ساری دنیا اور اقوام عالم جس بات پر متفق ہیں وہ یہ کہ ایک دوسرے کے لیے برابری اور مساوات کو بہتر بنایا جائے تاکہ دنیا میں پائیدار امن قائم ہو اور انسانی توقیر میں اضافہ ہو۔ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب اپنی ذات سے بالاتر ہوکر اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں کی فلاح و بہبود اور ان کے جائز حقوق کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا شعار بنایا جائے۔
اس فلسفے کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کی کتابوں کے علاوہ اپنے اطراف بھی کئی افراد نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنی تمام عمر انسانیت کی سربلندی کے لیے وقف کردی۔ سندھ کا صوبہ اس حوالے سے مالامال ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق کی تحریکیں زوروشور سے جاری رہی ہیں۔ شکیل پٹھان بھی سندھ دھرتی کا ایسا ہی سپوت ہے جس نے اپنی زندگی کو اپنے وطن میں بسنے والوں کی زندگی میں آسودگی اور انسانیت کو مقدم رکھا ہے۔
ظلم جبر اور ناانصافی کے حوالے سے سرخیاں اب بھی اخبارات کی زینت ہیں، عام شہری آج بھی آئین میں درج بنیادی حقوق سے محروم ہے لیکن ان مسائل پر کھل کر صدائے احتجاج بلند کرنے والی توانا آوازیں معدوم ہوتی جارہی ہے۔
شکیل پٹھان نے ہتھیاروں اور جاگیرداروں کو شکست دی ہے، صرف اپنے مدلل انداز سے جس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ اس کے بچھڑنے کے بعد یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ اس نے جیسے زندگی کو محکوم افراد کی داد رسی کے لیے وقف کردیا تھا اور محض انسانیت کی فلاح اور بہبود کو اپنا اولین فرض سمجھ کر جدوجہد کی ہے، جس کا اعتراف ان کے نظریاتی مخالفین بھی برملا کرتے ہیں، وہ پرامن سیاست کے امین تھے اور قانون کے تحت عوام کو ان کے جائز حقوق کی جنگ آخری سانس تک کرتے رہے بقول ان کے دیرینہ ساتھی کے وہ اپنے مخالفین سے بھی نفرت کے قائل نہیں تھے کیونکہ وہ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دلائل کو منوانے میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے۔
شکیل پٹھان کا شمار افراد کے اس گروہ سے ہے جس نے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف صدائے حق بلند کرنے کے لیے انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ جس قبیلے میں عاصمہ جہانگیر، دراب پٹیل، آئی اے رحمان سمیت دیگر نامی گرامی افراد موجود تھے۔
اس پلیٹ فارم کے ذریعے ملک میں انسانی حقوق اور خصوصا سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہراول دستے کا کردار ادا کیا، پھر تحریک چاہے دہائیوں سے ظلم کا شکار کسان ہو یا خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنا ہو یا پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت عوام کو تشدد کا نشانہ بنانا ہو، شکیل پٹھان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہر دردمندکی آواز بن کر اٹھتے اور ظالموں پر قہر بن کر ٹوٹتے تھے۔ ان کی جدوجہد عدم تشدد پر مبنی تھی اور اس جدوجہد میں ان کی تربیت پاکستان کے قدآور افراد نے کی۔
جوانی میں ہی طلبہ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے آغاز کیا اور جس بھی کام کا آغاز کیا، اس کو ایک منطقی انجام تک پہنچایا۔ وہ پابند سلاسل ہوئے تو جیل میں قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے تحریک کی بنیاد رکھی۔ انسان دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو جب مشکل میں ہوں تو فلسطین سمیت دنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں علم بلند کیا۔ غرض یہ کہ وہ انسانی حقوق اور عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر زبان بندی پر کسی طور بھی یقین نہیں رکھتے تھے۔
مظلوموں اور بے کس ہاریوں کا مقدمہ جس انداز سے شکیل پٹھان نے دنیا کے سامنے پیش کیا اس کی ماضی میں مثال تلاش کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف بھی بلاخوف و جھجک شکیل پٹھان نے آواز بلند کی اور ان کا انسانوں سے عجیب ہی قسم کا رشتہ تھا کہ وہ ان کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
ان کے جلائے ہوئے دیپ آج بھی چاروں طرف روشنی پھیلا رہے ہیں اور مظلوم کسان بھی اپنے حقوق کے لیے خود آواز بلند کرتے ہیں۔ شکیل پٹھان کی جدوجہد ہمیں سوچنے اور سمجھنے کا بے پناہ سبق دیتی ہے۔ خصوصا ایسے وقت میں جب لب کشائی پر بھی پابندی ہے اور سچ بولنے کو بھی قید ہے۔ خواتین کی عصمت دری اور بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شکیل پٹھان جو خود ایک تحریک تھے ان کی جلائی ہوئی شمع کو بجھنے نہ دیا جائے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب فروہی اور گروہی معاملات کو پس پشت ڈال کر انسانی حقوق کی سربلندی اور توقیر میں اضافے کے لیے کل وقتی جدوجہد کا علم بلند رکھا جائے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ایسے کرداروں کو یاد رکھیں اور خود اپنے آپ میں بنیادی انسانی حقوق کے لیے برسر پیکار ہو جائیں۔ حیدرآباد شہر کے شاعر عبدالشکور آسی نے آپ کی وفات پر جو ۱۹۸۹ء میں نظم لکھی ہے، اس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں کیونکہ شکیل پٹھان مر کر بھی امر ہوئے ہیں:
لڑی شکیل نے آزادی ضمیر کی جنگ
بنا سکی نہ اسے گردش زمانہ غلام
دلوں پہ نقش رہے گا سدا شکیل کا نام
کبھی بھلا نہ سکیں گے اس غریب عوام
وہ میرے شہر محبت کا تھا عظیم سپوت
میں پیش کرتا ہوں آسی اسے ہزار سلام