جب آپ دنیا سے رخصت ہورہے ہونگے تو آپ یقینا اپنے بچوں کو بلاکر ان سے یہ کہنے پر مجبور ہونگے کہ بچوں خدارا میری طرح بے مقصد، بے نتیجہ اور بزدلی والی زندگی ہرگز نہ گذارنا اسے بامقصد، نتیجہ خیز، دلیری اورعزت و وقار کے ساتھ بسر کرنا اور وہ فرق پیدا کرنا جو میں زندگی بھرنہ کرسکا میں زندگی اور آپ کے سامنے شرمندہ ہوں مجھے اپنی ان غلطیوں پر معاف کردینا کیونکہ آپ جس طرح سے زندگی بسر کررہے ہیں تو آپ اپنے بچوں کو ورثے میں ان باتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں چھوڑے جانے والے ہیں ظاہر ہے جو کچھ انسان کے پاس آخر وقت ہوتاہے وہ ہی تووہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر جاتاہے۔
عظیم یونانی سو فیکلیز مر چکا ہے اس کے ایکڑ مر چکے ہیں وہ سب لوگ جنہوں نے چوبیس صدی پیشترایتھنز میں اس کا المیہ ڈرامہ"ایٹنگنی" دیکھا تھا معدوم ہوچکے ہیں تھیٹر آج کھنڈر پڑا ہے اور مدت سے وہ زبان بھی جس میں سو فیکلیز شعر کہتا تھا متروک ہوچکی ہے اب ہم وہ رقص نہیں دیکھ سکتے وہ نغمے نہیں سن سکتے۔ لیکن سو فیکلیز کے الفاظ اور خیالات آج بھی زندہ ہیں وہ مٹ نہیں سکے۔
زمانے بیت گئے ہیں لیکن وہ آج بھی ہم سے باتیں کرتے ہیں دھیرے سے آکر ہمارے کانوں میں بولتے ہیں۔ آئیں غور سے سنیں سو فیکلیز ہمیں اپنا المیہ ڈرامہ"ایٹنگنی" سنا رہا ہے ایک کم عمر لڑکی کے بھائی کو کر یون بادشاہ سے بغاوت اور غداری کے الزام میں قتل کی سزا ہوتی ہے لڑکی کو اطلاع ملتی ہے کہ س کے بھائی کی بے گورو کفن لاش ویرانے میں گلنے سڑنے اور بھیڑیوں اور گدھوں کی خوراک بننے کے لیے پھینک دی گئی ہے اور بادشاہ کی طرف سے لاش کو دفن کرنے کی ممانعت ہو چکی ہے اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کو مجرم سمجھا جائے گا اور مجرم کے لیے اس کے جرم کی سزا بھی موت رکھی گئی ہے۔
درد و کر ب کے عالم میں لڑکی اپنے دل کو ٹٹولتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ اس قانون کو توڑنا میرا فرض ہے چاہے اس کا نتیجہ یہ ہو کہ مجھے اپنی زندگی اور اپنی مسرتوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس خطرناک ارادے کی تکمیل میں اس کی اپنی بہن بھی معاونت سے انکار کردیتی ہے وہ رو رو کر اسے اس کام سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ اپنی دہشت ناک منزل کی طرف روانہ ہوجاتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک سپاہی ہانپتا کانپتا داخل ہو تا ہے اور اطلاع دیتا ہے کہ سر کاری اعلان اور زبردست پہرے کے باوجود کسی نے لاش کو دفنا دیا ہے بادشاہ اپنے رعب و اقتدار کی اس توہین پر آگ بگولہ ہو کر احکام صادر کرتاہے کہ علاقے بھر میں مجرم کی تلاش کی جائے۔
شہریوں کاایک گروہ یہ خبر سنتا ہے اور حیرت اور خوف سے لرزہ بر اندام ہوجاتا ہے اور پھر انسان کی بے قیاس ذہانت اور جرأت کی تعریف میں ایک گیت گانے لگتا ہے " حیرت انگیز چیزوں کی کوئی کمی نہیں، مگر کوئی چیز خود انسان سے بڑھ کر حیرت انگیز نہیں ہے اور دیو تائوں کا تو کیاذکر ہے، انسان، سب سے بڑے دیو تا کو بھی اور زمین کو بھی جس کے خزانے کبھی ختم ہی نہیں ہوتے، اپنے بس میں کر لیتا ہے "۔
کیا آپ اس لڑکی سے بھی گئے گزرے ہیں جو اشرافیہ کی تمام ذلالت، غلاظت، گالیاں، دھتکار سہہ رہے ہیں لیکن ان کے خلاف بغاوت کے نام سے بھی ڈر جاتے ہیں جو ان کے حکم کی خلاف ورزی اور ان کے سامنے کھڑے ہونے کے خیال سے کا نپنے لگتے ہیں آپ تو جانوروں سے بھی زیادہ گئے گزرے ہوچکے ہیں اتنے بے حس، بے شرم، بزدل اور ڈرپوک انسان کہلانے کے کسی بھی طرح حق دار نہیں ہیں جو تمام بربادیوں اورتباہیوں کو سہے جارہے ہیں لیکن زبان سے اف تک بولنے کو تیار نہیں ہیں۔
آپ اور کچھ نہ کریں صرف انسانی تاریخ کی بدترین کہانیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھ لیں ان پر ٹوٹے مظالم، ستم کو باربار پڑھ لیں اور پھر اپنی زندگی کی کہانی بھی پڑھ لیں اگر آپ کو اپنی زندگی کی کہانی ان تمام کہانیوں سے زیادہ بدتر نہ لگے تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا، کونسی ایسی تباہی اور بربادی ہے جو تمہارے حصے میں نہ آئی ہوئی ہے دنیا بھر میں موجود کونسا ایسا مسئلہ ہے جس کا آپ سامنانہ کررہے ہیں۔
غربت، بھوک، افلاس، جہالت، بیماریاں، گندگیاں، معیشت کی تباہ حالی، لوڈ شیڈنگ، پانی کی قلت، پولیو، ملیریا، ہیپا ٹا ئٹس، انتہا پسندی، دہشت گردی، کرپشن، لوٹ مار، بھتہ خوری، ملاوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، بے اختیاری، ذلت، گالیاں، دھتکار، مہنگائی، اشیائے خور و نوش کی قلت، چائنا کٹنگ، ناجائز قبضے، انفراسٹرکچر کی تباہی، جھوٹ، طبقاتی کشمکش، عدم مساوات، بے روزگاری، عدم برداشت ان سب کا آپ کو ایک ساتھ سامنا ہے۔
اس کے باوجود آپ چپ سادھے بیٹھے ہوئے ہیں، سقراط ڈیلفی کے مندر کے دروازے پر لکھے جملے ’ اپنے آپ کو پہچانو " کو بہت اہم قرار دیتا تھا وہ دنیا اور اپنی ذات کے علم کے حصول کے لیے ضروری قرار دیتا تھا کہ اپنی جہالت کی حدود کا اندازہ کیاجائے وہ کہتا تھا "وہ زندگی جو پر کھ پڑتال کے بغیر ہو بسر کر نے کے قابل نہیں ہوتی "آگے چل کر زینو نے بھی اعلان کیا تھا کہ انسان کو عقل و دانش پر مبنی ایک روح دی گئی ہے جسکے ساتھ وہ اپنی آزادانہ مرضی یا ارادہ پر عمل کر سکتاہے لیکن کسی کو بھی ایک اچھی زندگی بسر کرنے پر مجبور نہیں کیاجاسکتا۔ آپ ساری بیکار باتیں چھوڑیں صرف اپنے آخری اعترافات کی تیاری آج ہی سے شروع کردیں یہی آپ کے لیے بہتر ہوگا۔