عید الضحیٰ کا تہوار چند دن بعد ہے، دنیا بھر میں مسلمان قربانی کی عظیم سعادت حاصل کریں گے لیکن خاص طور پر پاکستان میں اس مرتبہ عید کا تہوار کورونا وباء کی وجہ سے کچھ پھیکا پھیکا سا رہے گا کیونکہ عید کے موقع پر وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت نے دس روزکے لیے لاک ڈاؤن کر دیا ہے۔
عید کے موقع پر بازاروں میں خریداروں کا ہجوم ہونے کی وجہ سے یہ وبا ایک دوسرے کو منتقل ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں عوام کے لیے شاپنگ عید سے بہت پہلے ہی ختم کر دی گئی ہے لیکن اس عید کی اصل شاپنگ بکروں کی خریداری ہے جس کے لیے مختلف شہروں میں مویشی منڈیاں لگائی جاتی ہیں جہاں سے قربانی کے لیے اپنی مرضی کا جانور خریدا جاتا ہے لیکن کیا کسی حکومتی عہدیدار نے اس بات پر غور کیا ہے کہ گرمی اور حبس کے موسم میں سب سے زیادہ رش تو مویشی منڈیوں میں ہوگا جہاں سے کورونا کے پھیلنے کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ بارشوں کے موسم میں منڈیوں کی جو حالت زار ہوتی ہے وہ ہم سب کے علم میں ہے۔
کیچڑ سے اٹی ہوئی منڈیاں، بیوپاریوں سے بھاؤ تاؤ کے بعد وہاں سے اپنی پسند کے جانور کی خریداری کی مشکلات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ان حالات میں حد سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ میں نے تو کبھی مویشی منڈی سے جانور نہیں خریدا، یہ کام میرے بیٹے اور پوتے کی ذمے داری ہے لیکن اس مرتبہ میں نے ان سے کہا ہے کہ عید کے لیے گاؤں چلتے ہیں جہاں پر ابھی تک اس وباء کاگزر نہیں ہوا اور گاؤں میں اپنے بھتیجوں کو کہا ہے کہ وہ میرے لیے بکروں کی خریداری کریں جو کہ خاص طور پر ہمارے اپنے ہی گاؤں میں پلے بڑھے ہوں اور پہاڑوں کی خالص جڑی بوٹیاں ان کی خوراک رہی ہوں کیونکہ گوشت کھانے کاجو مزہ ان پہاڑی بکروں کاہے، وہ کسی میدانی علاقے میں پلے بڑھے بکرے سے ذائقے میں کہیں مختلف ہوتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ گاؤں کا سب سے بڑا زمیندار ہونے کے باوجود قربانی کے لیے بکرے خریدنے پر مجبور ہوں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گھر کے پلے بڑھے بکرے ہوتے لیکن لاہور میں بیٹھ کر گاؤں میں کاشتکاری نہیں ہو سکتی اور جس نے عمر بھر قلم کی مزدوری کی ہو اس کے لیے کاشتکاری اور بھی مشکل ہو جاتی ہے، اس لیے میں نے اپنی زمینیں ٹھیکیداروں کے حوالے کر رکھی ہیں اور سال بھر کی گندم بھی ان سے خرید لیتا ہوں اور لاہور منگوا کر خالص گندم کی روٹی سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ پاکستان میں جب بھی کوئی تہوار آتا ہے تو بازاروں میں اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگ جاتی ہیں۔
پوری دنیا جس میں کفار کی دنیا سر فہرست ہے تہواروں پر اشیاء کی قیمتیں کم کر دیتی ہے اور تہوار کی مناسبت سے سیل لگا دی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں اس کے الٹ ہوتا ہے اور دکاندار یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ یہی دن تو ہماری کمائی کے ہوتے ہیں۔ بے پناہ اور بے حدو حساب شرم کی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عید کے موقع پر قیمتیں الٹا پہلے سے بڑھ جاتی ہیں اور دکاندار جو زیادہ تر الحاج ہیں اپنی مسلمان قوم کو لوٹ رہے ہوتے ہیں اور غالباً ایک اور حج یا عمرے کا خرچ بنا رہے ہیں۔ پاکستان میں تو ہم اکثر دکانوں پر کسی حاجی صاحب کا نام دیکھتے ہیں جن میں گراں فروشی اور جعل سازی بھی دکھائی دیتی ہے اور وہ کسی گاہک کو معاف کرنے کے موڈ میں بھی بالکل نہیں ہوتے۔ بہر حال آج کل کے زمانے میں تو جو ہوا چل رہی ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے اور ہم سب اسی میں سانس لے رہے ہیں اور ہمارے ہاں حاجیوں کا شمار نہیں رہا۔
صرف مسلمانوں کے ہی نہیں دنیا بھر کے مسلم ماہر انسانیات اور معاشرتی امور کے بے مثل دانشور ابن خلدون نے کہا تھا کہ کسی کاروباری شخص اور تاجرکو اقتدار مت دو۔ ہم نے اور دنیا نے جب بھی ایسی حرکت کی اس نے خطا کھائی۔ امریکا جیسے سرمایہ دارانہ نظام کے مرکز میں بھی جب کاروباری حکومت میں آئے تو ایسے گھپلے کر گئے کہ قوم روتی رہ گئی۔ اس پر پھر کبھی بات ہو گی فی الحال ہمیں اپنا حال دیکھنا چاہیے جو دن بدن بگڑتا جارہا ہے۔
اس برس کورونا کی وبا نے سعودی عرب میں مقیم مسلمانوں کے علاوہ دنیا کے باقی ممالک میں بسنے والوں کوحج بیت اللہ کی عظیم سعادت سے محروم کر دیا ہے اور صرف وہی لوگ جن کی تعداد لاکھوں کے بجائے چند ہزار ہے اوروہ سعودی عرب میں مقیم ہیں، حج کی سعادت حاصل کر سکیں گے۔ چونکہ گاؤں
کا سفر درپیش ہے اور حج کا موقع ہے تو مجھے اپنے گاؤں کا وہ بزرگ حاجی یاد آرہا ہے جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں لیکن ہر حج کے موقع پر یہ کسان میرے سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور مجھے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ کسان حج کے موقع پر طواف کعبہ کے دوران کسی طرح غلاف کعبہ کو تھامنے میں کامیاب ہو گیا، ہر حاجی کے اس یکساں لباس میں دنیا کسی امیر ترین اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان حاجی کی طرح یہ بھی دو سفید چاروں کے احرام میں تھا لیکن اﷲ تعالیٰ کے ہاں اشرافیہ صرف وہ ہے جس کے اعمال شریف ہیں نہ وہ جس کا حسب نسب اعلیٰ ہے اور جس کے پاس دولت بہت ہے۔
ہمارا یہ غریب حاجی اﷲ تعالیٰ کے حضور عرض پرداز تھا کہ "یا اﷲ جب سے میں نے کام کرنا شروع کیا تب سے میں پائی پائی جوڑ تا رہا اور جتنی بچت ممکن ہوئی اس کو جمع کر کے اب زندگی بھر کی اس جمع پونجی سے آج یہاں تمہارے ہاں حاضر ہو گیا ہوں۔ یا اﷲ میں تو صرف یہی کر سکتا تھا جو کر دیا اب اس سے آگے جو بھی کرنا ہے وہ تم نے کرنا ہے، میری اوقات اور ہمت تو بس اتنی ہی تھی اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا"۔ سادگی، عاجزی اور دعا اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے۔ میرے بارانی گاؤں کا یہ مفلس کسان علم وفضل کے دریا بہا گیا۔ گاؤں کا سفر درپیش ہے، اس لیے کالم میں چند دن کی غیر حاضری ہو گی۔ قارئین سے پیشگی معذرت اورعید مبارک۔