آئیں! ذرا بات کرتے ہیں ا ن لوگوں کی جو پان کی دکانوں، کیفے یا گلیوں میں اپنے اپنے گھروں کے تھلوں پر بیٹھ کر یا دفاتر میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر یا سڑکوں کے کنارے دیہاڑی کے انتظار میں رہتے ہوئے یا اپنے رکشہ تھوڑی دیرکے لیے چھائوں میں روک کر اخبار پڑھتے ہوئے اور خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں، زیادتیوں، سارے ظلم، ساری برائیوں اور ساری خرابیوں پر رکے بغیرگھنٹوں بولتے رہتے ہیں۔
ادھر پان یا سگریٹ یا آفس کا وقت یا اخبار ختم ہوا یہ لوگ یہ جا و ہ جا اور اپنے گھر جاکر لمبی تان کر سوجاتے ہیں ہر غم وفکر سے بے نیاز لمبے لمبے خراٹے لیتے رہتے ہیں، شام میں اٹھتے ہیں، کبھی کسی کوگالیاں دیتے ہیں، کبھی کسی کو برا بھلا کہنے بیٹھ جاتے ہیں۔ رات میں گھنٹوں مختلف ٹی وی چینلز پر مذاکرے دیکھتے ہیں خبریں اور تجزیے سنتے ہیں اپنا چہر ہ لال پیلا کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہتے ہوئے ٹی وی بندکردیتے ہیں کہ کچھ بدلنے والا نہیں ہے سالے سب حرامی ہیں۔
اور ایک بار پھر سو نے کے لیے پلنگ پر لیٹ جاتے ہیں اور بس آنکھ لگتی ہی ہے تو بجلی چلی جاتی ہے تو پھر پلنگ پر بیٹھ کر واپڈا والوں کو موٹی موٹی تازہ تازہ گالیاں دینے لگ جاتے ہیں اور اتنی زور سے دیتے ہیں کہ باقی محلے والوں کو کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور جب ان کے بچے تنگ آکر ان سے یہ کہتے ہیں کہ ابا چپ کر جا ہمیں تو سونے دے تو پھر وہ اچانک قلابازی کھاتے ہوئے اپنے بچوں کو گالیاں دینے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو اس طرح زندگی گذار رہے ہیں جیسے یہ کوئی عادت ہو ایسی عادت جسے تبدیل نہ کیاجاسکے۔
عادت یا تو بہترین غلام ہوتی ہے یا بدترین آقا، ظاہر ہے غلاموں کے غلام تو ہو نہیں سکتے، اس کے تو صرف بد ترین آقا ہوسکتے ہیں۔ یہ سب کے سب اس ملک کے باشندے ہیں جسے غریبوں نے امیروں کے لیے تعمیر کیا ہے۔ ان سب کے امیدوں کے چراغ عرصے سے بجھے اوندھے پڑے ہیں جن کی ویرانی دیکھ کر دل وحشت سے پھٹ جاتا ہے۔ جہاں امید نہ ہو وہاں وحشت آخری پناہ ہوتی ہے۔ دنیا بھرکے تمام جمہوری، خوشحال، لبرل معاشرے دراصل امیدوں کی دکانیں ہوتے ہیں جہاں سے وہاں کے لوگ امیدیں خریدتے ہیں۔
یاد رہے امیدیں ہی آپ کو خوش رکھتی ہیں لیکن جب معاشرہ بدحال، غلام، انتہا پسند، رجعت وقدامت پسند بن جاتا ہے اورجہالت واندھیروں کی قوتیں اسے دبوچ لیتی ہیں تو وہاں امیدوں کی دکانیں بند ہوجاتی ہیں اور وحشت کی دکانیں کھل جاتی ہیں پھر آپ کو ڈھونڈنے سے امید کی کوئی دکان کھلی ہوئی نہیں ملتی وہاں پھر صرف وحشت ملتی ہے امید نہیں۔ ذہن میں رہے حقیقی مفلس وہ ہی ہوتا ہے جس کی امیدیں بھی مرجائیں۔ اس وقت ہم سب حقیقی مفلس ہیں۔
ہم نے 22کروڑ جیتے جاگتے کار آمد انسانوں کو نا کارہ، ردی بنا دیا ہے اورکاٹھ کباڑ میں تبدیل کر دیا ہے جو اب ملک کی تعمیر اور ترقی میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ بس صرف باتیں کرنے کے قابل ہیں۔ اگر ملک کے سیاست دانوں اور اشرافیہ کا بس چلتا تو انھیں اس قابل بھی نہیں چھوڑتے۔
ہمارے ساتھ کچھ بھی ایسا نہیں ہوا ہے جس کے لیے ہم یہ کہہ سکیں کہ اس کی کوئی امید نہیں تھی یا یہ کہ یہ سب غیر متوقع ہوگیا ہے یا ہمارے ساتھ انہونی ہوگئی ہے، یہ تو پہلے ہی روز ظاہر ہوگیا تھا کہ آگے چل کر ہمارے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہے کیونکہ جس راستے پر آپ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی منزل کا سب کو پتہ ہوتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ مسا فر انجانا بنے چلتا رہے۔ جس روز قرارداد مقاصد نے جنم لیا تھا اسی روز سے منزل صاف دکھائی دینا شروع ہوگئی تھی، ظاہر ہے عقل کو استعمال کیے بغیر سب کاموں کا انجام ہمیشہ ایک ہی نکلتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور نکل بھی نہیں سکتا ہے۔ آپ سب باتیں چھوڑیں چلیں اٹھیں اور دنیا کی تاریخ بار بار پڑھ لیں۔
چلیں ایک بار اور پڑھ لیں اب ذرا آپ ہی بتا دیں کہ جن قوموں یا لوگوں نے عقل کو استعمال کیے بغیر جوکام کیے ان سب کا کیا انجام ہوا، اسی لیے توکہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جوکچھ بھی ہو رہا ہے، غلط نہیں ہو رہا، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے اپنے آغاز میں ہی عقل کا قتل کر دیا تھا، کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے سارے اقدامات اور فیصلے عقل کے خلاف تھے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ خدائی چوب دار، نفرتوں کے دیوتا، اذیتوں کے پجاری، سماج کے اندھے کانے بہرے ٹھیکیدار اور قاتل جو سقراط کے خون کے پیاسے تھے جو عقل، علم، دانائی اور سچائی کے دشمن تھے کیا وہ آج بھی اپنی محرومیوں کا انتقام لینے کے لیے ہماری گلیوں میں نہیں پھرتے ہیں کہ جہاں کوئی سقراط نظر آجائے تو اسے زہرکا پیالہ پلا دیں۔
ہم سب ایسی کشتی میں سوار ہیں جو اس قدر بوسیدہ ہوچکی ہے کہ جب ہم ایک سوراخ بند کرتے ہیں تو دوسری جگہ سے پانی اندر آنے لگ جاتاہے جب اسے بند کرنے کی طرف بھاگتے ہیں تو دوسری جگہ سوراخ ہوچکا ہوتا ہے ہم سوراخ بند کرتے کرتے اس قدر نڈھال ہو چکے ہیں اس قدر ہانپ رہے ہیں کہ اگر ہم نے فوراً جنگی بنیادوں پرکشتی اورکشتی میں سوار22 کروڑ لوگوں کو مضبوط، توانا، خوشحال، با اختیار، آزاد نہیں کیا تو پھرکیا ہونے والا ہے، کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ سب کو نتیجے کا اچھی طرح سے علم ہے۔
ملک کے حکمرانوں، سیاست دانوں، انتہا پسندوں اور ملک کی اشرافیہ ایک بات اچھی طرح سے سن لوکہ بس اب بہت ہوچکا لوگوں کو آزاد ہونے دو، لوگوں کو سوچنے دو، انھیں اپنی مرضی کے مطابق ملک تشکیل کرنے دو۔ بہت ڈرامہ بازی ہوچکی بہت لوٹ مار ہوچکی بہت بد معاشی ہوچکی لوگوں کو جینے دو خوش ہونے دو، یہ ملک صرف تمہاری حکمرانی، بدمعاشی، لوٹ مار، کرپشن تمہارے پروٹوکول، تمہارے محلات، جاگیروں، ملوں، بینک بیلنس کے لیے نہیں حاصل کیا گیا تھا بس اپنی شعبدہ بازی بند کر دو، لوگوں کی ذلت اور خواری کی انتہا ہوچکی ہے، بے شر می ہر حد پارکرچکی ہے۔ یہ ملک بائیس کروڑ عوام کا ہے اسے ان کے حوالے کردو، ورنہ بس عوام اٹھنے ہی والے ہیں۔