Sunday, 03 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Nayi Soch

Nayi Soch

چند سال پہلے ٹی وی کے رائے شماری پروگرام میں ناظرین سے کہاگیا تھا کہ وہ گذشتہ ہزاری کے عظیم ترین نغمہ کے حق میں ووٹ دیں مقابلہ جیتنے والا نغمہ جان لینن کا نہایت دلنشین اور پر اثر نغمہ تھا جس کا عنوان "نئی سوچ" ہے۔

لینن نے جس وقت یہ نغمہ لکھا وہ سخت سیاسی مرحلے سے گذر رہا تھا اس نے جنگ ویت نام کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا عالمی بھوک اور افلاس کے خلاف تقریریں کیں اور اپر کا ئڈ شپ بلڈرز کی تعمیر کے لیے نقد چندہ دیا، اس کا گیت ایک نئی دنیا کی بابت سوچ کی دعوت دیتا ہے۔

ایسی دنیا جو سماجی اونچ نیچ، استحصال، نسل پر ستی اور جنگ و جدل سے پاک ہو۔ 200ق م سے 800 ق م تک ا س زمانے میں چین، ایران، فلسطین، ہندوستان اور یونان میں بیک وقت لیکن آزادانہ طورپر انسان کی روحانی بنیادی تشکیل پارہی تھیں اور ان ہی بنیادوں کے استحکام پر انسان آج بھی تکیہ کیے ہوئے ہے۔

اس زمانے میں چین میں کنفیوشس، لاؤزے اور ان کے بعد موزے اور چوانگ زلے نے پورے چینی فلسفے کا تارو پود تیار کیا۔ ہندوستان میں یہ اپنشدوں اور بدھ مت کا زمانہ تھا یہاں بھی چین کی طرح فلسفے کے تمام رحجانات پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ ایران میں زردشت نے نیکی اوربدی کی ازلی پیکار کا تصور پیش کیا۔

فلسطین میں بنی ایلیجاہ، جرمیاہ، اشیعا پیدا ہوئے یونان نے ہو مر کو جنم دیا اور ہر قلیطس، ارشمید س، سقراط، افلاطون اور الم پرست شاعروں کو پیدا کیا۔ اس عہد کی سب سے بڑی خصو صیت یہ تھی کہ انسان کو پہلی مرتبہ اپنی عظمت کااحساس اور شخصیت کے لا محدود امکانات کا علم ہوا۔

ہندوستان کے رشی، چین کے جہاں گرد راہت اسرائیلی بنی اور یونان فلسفی اپنے باہمی امتیازات کے باوجود دنیا کو ایک ہی پیغام دیتے سنائی دیے کہ " انسان اپنی ذات میں سمٹ کر اور نفس کی پنہائیوں میں کھو کر ہی کائنا ت کے رازوں کا امین بن سکتا ہے اور نو ر باطن اور فکر و وجدان ہی وہ مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں چل کر اس مسرت زوال کو پاسکتا ہے جس کی جستجو وہ روز ازل سے کرنا آیا ہے۔" انسان پیداہی صرف خوش ہونے کے لیے ہوا ہے۔

ہمیشہ سے ہی ریاستوں کے لیے جواز کا پہلا وسیلہ عوام کی بہبود رہاہے یعنی مسرت اور خو شحال کو فروغ دینا اور غیر ضروری تکلیفوں میں کمی کی کوشش کرنا شامل ہے۔ بادشاہ اشوک بھی اپنے ایک کہتے ہیں سب کے لیے تحفظ، خود پر قابو، عدل اور خوشی کی خواہش کر نا نظر آتاہے۔

1793 کے فرانسیسی آئین میں نئی قوم کو اس قرارداد پر متفق کرنے کی کوشش کی گئی کہ سماج کا مقصد مشترکہ خوشی ہے۔ امریکا کے اعلان آزادی میں زندگی، آزادی اور خو شی کی تلاش کا نعرہ دیا گیا " اسٹارم جیمز سن کہتا ہے " مسرت؟ " یہ سو چنا غلط ہے کہ زیادہ آسائش زیادہ مسرت کا منبع ہے۔

مسرت آتی ہے گہرے طور پر محسوس کرنے سے، سادگی سے لطف اندوز ہونے سے تخیل کی آزاد اڑان سے، زندگی کو خطرے میں ڈالنے سے، دوسروں کے کام آنے سے "۔ فرانسیسی مفکر روسو نے جب اپنے انقلابی خیالات کی کتاب جس کے مطابق انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے طبعی رحجانات کی دنیا کو لوٹ جائے بوڑھے والیٹر کی خدمت میں بھیجی تو اس نے جواب میں لکھا " جناب من! حضرت انسان کے خلاف لکھی ہوئی آپ کی کتاب مجھے ملی شکریہ۔ آپ نے بڑے سلیقے سے ہمیں حیوانوں کے زمر ے میں شامل ہوجانے کی دعوت دی ہے، آپ کی کتاب پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ فوراً پنجوں کے بل چلنا شروع کر دیا جائے۔

لیکن افسوس کہ پچھلے 60 برس سے صرف ٹانگیں استعمال کررہاہوں اب اس پیرانہ سالی میں بچپن کی عادات کیسے قبول کر سکتاہو ں " لیکن جرمن فلسفی کا نٹ تک جب روسو کی نئی کتاب پہنچی تو اسے اپنی روزانہ چہل قدمی کا بھی خیال نہ رہا اور اس نے ایک ہی نشست میں ساری کتاب پڑھ ڈالی۔ کانٹ کے لیے یہ ایک نیا احساس تجربہ تھا کہ دنیا کے کسی گوشے کو کوئی اور بھی اسی کے دل کی تال پر دھڑک رہاتھا۔ کانٹ کا نظریہ تھا کہ دنیا میں بہترین بات یہ ہی ہے کہ ضمیر کی آواز پر آنکھیں بند کرے عمل کیاجائے اور فرد کو چاہیے کہ و ہ دوسروں کی مسرت کو پیش نظر رکھے۔

مسرت کے اس سوال پر کانٹ کے ہم عصر جے بنیتھم کا نظریہ یہ تھا کہ اجتماعی مسرت ہر حال میں مقدم ہے اور اعمال کا نیک یابد ہونا صرف اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک کم یا زیادہ مسرت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مسرت کے اسی سوال کو جان اسٹوارٹ مل نے بھی حل کرنے کی کوشش کی اس کی دانست میں صرف زیادہ سے زیادہ مسرت کا حصول انسانی اعمال کا منتہا نہیں ہوناچاہیے۔ اس کے بجائے انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ چاہے کم مسرت حاصل کرے لیکن اس مسرت کا معیار خاصا بلند ہو ہم آج انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ دکھی مخلوق بن چکے ہیں ظاہر ہے ہمیں دکھی مخلوق کے طورپر تو پیدا نہیں کیا گیا اور نہ ہی خدا نے ہمیں ہمارے گناہوں کے سبب ہمیں اس عذاب میں مبتلا کیا ہے اور نہ ہی ہماری یہ حالت ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔

آج ہمارے ملک میں صرف چند ہزار گھروں کو چھوڑ کر باقی ہر گھر ہومر " اوڈیسی " میں لکھی حالت کی طرح ہو گیاہے " بیزار روحو! تم پر کون سی مصیبت کی گھڑی آنے والی ہے؟ رات تمہارے سروں اور پیروں کو ڈھکے ہے تمہارے قدموں تلک صف ماتم چہار جانب بچھی ہے، رخسار لتھڑے پڑے ہیں سائبان بھرا پڑا ہے کمرے میں ہجوم ہے بھوتوں کا، جوجانب جہنم اور تاریکی رواں دواں ہیں۔ آسمان میں آفتاب سرد ہوچکا ہے ملگجا گہرہ سارے میں پھیلا ہوا ہے۔"

آخر ہماری اس حالت کی وجوہات کیا ہیں۔ آئیں ! وجوہات پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی ریا ست اس لیے وجود میں آتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مسرت و خوشی و خو شحالی کا اہتمام کر سکے۔

اس لیے ہماری ریاست کے وجود میں آنے کا یہ ہی واحد جواز اور مقصد تھا لیکن کیا کریں ہم بدنصیب لوگ کہ ہماری ریاست کے وجود میں آتے ہی اشرافیہ کے ایک چھوٹے سے گروہ نے اسے مال غنیمت جانتے ہوئے اسے یرغمال بنا کر سارے وسائل و زندگی کی سار ی مسرتیں اور خو شیوں کا رخ ریاست کے لوگوں کے بجائے اپنی اور اپنے دوستوں، ساتھیوں اور رشتہ داروں کی طرف موڑ دیا۔ زندگی کی تمام لذتوں پر جبری قبضہ کر لیا۔ ہر اچھی چیز جو عام انسانوں کو خوشی و مسرت اور سکون پہنچا سکے اپنے قبضے میں کرلیں۔

عام لوگوں کے لیے جتنی مصیبتیں، پر یشانیاں، تکلیفیں، بیماریاں، آفتیں کم ہوسکتی تھیں بانٹا شروع کر دیں۔ عام لوگوں کی زندگیاں جنہم سے بد تر کر دی گئیں۔ نتیجے میں لوگ چلتی پھرتی لاشوں میں تبدیل ہوکے رہ گئے۔ آزادی، خوشحالی اور خوشیوں کے سارے خواب جل گئے۔

جب 405ق م کی گرمیوں میں ایتھنز نے اپنے بحری بیڑے کو ایگوس پوٹامی میں برباد ہوتے دیکھا تو ان کی دماغی صلاحیتیں تقریباً مفلوج ہوکر رہ گئیں جب بربادی کی خبر ایتھنز پہنچی تو جیسا ژینوفن بتاتا ہے آہ و بکا کی آوازیں سارے ایتھنز میں پھیل گئیں اس شب کوئی نہ سوسکا وہ نہ صرف مقتولین پر روئے بلکہ ان سے زیادہ خود پر روئے یہ سوچ سوچ کرکہ ان پرکون کون سی مصیبتیں اور نازل ہونگی۔ آج پاکستان میں بھی عام انسان سوتے نہیں ہیں کیونکہ وہ ساری شب اپنے بارے میں سوچتے ہی رہتے ہیں۔