یہ گئے برس 2020کے مئی کی بات ہے جب کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونیں لکیر کے پار بھارتی فوج نے ایک مشکوک کبوتر کو اڑتے دیکھا، دیش بھگت بھارتی پولیس کے کان کھڑے ہوگئے جھٹ سے کبوتر باز بلائے گئے اورکتنے ہی جتن کرکے وہ کبوتر نیچے اتار اگیا اورخبراڑادی گئی کہ بھارتی فورسز نے پاکستانی جاسوس کبوتر "گرفتار"کر لیا، کبوتر خفیہ مشن پر تھا جس کے پاؤں میں پڑے چھلے پر کچھ نمبر بھی درج ہیں، سنسنی خیزی کی کاشت میں دنیا بھرمیں سرفہرست بھارتی میڈیا نے حد ہی کردی، جاسوس کبوتر کی گرفتاری کو ہیڈلائینز میں لے لیا کسی نے کہا کہ یہ کشمیری آتنک وادیوں کے لئے پیغام رسانی کررہا تھا اور کسی نے کہا کہ یہ آئی ایس آئی کے خفیہ مشن پر تھا جسے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا وہ بھی الجھ گیا کہ کبوتر کے پاؤں میں پڑے چھلے پر ایک کاغذلپٹا ہوا ہے جس پر کچھ ہندسے لکھے ہوئے ہیں، بھارتی خفیہ ادارے "را" سے زیادہ بھارتی میڈیا یہ "کوڈورڈ" کھولنے کی مشقیں کرنے لگا اوریہ معمہ اس وقت کھلا جب آزاد کشمیر کے شہری حبیب اللہ نے بھارتی وزیر اعظم سے اپیل کی کہ اسکے معصوم کبوتر کو رہا کیا جائے، وہ اپنے کبوتر کو ایک ٹورنامنٹ کے لئے پرواز کی مشق کرارہا تھا کہ یہ اڑ کر پار چلا گیا، حبیب اللہ نے اسکے پاؤں میں پڑے چھلے سے لپٹے کوڈورڈ کو ڈی کوڈ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسکا سیل نمبر ہے جو اس نے اس خدشے کے پیش نظر چھلے میں کاغذ پر لکھ کر لپیٹا تھا کہ اگر یہ کہیں اور اتر جائے اور کسی کے ہاتھ لگے تو وہ اس نمبر پر رابطہ کرلے۔ حبیب خان کے اس بیان کے کچھ دنوں بعد پاکستانی کبوتر کی گلو خلاصی ہوئی اور اسے نامعلوام مقام سے اڑا دیا گیا۔
بھارت میں جاری کسان تحریک کے پیچھے چینی اور پاکستانی ہاتھ دکھائی دینے کی د ر فنطنی چھوڑنے پر مجھ ے وہ کبوتر یاد آگیا ہے، بھارت میں جاری کسانوں کی تحریک پربھارتی نیتا اب کھل کر بولنے لگے ہیں کہ جاٹوں اور سکھ کسانوں کے اس غضب کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے، مودی سرکار میں مرکزی وزیر راؤ صاحب نے مہاراشٹر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کے پیچھے دونوں ہمسایہ ممالک ہیں، مودی سرکار کی کسانوں کی مالی حالت بہتر بنانے کے نام پر کی جانے والی قانون سازی نے بھارتی کسانوں کو مشتعل کر رکھا ہے کیا سکھ اور کیا مسلمان سب ہی اس تحریک میں شامل ہیں یہ سب دہلی کی سرحد پر کھڑے ہیں اور کوئی دن نہیں جاتا کہ ان کی ٹریکٹر ٹرالیاں ہریانہ اور دیگر علاقوں سے دہلی کا رخ کئے ہو ئے نہ ہوں۔ کسانوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو بھارت کے یوم جمہوریہ پر ملک گیر احتجاج کا اعلان کر یں گے اب تک دہلی سرکار کے کسانوں سے بات چیت کے چھ دور ہوچکے ہیں لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی وہ اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، پانچ نومبر 2020سے جاری اس تحریک نے ابھی تک تشدد کا رنگ نہیں پکڑا البتہ بھارتی پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ ہوتی رہی ہے۔
بھارت کی پچاس فیصد آبادی کاشت کاری سے جڑی ہوئی ہے کاشت کاری بھارت کی لائف لائن ہے 1960۔ سے بھارتی سرکار نے اس پر توجہ بھی دی جس کے بعد یہ شعبہ بتدریج اوپر اٹھتا چلا گیاتھالیکن گذشتہ پانچ برسوں سے بھارتی کسان پریشانیوں کا شکار رہا ہے مالی تنگ دستیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ یہ اپنی زندگی کے خاتمے کو ہی نجات سمجھنے لگے ہیں انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ مطابق2019میں 10281کسانوں نے خودکشیاں کیں اور اس پر انڈین ایکسپریس نے سرخی جمائی کہ 2016کی نسبت 2019میں خودکشیاں کم ہوئیں یعنی یہ مقام شکر ہے ایک اور انڈین روزنامے کے مطابق بھارت میں زراعت سے وابستہ اٹھائیس افراد یومیہ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔ ان میں مہاراشٹر سرفہرست ہے جہاں 2019 میں 3927کسانوں نے اپنی زندگیوں پر موت کو ترجیح دی، ایسے ماحول میں مودی سرکار نے تین قوانین پاس کئے ان کے مطابق پرائیوئٹ پارٹیوں کو منڈی سے باہر ہی باہر فصل خریدنے کا اختیار ہوگااور ایک قانون یہ بھی ہے کہ پرائیوئٹ پارٹی کسان کو اسکی مرضی کے مطابق فصل کاشت کرنے پر مجبور کرسکتی ہے، ان قوانین نے پہلے سے تنگ آئے بھارتی کسانوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا، کسان سمجھتے ہیں کہ بڑے ساہوکار اور کمپنیاں انہیں اچھی قیمت دینے کے بجائے اپنی مرضی کی مول دیں گی ان کا کہنا ہے کہ بڑے صنعتکار گروپ ایڈوانی اور امبانی ان اصلاحات سے خوب کمائیں گے ان کا سر کڑھائی اور پانچوں گھی میں ہوں گے اور یہی بات امرجیت سنگھ ایڈوکیٹ نے مودی کے نام اپنے آخری پیغا م میں کہی تھی، کسان تحریک کے اس حامی نے کسانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویئے پر دلبرداشتہ ہو کر زہریلی دوا پی کر زندگی کا خاتمہ کر لیاامرجیت نے لکھا کہ وہ کسانوں کی تحریک اور نئے زرعی قوانین کے خلاف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے اپنی زندگی کاخاتمہ کررہا ہے، امر جیت نے مودی کو مخاطب کیا کہ عام بھارتیوں کا خیال تھا کہ آپ بطور وزیراعظم ان کے بہتر مستقبل کے ضامن ہوں گے لیکن آپ صرف مخصوص صنعتکاروں کے وزیراعظم نکلے اس تحریک کے لئے اب تک دو کسان خودکشی کرچکے ہیں جبکہ اٹھارہ کاشت کار دوران احتجاج کسی نہ کسی سبب موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔
کسانوں کی اس تحریک نے سچ میں نئی دہلی کو ہلا رکھا ہے کسانوں کے یوم جمہوریہ پر ٹریکٹر پریڈ کے اعلان نے تو نریندرا مودی کے کانوں سے دھواں نکال دیا ہے وہ ایک کے بعد ایک مشیر ان کسانوں کے پاس بھیج رہے ہیں لیکن بات نہیں بن رہی، دوسری جانب بین الاقوامی میڈیا کی خبروں نے بھارتی وزارت خارجہ کو بوکھلا رکھا ہے، کینیڈین وزیر اعظم سمیت متعدد ممالک کے سربراہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت پر کڑی تنقید کر رہی ہیں لیکن مجھے حیرت ہے کہ اپنا پاکستانی میڈیا ستو پی کر سو رہا ہے، بھارتی میڈیا پاکستان کو رگڑنے کے لئے کبوتر کے پر بھی استعمال کر نے سے نہیں چوکتا ہمیں بالکل ایسا نہیں کرنا چاہئے لیکن اپنے پڑوس میں ہونے والی تبدیلیوں سے یوں آنکھیں بھی تو بند نہیں کی جاسکتیں۔