اس وقت ملک کی پوری زندگی کی یہ حالت ہے کہ قوم ایک خوف میں مبتلا ہے اور خوف مایوسی پیدا کرتا ہے، انسانوں کو غمزدہ کردیتاہے، ان سے زندگی کی امنگ چھین لیتا ہے۔ اس خوف کو ہمارے رہنماؤں نے ختم کرنا ہے اور اس قوم کو پھر سے زندہ کرنا ہے، قوم میں جان ڈالنی ہو گی تو ان کا اقتدار کسی کام کا ہوگا۔
مجھے نہیں معلوم حکمران ان پہاڑ جیسی مشکلات پر کس طرح قابو پائیں گے۔ ترقی پسندی اور نئے پاکستان کے اس دور میں ایک دقیانوسی بات کرتا ہوں کہ ہمارے حکمران قوم کی خدمت کا سبق اور ریاست مدینہ بنانے کا عمل ہمارے اپنے خلفائے راشدین سے سیکھیں جن سے دنیا نے سیکھ کر عوام کی خدمت کے راستے تلاش کیے ہیں اور ایک فلاحی ریاست کا تصور اپنایا ہے جسے انسانی تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں نے اختیار کیا تھا۔ زیادہ دور یورپ تک جانے کی ضرورت نہیں، ہمارے حکمران اپنے پڑوسی ایران کے حکمرانوں کو دیکھ لیں کہ وہ زندگی کس طرح گزار رہے ہیں، ماضی میں احمدی نژاد وہیں رہتا تھا اور ویسی ہی زندگی بسر کرتا تھا جو وہ ایران کی صدارت سے پہلے کرتا تھا۔
ہم تو ایران سے بہت آگے تھے، ہمارے ساتھ جو ہوا وہ آپ سب کو معلوم ہے اور اب ہمارے لیڈروں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کا کھویا ہوا زمانہ واپس لائیں گے، لوٹی گئی دولت واپس خزانے میں جمع ہو گی، کروڑوں نوکریاں ملیں گی، باہر سے لوگ روزگار کی تلاش میں پاکستان آئیں گے، میں ان کی بات اس حد تک تسلیم کرتا ہوں کہ ایسا ہو سکتا ہے، اگر نیک نیتی سے کوئی کرنے والا ہو تو قوم اب بھی اس کا ساتھ دینے پر تیار ہے۔ انتہائی ناموافق حالات میں جو قوم ایٹم بم بنا سکتی ہے، وہ مایوس اور مضحمل تو ہو سکتی ہے مر نہیں سکتی۔
کبھی اسلام اور کبھی پاکستان یہ دونوں ہمیشہ خطرے میں رہے ہیں اور عوام نے اس خطرے کو سیاستدانوں کا نعرہ سمجھا ہے لیکن اسلام کو تو چھوڑیئے پاکستان ان دنوں حقیقی خطرے سے دوچار ہے اور جب عمران خان یہ کہتا ہے کہ ملک کی معیشت کے حالات دگرگوں ہیں جس کی وجہ سے حکومت موجودہ بجٹ میں عوام کو اور خاص طور پر سرکاری ملازمین اور پینشنرز کو کوئی سہولت نہیں دے سکی تو یہ بات درست ہے، اسے ایک نئے حکمران یا نا تجربہ کار حکمران کی بات نہیں سمجھنا چاہیے، عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کا ملک معاشی حالات کی وجہ سے ان کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔
دوسری طرف حکومت میں آنے سے قبل عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک بچانے اور عوام کو ظالموں سے نجات دلانے آرہے ہیں، ان کے پاس ملک کی معیشت درست کرنے اور ملکی اداروں کو بحال کرنے کے مکمل حکمت عملی اور ماہرین موجود ہیں لیکن شو مئی قسمت کہ دوسا ل کا عرصہ گزر گیا ہے اور ابھی تک ان کا یہ وعدہ وفا نہیں ہو سکا اورکسی بھی شعبے میں بہتری کی کوئی امید اور آثار نظر نہیں آتے۔ سوائے اس کے کہ حکومت اپوزیشن کو قید کرنے میں اوراپنے ساتھیوں کوآزاد کرنے میں مصروف ہے۔ عوام تو ایسی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس میں نہ جان کی حفاظت ہے اور نہ مال کی۔ جان و مال کی حفاظت کسی ریاست کا بنیادی فرض ہے مگر ریاست کو اپنی جان کی پڑی ہوئی ہے، ایک زرعی ملک میں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔
آٹا مل جائے تو اسے پکانے کے لیے چولہا کیسے گرم کیا جائے کہ گیس کی ہوشرباء قیمتیں اسے نایاب بنا دیتی ہیں۔ ایک آگ ہے جو ہر طرف لگی ہوئی ہے جس میں عوام جھلس رہے ہیں مر رہے ہیں۔ سب کر رہے ہیں آہ و فغان سب مزے میں ہیں، والا معاملہ ہے۔
قوم کہتی ہے کہ کوئی عالم غیب سے آئے اور اس لوٹ مار کو بند کر دے۔ نہیں معلوم پاکستان کے کسی دکھی دل کی فریاد کب عرش معلیٰ تک پہنچے گی اور قوم کو غیبی مدد پہنچے گی۔ یوں تو ہر روز اخبار کی سرخیاں دیکھ کر ان میں سے کالم کے لیے خبر تلاش کرتا ہوں لیکن آج مجھے خبروں پر نظر ڈالتے ہوئے اقبال کا ایک شعر یاد آگیا ہے جو غالباً کسی شعر کی تضمین ہے۔
گماں مبر کہ بہ پایاں رسید کارمغاں
ہزار بادہ، ناخوردہ در رگ تاک است
یہ گما ں مت کرو کہ مے خانے کے پیر مغاں کا کام ختم ہو چکا ہے ابھی تو انگور کی شاخ کی رگوں میں ہزاروں جام باقی ہیں جو پئے جانے کے منتظر ہیں۔ تو جناب حکومتی اتحادیوں میں دراڑ کی خبروں کو بھی انگور کی کوئی شاخ سمجھ لیں جس کی رگوں میں سے نہ جانے کتنے جام باہر آنے کو تڑپ رہے ہیں۔
پہلا جام اختر مینگل کی شکل میں باہر آچکا ہے، جن کا گلہ ہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدے وفا نہیں کیے گئے، انھوں نے دوسال تک انتظار کیا اور وہ اب حکومت میں واپسی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے کہ بلوچستان میں کوئی یو ٹرن کا بورڈنہیں ہے۔ مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ سیاسی خبروں کے قحط کا زمانہ گزر چکا ہے اور سیاسی کالموں کے موضوعات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اگر ہماری حکومت اور حکمرانوں کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ یہی رویہ رہا تو پھر کالم کم ہوں گے اور موضوعات زیادہ اور ہم یہ سوچیں گے کہ کس جام کو پئیں اور کسے چھوڑیں۔