس کے لیڈر کے ہاں حاضری دیا کرتے تھے۔
کون سا لیڈر ہے جو میں نے اس مختصر سے کمرے میں نہیں دیکھا۔ ایک صوفہ دو چار کرسیاں نواب صاحب اور ان کا ہردم زندہ گڑگڑاتا ہوا حقہ۔ یہ جماعت جس کے نام سے منسوب تھی وہ چلا گیا تو پارٹی بھی چند سال سسک سسک کر گزر گئی۔ مرحوم و مغفور نواب صاحب کو خدا نے ایسی صلاحیت دی تھی کہ ان کی ذات مجمع الخلائق تھی۔ قریباً تمام سیاسی اتحاد ان کی ذات کی کوششوں سے اس چھوٹے سے کمرے میں تشکیل پائے اور موچی دروازے سے ہوتے ہوئے پورے ملک میں پھیل گئے۔ نواب صاحب سیاسی اتحاد بناتے بناتے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے۔
میں آج بھی جشم تصور میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کی آنکھیں بند ہیں، حقے کی نے منہ میں ہے لیکن ہلکی ہلکی گڑ گڑاہٹ کی دھن پر نے کو تھامی ہوئی انگلیاں اس نے کو بانسری کی طرح بجا رہی ہیں، چہرے پر طمانیت ہے اور ایک ایسی نفیس کیفیت جو کسی شعرکے الہام کے وقت طاری ہوا کرتی ہے۔
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے