پارمنائی ڈیزکہتا ہے" جوکچھ بھی کہا جاتا ہے اور سوچا جاتا ہے وہ ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ موجود ہو اور یہ ممکن نہیں ہے کہ جو چیز نہ ہو وہ وجود رکھتی ہو، کوئی شے جو سوچی جاسکتی ہے اور جس کی خاطر سو چا جاسکتا ہے، دونوں ایک ہیں کیونکہ تم کسی شے کے نہ ہونے پرکچھ سو چ نہیں سکتے۔"
یونانیوں نے ہمیں نہ صرف سوچنا سکھایا بلکہ یہ بھی سکھایا کہ ہم اپنی سوچ پر سوچنا سیکھیں۔ اس سلسلے میں سوچنے کے آلات کی ضرورت تھی۔ ارسطوکی منطق ایسی ہی کامیاب کوشش ہے، کیونکہ اس قسم کے شدید اور بار آورکام کرنے کے لیے ایک انسان کو اپنے اندر ایک اعلیٰ اخلاقی قوت اور ضبط ونظم کی قوت پیدا کرنی پڑے گی۔
سوال پوچھنا، جوابات ڈھونڈنا اوردوسروں کو بحث و مباحثے کے ذریعے مطمئن کرنا، ان کا محبوب شغل تھا۔ جب یونانی اپنے عہد تاریک سے تمدن ترقی کی جانب بڑھے تو انھیں پچھلے مائی سینی بادشاہوں اور ان زمانوں سے وابستہ حکایتوں نے ان کی فکروسوچ کے نئے دروازے کھول دیے، انھوں نے نتائج اخذ کیے کہ انسان کو عزت وثروت کی خاطر زندہ رہنا چاہیے، زندگی کا کھیل شان کے ساتھ اور مناسب غرورونازکے ساتھ کھیلنا چاہیے اور یہ کھیل ان لوگوں کے ساتھ مل کر کھیلنا چاہیے جو ان کی طرح اعلیٰ ہوں۔
فیثا غورث نے انسانوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے (1) علم کے رسیا (2) وقار کے طلبگار (3) نفع کے خواستگار۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر زندگی کو اولمپک کھیلوں سے مماثلت دی جائے تو پہلا طبقہ تماش بین کا ہے، دوسرے مقابلے میں حصہ لینے والے کھلاڑی ہیں اور تیسرا طبقہ شورو غل مچانے والوں کا ہے۔
اگر ہم اپنے آپ کو ان تینوں طبقات میں ڈھونڈیں تو ہماری خود سے ملاقات تیسرے طبقے یعنی نفع کے خواستگار اور شوروغل مچانے والوں میں خود بخود ہوجائے گی، جوتہتر برس سے اورکچھ نہیں کررہے صرف شوروغل مچا رہے ہیں جو زندگی کو صرف نفع اور نقصان کی کوئی چیز سمجھے بیٹھے ہیں، جنھیں نہ تو سوچنے سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی انھیں سوچنے کے آلات سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ان کا عزت و وقار سے کوئی دور دور تک کاکوئی وابستہ ہے جو اٹھتے ہیں تو شوروغل مچانا شروع کردیتے ہیں اور جب سوتے ہیں تو سونے سے پہلے تک شوروغل مچاتے رہتے ہیں، بڑی شان وشوکت سے اپنی بے روزگار ی، غربت و افلاس، ذلت وخواری، جہالت اور بیماریوں کا رونا روتے ہیں لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے تو ان سب چیزوں کے ذمے داروں کے ساتھ سیلفیاں بناکرخوشیاں مناتے پھرتے ہیں۔
ان کے جلسوں اور جلوسوں میں جاکر زور زور سے تالیاں بجاتے ہیں اور ان کی عمر درازی اور ان کی حکومت کے حق میں اس قدر جذبات سے نعرے لگاتے ہیں کہ واپسی میں اشاروں سے بات کررہے ہوتے ہیں۔ الیکشن کے روز صبح ہی صبح خوب بن سنورکر ان ہی ذمے داروں کو ووٹ دینے کے لیے خوشی خوشی پولنگ اسٹیشن جارہے ہوتے ہیں اور واپس آکر آپس میں بیٹھ کر دوبارہ اپنی بے روزگاری، مہنگائی، غربت وافلاس کا رونا دھونا شروع کردیتے ہیں کہ اس ملک میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔
ہمارے نصیب اور مقدر ہی خراب ہیں ہرجانیوالی حکومت کو جی بھرکے کوستے رہتے ہیں اور ہرنئی آنیوالی حکومت پر زندگی بھرکی امیدیں دوبارہ لگا بیٹھتے ہیں اور تھوڑے ہی دنوں بعد اسے بھی جی بھرکرکوس رہے ہوتے ہیں، ہم کبھی یہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کرتے ہیں کہ اصل خرابی حکمرانوں میں نہیں بلکہ ہمارے اپنے اندر ہے ہم نے کبھی فیصلہ کرنے سے پہلے سوچا ہی نہیں۔ اور نہ ہی ہم سوچنے کے عمل سے آگاہ ہیں اور نہ ہی ہمیں سوچنے کے آلات سے کوئی دلچسپی ہے جو جیسا خواب دیکھانا شروع کردیتا ہے، ہم دن رات اس خواب کو آنکھوں میں سجائے سمائے پھرتے رہتے ہیں اور اس وقت تک وہ خواب دیکھتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ خواب آنکھوں میں دھنسنا نہ شروع کردے۔
یہ حال صرف ہمارا ہی نہیں ہے ماشاء اللہ ہمارے بزرگ بھی اس معاملے میں ہم سے پیچھے نہ تھے۔ یاد رکھیں! جس ملک میں اخلاق اور قانون کی حکمرانی ہوتی ہے جس ملک میں وہاں کے شہری اپنے اخلاق اور قانون کی حفاظت اپنے بچوں کی طرح کرتے ہیں تو وہ نہ تو خود اخلاق اور قانون کو توڑتے ہیں نہ ہی دوسروں کو توڑنے کی اجازت دیتے ہیں جب آپ اپنے آپ کو اخلاق اور قانون کی خلاف ورزی کی اجازت دیتے ہیں تو پھر آپ دوسروں کو ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی آپ کا ضمیرآپ پر ملامت کرتا ہے۔
ظاہر ہے جب آپ خود اخلاق کے مالک نہیں ہونگے تو آپ کو دوسروں کے اخلاق سے کیا غر ض ہوگی۔ آپ اورکچھ نہ کریں صرف عزت و ثروت کی خاطر زندہ رہنا سیکھ لیں اور زندگی کا کھیل شان اور مناسب غرورونازکے ساتھ کھیلنا شروع کردیں اور علم اور وقارکے طلبگار بن جائیں پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ خود بخود سوچنا شروع کردیں گے اور جیسے ہی آپ سوچنا شروع کریں گے تو آپ کی غربت وافلاس، بے روزگاری، جہالت، بیماریوں، ذلت وخواری کے ذمے دار اس طرح غائب ہونگے جس طرح دن میں بھوت غائب ہوجاتے ہیں، کیونکہ آپ اپنے لیے ایماندار اور دیانت دار نمایندے منتخب کرنا شروع کردیں گے جو آپ کی زندگی کو جہنم نہیں بلکہ جنت بنانے کے عمل کا آغازکردیں گے۔