کوئی بھی جمہوری حکومت ایک موثر اپوزیشن کے بغیر جمہوری نہیں کہلا سکتی۔ اتفاق سے اگر حکومت کی اپوزیشن نہ ہو تو وہ بنانی پڑتی ہے کیونکہ اپوزیشن کسی حکومت کا لازمی حصہ ہے جس سے کوئی حکومت مکمل ہوتی ہے۔
تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ اقتدار کے دو برس گزارنے کے باوجود وہ ابھی تک موثر اپوزیشن کے بغیر کام کر رہی ہے، موجودہ حکومت نے ابھی تک جو کام کیے ہیں وہ خود ہی اس کی اپوزیشن کا کام کر رہے ہیں اور اس کو کسی اصلی اپوزیشن کی ضرورت نہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وہ اس معاملے میں خود کفیل ہے۔
حکومتی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اسمبلیوں میں موجود اپوزیشن کی جماعتوں کو کئی بھر پور مواقع ملے جب وہ حکومت کو نیچا دکھا سکتے تھے لیکن بقول مولانافضل الرحمن کے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں حکومت کی سہولت کار ہیں اور حکمرانوں کو جب بھی ضرورت پڑتی ہے دونوں ووٹ اور سپورٹ فراہم کرتی ہیں۔
اپوزیشن کی دونوں جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے ان کا گلہ بجا ہے، دونوں جماعتوں نے ہر اہم معاملے پر حکومت کا مکمل ساتھ دیا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن یہ گلہ کرتے شاید بھول گئے کہ ملک کے کچھ قومی مسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں ذاتی عناد اور ملکی سیاست کو بالا ئے طاق رکھ کر سیاسی جماعتیں ملکی مفاد میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہیں جو کسی مقامی سیاست سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے اور ابھی تک اگر پاکستانی قوم اپنے لیڈروں کو برداشت کرتی آئی ہے تو ان کا یہی قومی رویہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے حالانکہ اگر ان کے کرتوتوں کو دیکھا جائے تو یہ قوم شاید انھیں ایک دن بھی برداشت نہ کرے۔ لیکن جب بھی پاکستان کو کسی مسئلے پریکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے تو ملکی سیاست کے تمام رہنماء ایک ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا تسلسل بڑی خوشی کی بات ہے۔ آخری مارشل لاء کے بعد یہ مسلسل تیسری جمہوری حکومت ہے۔ اس سے قبل دونوں حکومتوں کوآئینی مدت مکمل کرنے کے بعد الیکشن میں عوام نے مستردکر دیا جس کی بنیادی وجہ ان کی کارکردگی اور کرپشن کے الزامات تھے جس سے عوام نالاں تھے۔ میاں نواز شریف کی حکومت کو عمران خان کی جاندار اپوزیشن نے مسلسل ہدف تنقید بنائے رکھا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا طویل ترین احتجاج دھرنے کی صورت میں عمران خان کی جماعت کی جانب سے کیا گیا۔ اسمبلیوں میں حکومت کی اصل اپوزیشن پیپلز پارٹی کی تھی لیکن حکومت اور اپوزیشن کے گٹھ جوڑ سے عمران خان نے فائدہ اٹھایا اور ایک حقیقی اور جاندار اپوزیشن رہنماء کے طور پر سامنے آئے۔
انھوں نے عوام میں حکومت کی کمزوریوں کو اجاگر کیا اور اپنی جذباتی تقریروں سے عوام کی آنکھوں میں خوبصورت اور خوشحال مستقبل کے دیے روشن کیے۔ نواز لیگ کی بدقسمتی کہ اس کی حکومت کے مثبت کام بھی پاناما کیس کی نذر ہو گئے جس کا نقصان انھیں الیکشن میں ہوا، ان کی جماعت الیکشن میں حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں نشستیں حاصل نہ کرسکی۔
عمران خان کی بھر پور اپوزیشن نے ان کے تمام کاموں پر مٹی ڈال دی۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں چند ایک اضلاع کے علاوہ شہبازشریف کی طویل اور شاندار کارکردگی بھی ماند پڑ گئی۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو عمران خان ایک ناتجربہ کار سیاست دان تھے لیکن انھوں نے عوام میں حکمرانوں کا چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں والا تاثر اتنا پختہ کر دیا کہ نئے پاکستان کے نئے حکمران کی صورت میں اپنے لیے راہیں ہموار کر لیں۔
وہی لوگ جو کل اپوزیشن میں تھے، آج حکومت کے ساتھی ہیں اور جو لوگ آج اپوزیشن میں ہیں کل حکومت میں دکھائی دے رہے تھے۔ کل کے حکمرانوں کو آج اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہوگا اور آج کی اپوزیشن میں وہ لوگ دکھائی دینے چاہئیں جو کل کے حکمران تھے لیکن عمران خان کی خوش قسمتی پر رشک آتا ہے کہ کل کی اپوزیشن اور حکمران سب اس کے ساتھ ہیں۔ احمد مشتاق نے مہاجرین کے لیے ایک خوبصورت شعر کہا تھا جو انسانوں کے مسلسل بدلنے والے حالات میں آج کچھ دوسرے لوگوں پر صادق آتا ہے۔
فٹ پاتھ کی دیوار سے چپکے ہوئے پتے
اک روز ہواؤں کو سر شاخ ملے تھے
ایک سیاستدان کے لیے اگر وہ محض جاہ طلب ہی نہیں کچھ سیاسی عقائد بھی رکھتا ہے تو اپوزیشن میں بیٹھنا کچھ مشکل نہیں ہوتا بلکہ اسے اپوزیشن میں زیادہ مزہ آتا ہے اور حکومتی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہو کر اپوزیشن کرنا بھی ایک عیاشی ہے خصوصاً اس صورت میں جب آج کی اپوزیشن اپنی کل کی حکومت کا کچھ اچھا اثاثہ بھی رکھتی ہو۔ لوگ بہت جلد سب بھول جاتے ہیں کہ کل کون فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر حکومت میں آیا تھا اورآج اپوزیشن میں ہے کیونکہ آج کے حکمران بھی فوج کے زیر سایہ ہی ہیں یعنی سب ایک ہی آستانے کے نیاز مند ہیں، اس لیے کہا یہ جارہا ہے کہ کل کی اسمبلی میں کوئی کسی کو آمریت کی حمایت کا طعنہ دینے کے قابل تو نہیں ہوگا۔
اپوزیشن اپنا فرض کیسے ادا کرے اور حکومتی نمایندے اسمبلیوں میں اپوزیشن کے حملوں کا کیا جواب دیں۔ اگر اپوزیشن ذاتی مخاصمت کے بجائے تعمیری کردار ادا کرے اور اسمبلیوں میں صرف نعرہ بازی کرنے، ڈیسک بجانے اور واک آؤٹ کرنے کے بجائے حکومت کی خبر لیتی رہے اور سابقہ حکومتوں سے اپنا موازنہ کرتی رہے تو اس کردار کو خوبصورتی سے ادا کرنے کے لیے ان کے پاس بہت کچھ ہے۔
انھوں نے اپنی حکومت میں اتنے کام کیے ہیں کہ ماضی کی کوئی حکومت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اس لیے وہ اگر چاہئیں تو پوری جرات اور اطمینان قلب کے ساتھ اپوزیشن کا حق ادا کرسکتے ہیں اور عوام کو مطمئن کر سکتے ہیں لیکن اپوزیشن میں ابھی تک اتفاق رائے نہیں پایا جارہا اور شیخ رشید نے مولانا فضل الرحمن کوبجا طور پر جاگتے رہنے کاکہتے ہوئے دوبارہ استعمال نہ ہونے کا مشورہ بھی دیا ہے۔