Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Pari Lakri

Pari Lakri

یہ دس اگست1999ء کادن تھاگھڑی کی سوئیاں سوا نوبجا ر رہی تھیں جب پاکستان نیوی کے فرانسیسی ساختہ طیارہ بریگیٹ نے پاک نیوی کے مہران ائیربیس سے اڑان بھری، طیار ے میں پانچ افسر سمیت سولہ اہلکار سوار تھے، یہ ایک معمول کی تربیتی مشق تھی، یہ طیارہ سمندر پر آسمان کی وسعتوں بھارتی سرحد کے قریب لیکن اپنی فضائی حدود میں پرواز کر رہا تھا کہ بھارتی فضائیہ کے دو لڑاکا جیٹ طیارے تیزی سے پرواز کرتے ہوئے اسکے قریب آئے ان طیاروں کے عزائم جارحانہ تھے لڑاکا جیٹ طیاروں میں سوار بھارتی ائیرفورس کے ہوا بازوں نے اپنے ائیر کنٹرول کو اطلاع دی کہ ہم نے طیارے کو engageکر لیا ہے یعنی وہ مزید احکامات مانگ رہے تھے گیارہ بجکر سترہ منٹ پر ایئر کنٹرول سے دونوں ہوابازوں کو"you are cleared to fire" کا پیغام ملاجس کے بعد اگلے ہی منٹ پاک بحریہ کے طیارے پر میزائل داغ دیا گیا میزائل غیر مسلح بریگیٹ کے بائیں انجن پر لگا اور طیارہ ڈولتا ہوازمین پر آرہا طیارے میں سوارپاک بحریہ کے پانچ افسروں سمیت سولہ اہلکار شہید ہوگئے۔ 1971ء کے بعد یہ پاک بحریہ کا سب سے بڑا نقصان تھا، پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ ان کا طیارہ غیر مسلح اور پاکستانی حدود میں تھا زمین پر گرنے والا ملبہ بھی پاکستانی موقف کی سچائی کی دلیل تھا۔ پاکستان نے اپنے پڑوسی کی اس زیادتی پر عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایااور چھ کروڑ ڈالر اور شہداء کے خاندانوں کیلئے ہرجانے کی رقم کا مطالبہ کیا۔ بھارت کو علم تھا کہ غیر مسلح طیارے کا گرنے والا ملبہ اسکے لئے پریشانیاں کھڑی کرسکتا ہے اسکے موقف کے چند پیشیوں میں چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ اس لئے اس نے عوامی عدالت کےدائرہ کار کو ہی ماننے سے انکار کردیا بھارتی اٹارنی جنرل سوراب نے دلائل دیئے کہ یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا، عالمی عدالت فریقین کی رضامندی کے بعد ہی کوئی مقدمہ سنتی ہے اگر کوئی فریق رضامند نہ ہو تو یہ عدالت نہیں لگتی، دس ماہ بعد جون 2000ء میں عالمی عدالت کے سولہ ججوں میں سے چودہ نے بھارت کا یہ موقف تسلیم کرلیاصرف اردن کے جسٹس الخسانخ اور پاکستانی ایڈہاک جج شریف الدین پیرزادہ نے اختلافی نوٹ لکھے، بھارت کی اس زیادتی پر عالمی دباؤ کی کسی چیل نے اسکے ترنگے پر بیٹ نہیں کی اسے کوئی شرمندگی نہیں ہوئی بلکہ اس نے غیر مسلح طیارہ گرانے والے سورماؤں کے سینے پر تمغے بھی سجائے۔

بریگیٹ کے ملبے، سولہ شہداء کے پرزے پرزے ہونیوالے جسم اوربھارتی ہوابازوں کو سینوں پر سجنے والے تمغوں کو سامنے رکھتے ہوئے کلینڈر کے ورق پلٹیں اور مارچ 2017ء میں آجائیں تین مارچ کو پاکستان نے بھارتی جاسوس کو گرفتار کیا۔ 24مارچ کوپاک فوج نے بتایا کہ کل بھوشن یادیو پاک بحریہ کا حاضر سروس افسر اور "را" میں تعینات ہے، 26مارچ کو پاکستان نے بھارتی سفیرکوطلب کرکے احتجاج کیا اور 29مارچ کواس دہشت گرد جاسوس کو ٹیلی وژن اسکرین پر لے آیا گیا اس کی اعترافی وڈیو جاری کی گئی۔ 1999ء کے برعکس اس بار بھارت عالمی عدالت میں چلا گیا۔ عجیب اتفاق کے ان دنوں بھی پاکستان پرمسلم لیگ ن کی حکومت تھی اوروزیر اعظم نوازشریف تھے انکے پاس اختیار تھا کہ وہ 99ء میں بھارتی موقف کی طرح کاندھے اچکا کر موقف اپناتے کہ ہم عالمی عدالت کوہی نہیں مانتے لیکن ہم نے برعکس قدم اٹھایا اور عالمی عدالت میں پیش ہو گئے۔

یہ پس منظر سامنے رکھیں اور اب 23جولائی 2020ء کوقومی اسمبلی کے اجلاس میں آجائیں یہاں ہمیشہ کی طرح ہمارے رہنما ایک دوسرے کے خلاف رانی توپیں دم کرتے ملیں گے اس روز بھی ایسا ہی ہوا مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف نے سب سے پہلے توپ کے فیتے کو دیاسلائی دکھائی انہوں نے حکومت کے مسے نوچتے ہوئے کہا کہ حکومت کل بھوشن کے لئے آرڈیننس جاری کرکے اسکی سہولت کار بن رہی ہے انہوں نے کہا کہ جب ہم لوگ حکومت میں تھے تو ہم پر مودی کے یار کی پھبتیاں کسی جاتی تھیں آج بتایا جائے کہ مودی کا یار کون ہے؟ خواجہ صاحب سینئر سیاستدان ہیں بالوں پر غالب سفیدی انہیں "بزرگ" کہنے کی اجازت بھی دیتی ہے اوربزرگی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ بزرگوں سے خواہ مخواہ حق گوئی کی توقع ہوجاتی ہے سو اگرقوم کو ان سے بھی ایسی ہی کسی توقع کا عارضہ لاحق ہو تو عجب نہیں انہوں نے قومی اسمبلی میں کل بھوشن کو ملٹری عدالت کی سزا چیلنج کرنے کا اختیار دینے والے صدارتی آرڈیننس پر اعتراض کیا لیکن اسکی وضاحت نہیں کی کہ انکی حکومت کو عالمی عدالت جانے کیلئے کس بھڑ نے کاٹا تھا؟ وہ عالمی عدالت کیوں گئے؟ نہ جاتے اور نہ ہی عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ سننا پڑتا، زرا ان دنوں کو یاد کریں تین مارچ 2017ء کو کل بھوشن یادیوکی گرفتاری کا اعلان کیا جاتا ہے اور اگلے ہی مہینے بھارتی تاجر اور مودی کے قریبی دوست سجن جندل اسلام آباد آپہنچتے ہیں اور ایسے کھنچاؤ کشیدگی کے ماحول میں وزیر اعظم اپنے دوست کو لیکر مری نکل جاتے ہیں؟ سجن جی سے ملاقات کے بعد دس مئی کو بھارت عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور پاکستان خواہ مخواہ کی پڑی لکڑی اٹھا کر عالمی عدالت میں چلاجاتا ہے آخر کیوں؟

23جولائی میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شیریں مزاری نے بتایا کہ مسلم لیگ کی حکومت نے پہلے عالمی عدالت کے دائر ہ کار کونہ مان کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں خط لکھا تھا انہوں نے نوید قمر کو مخاطب کرکے کہا اس حوالے سے جوائنٹ میٹنگ میں نوید قمر، شیری رحمان اور میں بھی موجود تھی اور ہم دونوں جماعتوں اعتراض کیا تھا کہ آپ عالمی عدالت کیوں جارہے ہیں؟ پھر انہوں نے عالمی عدالت میں جانے کے بعد محض بیس گریڈ کے افسر کویہ اہم ترین کیس دیکھنے کی ذمہ داری دی۔ انہوں نے دہائی دی کہ ہمیں تو مسلم لیگ نے پھنسایا۔ کل بھوشن کو عدالت تک رسائی دینے والے آرڈیننس پر تحفظات اعتراضات مسلم لیگ کا حق ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی تو فرض ہے کہ وہ اس اسرار سے بھی پردہ ہٹائے کہ میاں صاحب نے "سجن " کی آمد کے بعد عالمی عدالت نہ جانے کے فیصلے سے یوٹرن کیوں لیا؟ یہ پڑی لکڑی کیوں لی؟