اس بات کا فیصلہ بعد میں کرتے ہیں کہ آیا ہم بزدل اور ڈرپوک ہیں یا نہیں۔ پہلے امریکا کے اعلان آزادی پر دستخط کرنیوالوں کی کہانی سنتے ہیں، اعلان آزادی پر دستخط کرنیوالے افراد میں سے پانچ افراد کو برطانیہ نے غداروں کی حیثیت سے قید کرلیا 56 افراد میں سے ایک درجن افراد کے گھر بار لوٹ لیے گئے اور جلا دیے گئے۔
ان کے بیٹے جنگ میں مارے گئے ایک اور فرد کے دو بیٹے پکڑے گئے انقلاب امریکا کے لیے بے شمار افراد نے کئی جنگوں میں حصہ لیا اور لاتعداد افراد زخمی ہوئے یا انھیں دوسری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کس قسم کے انسان تھے؟ ان میں سے 25 وکیل یا قانون دان تھے گیارہ تاجر پیشہ تھے نو افراد یا تو کسان تھے یا پھر بڑے بڑے کھیتوں اور باغات کے مالک تھے وہ خوشحال اور تعلیم یافتہ تھے لیکن پھر بھی انھوں نے اعلان آزادی پر دستخط کردیے حالانکہ انھیں معلوم تھا کہ اگر وہ پکڑے گئے تو انھیں موت تک کی سزا دی جاسکتی ہے جب ان باہمت، باحوصلہ اور جرأت مند افراد نے اعلان آزادی پر دستخط کیے تو انھوں نے اپنی زندگیاں، اپنی قسمت اور اپنی عزت و وقار، آزادی و خودمختاری کے لیے داؤ پر لگادی۔ رچرڈ اسٹاکین 1776 کے آخر میں نیوجرسی واپس لوٹ آیا تاکہ وہ دشمن کی طرف سے ہونے والے نقصان کا جائزہ لے سکے، اس نے اپنی بیوی کو تو محفوظ مقام پر منتقل کردیا لیکن خود پکڑا گیا اس کا گھر اس کی عظیم لائبریری اس کی تحریر کردہ کتب سب کچھ تباہ کردیا گیا۔
جیل میں اسٹاکین کے ساتھ ایسا برا سلوک کیا گیا کہ اس کی صحت تباہ ہوگئی اور جنگ ختم ہونے سے قبل وہ مر گیا۔ کارٹر بریکسٹن ایک دولت مند کاشتکار اور تاجر تھا ایک ایک کرکے برطانوی بحریہ نے اس کے تمام بحری جہاز پکڑ لیے اس نے امریکا کی خاطر ایک خطیر رقم بطور قرضہ دی لیکن یہ رقم اسے کبھی واپس نہ مل سکی اس کے مالی حالات اس قدر خراب ہوگئے کہ اسے اپنے قرض ادا کرنے کے لیے اپنے تمام کھیت، باغات اور دیگر جائیدادیں رہن رکھوانے پڑیں برطانوی پولیس تھامس میک کین کے پیچھے شکاری کتوں کی طرح لگی رہی اور تھامس اپنے اور اپنے خاندان کے بچاؤ کے لیے مسلسل ادھر ادھر چھپتا پھرا اس نے کانٹی نینٹل کانگریس میں بلامعاوضہ کام کیا اور اپنے خاندان کو ایک خفیہ مقام پر چھپائے رکھا۔
غنڈوں یا فوجی سپاہیوں یا دونوں نے ایلری، کلیمر، ہال، ہیورڈ، میڈلٹن، ہیریسن، ہایکنسن اور لیونگسٹن کی جائیداد لوٹ لیں۔ پارک ٹاؤن کی جنگ کے موقع پر جب تھامس نیلسن جونیئر نے دیکھا کہ برطانوی جنرل کارنویلس نے اس کے خاندان گھر کو اپنا فوجی ہیڈ کوارٹر بنا لیا تو نیلسن نے جنرل جارج واشنگٹن سے کہا وہ اس کے گھر پر گولہ باری کرے۔
جارج واشنگٹن نے ایسا ہی کیا اور نیلسن کا گھر تباہ ہو گیا بعدازاں نیلسن دیوالیہ ہوکر مر گیا۔ فرانسس لوئس کا بھی گھر اور جائیدادیں تباہ ہوگئیں دشمن نے اس کی بیوی کو دو ماہ جیل میں رکھا اس کے علاوہ جنگ کے علاوہ اسے اس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کی صحت تباہ ہوگئی اور جنگ کے دو سال بعد وہ مر گیا۔
آنسٹ جان کو اس کی قریب المرگ بیوی کے بستر سے پرے دھکیل دیا گیا ان کے تیرہ بچے اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہوگئے۔ اس کے کھیت اور مکئی بیلنے کا کارخانہ تباہ کردیے گئے قید سے فرار ہوتے ہوئے اسے کبھی نہ معلوم ہوتا کہ اس کی اگلی رات کہاں گزرے گی اس کی بیوی مر گئی اور جب وہ واپس آیا تو اس کے بچے جا چکے تھے۔ یہ سب داستانیں اور قربانیاں ان لوگوں سے منسوب ہیں جنھوں نے اعلان آزادی پر دستخط کرنے کا خطرہ مول لیا یہ افراد وحشی، غیر مہذب اور جنگلی نہیں تھے بلکہ یہ لوگ مہذب اور نفیس لب و لہجے کے مالک تھے خوشحال اور تعلیم یافتہ تھے انھیں تحفظ حاصل تھا۔
ادھر دوسری طرف ہم ہیں جنھیں آزادی کے ستر سال بعد دوبارہ خوبصورتی کے ساتھ قید کردیا گیا اس دفعہ قید کرنیوالے غیر نہیں بلکہ اپنے تھے ہم سب کی زندگی دوزخ سے زیادہ بدترین بنا دی گئی ایک ایک روٹی کے لیے سارا سارا دن مارے مارے پھرتے ہیں پانی، بجلی، گیس کے بغیر زندگی رینگ رینگ کر گزار رہے ہیں، بیماریوں، بے روزگاری، مہنگائی اور دہشتگردوں کے ہاتھوں بے موت مارے جا رہے ہیں اتنی ذلت، خواری، گالیاں تو اس پرانی قید میں سننے اور دیکھنے کو نہیں ملتی تھیں جتنی اب سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں لیکن مجال ہے کہ کہیں سے کوئی آواز سنائی دے دے کہیں سے اس نئی قید سے رہائی کے لیے کوئی کوشش اور جدوجہد دکھائی دے دے چپ چپ ہر ذلت، خواری اور گالیوں کو برداشت کیے جا رہے ہیں جب آپس میں رات کو بیٹھتے ہیں تو باتوں کے ذریعے بڑے بڑے تاج گرا دیتے ہیں مضبوط سے مضبوط تخت ہلا دیتے ہیں مجرموں، آقاؤں، گناہ گاروں اور بدکرداروں کو اپنے ہاتھوں سے سزا دے دیتے ہیں ہر جابر، ظالم، کرپٹ اور بددیانت دار کا کچھا چٹھاکھول کر رکھ دیتے ہیں، پھر تھوڑی دیر بعد ملک سے ہر برائی، زیادتی، ظلم و ستم، کرپشن، لوٹ مار کا خاتمہ کرکے آرام سے گھر کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور بستر پر پڑ کر زور زور سے لمبے لمبے خراٹے لینا شروع کردیتے ہیں۔
اور جب دن میں غاصبوں، لٹیروں، جابروں اور آقاؤں کے خلاف عملی جدوجہد کا کوئی موقع ہاتھ لگ جاتا ہے تو اس موقع سے فرار ہونے میں ہمیشہ ہم نمبر ون آتے ہیں اور دیگر لوگ ہمیں ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ امریکا کے اعلان آزادی پر دستخط کرنیوالوں کے پاس دنیا بھر کی تمام آسائشیں تھیں لیکن پھر بھی انھوں نے اپنی اور اپنے ہم وطنوں کی آزادی کی خاطر اپنی ہر چیز داؤ پر لگا دی حتیٰ کہ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان تک بھی۔ لیکن ہمارے پاس تو کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں اور پانے کے لیے سارا جہاں ہے اس کے باوجود چپ چاپ، خاموشی کے ساتھ ہر ذلت برداشت کر رہے ہیں اور پھر چپکے سے مر جاتے ہیں۔ اگر ہم بزدل اور ڈرپوک نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں۔ آپ ہی فیصلہ سنا دیں۔