جب وہ حکمران بنا تو سب سے پہلے اس نے لوگوں سے کہا کہ میری مرضی کے بغیر مجھے حکمران نامزد کیا گیا ہے، اب جب کہ مجھے نامزد کر دیا گیا ہے تو آپ کی مرضی ہے کہ میں یہاں رہوں یا نہ رہوں، جب اطمینان ہو گیا کہ لوگ اسے چاہتے ہیں تو پھراس نے کام کا آغاز کیا اور سب سے پہلے اپنی ذات سے شروع کیا۔
وہ ایک شہزادہ تھا، دن میں کئی بار لباس تبدیل کرتا تھا اور جب اس لباس پر لوگوں کی نظر پڑ جاتی تھی تو اسے یہ کہہ کر ہمیشہ کے لیے اتار دیتا تھا کہ لباس دکھانے کے لیے ہوتا ہے اور جب لوگوں نے دیکھ لیا ہے تو اسے بدل لینا چاہیے۔ خوشبوؤں میں بسا رہتا تھا، کئی برس تک مصر کا گورنر رہا، مدینہ میں بھی اسی عہدے پر کام کیا، اپنی چچا زاد فاطمہ سے محبت کی شادی کی اور اپنی زندگی وقت کے عیش و عشرت کے سامان سے سجا لی لیکن پھر یوں ہوا کہ وہ پوری سلطنت کا مالک بنا دیا گیا اور اس کے بعد اس کے اندر سے ایک اور شخص طلوع ہوا جس نے آنے والے مورخین کو حیران و پریشان کر دیا۔
وہ شاہی خاندان سے تھا اور اس کے خاندان نے اس مسلمان سلطنت کو اپنی جاگیر بنا لیا تھا جس میں رعایا کی آزادی ختم کر دی گئی تھی بیت المال ذاتی خزانہ بن گیا تھا جسے ناجائز آمدنی سے بھرا جاتا تھا اور پھر اس ناجائز آمدنی کو عیش و عشرت میں اڑا دیا جاتا تھا۔ شاہی خاندان نے وسیع جاگیریں بنا لی تھیں۔ حکومت کے عمال اور حکام بھی اسی شاہی روش پر چلتے تھے۔ غرض وہ تمام برائیاں موجود تھیں جو ایک شخصی حکومت میں ہوا کرتی ہیں۔ اگرچہ مسلمانوں کی خلافت راشدہ سے متصل ہی یہ خاندان حکمران بنا تھا لیکن اس کی حکومت میں اسلامی خلافت کی روح مردہ ہو گئی تھی۔
اس حکمران نے اپنے اس خاندان سے بسم اﷲ کی جو بظاہر ایک ناممکن کام تھا۔ اپنی بڑی جاگیر واپس کر دی، اس کے بعد اہل خاندان کو بلایا اور کہا، اے بنی مروان تم کو شرف اور دولت کا بڑا حصہ ملا ہے، میرا خیال ہے امت مسلمہ یعنی عوام کا نصف یا دوتہائی مال تمہارے قبضے میں ہے اسے واپس کر دو۔ اہل خاندان یہ سن کر حیران و پریشان ہو گئے۔ انھوں نے اس تجویز پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ شدید ترین مزاحمت ہوئی لیکن اس نے جواب دیا، اگر تم نہیں مانو گے تو میں تم کو ذلیل و رسوا کر کے چھوڑوں گا۔ عوام کو بلایا اور ان کو بتایا کہ اموی خاندان نے ایسی جائیدادیں بنائی ہیں جن پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔
اب میں یہ سب اصل حق داروں کو واپس کرتا ہوں اور اس کی ابتدا اپنی ذات اور خاندان سے کرتا ہوں۔ اس کے بعد مسجد میں وہ جائیدادوں کے کاغذات منگواتے اور قینچی کے ساتھ ان کو کتر کتر کر پھینکتے جاتے۔ صبح سے شام تک یہ سلسلہ جاری رہا، سب کچھ ان کے اصل حق داروں کو واپس کر دیا۔ ان کی بیگم کو ان کے والد نے ایک بیش قیمت پتھر دیا تھا۔ انھوں نے گھر جا کر اپنی بیوی کو کہا کہ مجھ میں اور اس پتھر میں سے کسی ایک کو منتخب کرلو۔ بیوی کی مرضی سے وہ پتھر بیت المال میں جمع کرادیا۔ اس عمل سے ان کا شاہی خاندان بالکل تہی دست ہو گیا۔ منت سماجت کی گئی، دھمکیاں دی گئیں، سفارشیں ہوئیں لیکن یہ حکمران دلیل کے ساتھ ان مخالفتوں کو شکست دیتا رہا۔ ان کی والدہ عمر بن خطاب ؓ کی پوتی تھیں۔ ان کی معمر پھوپھی نے سر پیٹے ہوئے کہا کہ میں نہ کہتی تھی، اس خاندان میں شادی بیاہ نہ کرو، اب اسے بھگتو۔
جس حکمران نے اپنی ذات اور اپنے خاندان کو نہ بخشا اس نے دوسروں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس نے وسیع و عریض سلطنت کا کلچر ہی بدل دیا۔ اسپین، سمر قند اور سندھ تک اپنے نمایندے بجھوا کر حالات درست کیے۔ ظالموں اور لوگوں کا مال کھانے والوں پر قہر بن کرٹوٹا لیکن اس قہر میں سے عوام کے لیے خوشحالی امن اور سکون کی زندگی آشکار ہوئی۔
اس قدر آسودہ حالی آگئی تھی کہ کوئی حاجت مند باقی نہ رہا اور خیرات لینے والے تلاش کرنے پڑتے تھے۔ اس کی سلطنت میں ایک ظالم خاندان تھا جس میں سے حجاج بن یوسف تھا، اس پورے خاندان کو یمن جلا وطن کر دیا اور وہاں کے گورنر کولکھا کہ میں تمہارے پاس عرب کا بدترین خاندان بھیج رہا ہوں، اسے اپنی حدود میں منتشر کر دو۔ حجاج کے جو قریبی لوگ تھے، ان سب کو ہر قسم کے ملکی حقوق سے محروم کر دیا۔ ان کا خاندان اس حد تک مخالف ہو گیا کہ اس نے ان کے ایک خادم کو ایک ہزاراشرفیاں دے کر انھیں زہر دلا دیا۔ آپ کو دوران علالت اس کا علم ہو گیا، ملزم کو معاف کر دیا اور ایک ہزار اشرفیاں واپس لے کر بیت المال میں داخل کرا دیں۔
مورخین ان کو عمر بن خطاب ؓپر بھی ترجیح دیتے ہیں کہ انھیں پیغمبر کے تربیت یافتہ لوگ اور معاشرہ ملا تھا لیکن اس حکمران کو انتہائی بگڑا ہوا معاشرہ ملا لیکن اس نے صرف ڈھائی برسوں کی حکمرانی میں بہت کچھ بدل دیا۔ اس حکمران کا نام تھا عمر بن عبدالعزیز۔ جن کے طرز حکمرانی کے بارے میں لکھی گئی کئی کتابیں بھی کم ہیں اور اس مختصر سی تحریر میں ان کے کارناموں کا احاطہ قطعی طور پر ممکن نہیں۔
اس حکمران کی یاد مجھے یوں آئی جو آج کل کے بدترین حالات بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ برے حالات میں حکومت میں آیا اور صرف دو سال پانچ ماہ میں اپنے دور کی سب سے بڑی سلطنت کو عدل اور انصاف کی برکات سے بھر دیا۔
یہ وہ لوگ تھے جن کی داستانیں پڑھ کر ہم سوچتے ہیں کہ نئے زمانے میں بھی ہمیں کبھی ایسے حکمران نصیب ہوں گے جو زبانی کلامی نہیں بلکہ عملاً اپنی ذات سے شروع ہوں اور جس قدر ممکن ہو سرکاری خزانے کی حفاظت کریں، ان کی کامیابی میں شک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات تو بیان کرنے والی نہیں کہ آج کے دور میں ہمیں کوئی عمر بن عبدالعزیز جیسا حکمران نصیب ہوگا لیکن ایک انصاف پسند حکمران تو ہماری قسمت میں ہو سکتا ہے اور کیا یہ ممکن نہیں کہ کوئی حکمران بدل جائے اور اتنا بدل جائے کہ دنیا بدل ڈالے۔