مجھے ترکی میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا احساس وہی ہوا جواستنبول کے خوبصورت شہر پرفضا میں منڈلاتے ہوئے کسی بھی طیارے کے مسافر کو ہوتا ہوگا۔ آبنائے باسفورس کنارے آباد مسلمانوں کے عظمت رفتہ کی داستان سنانے والے اس شہر میں اترنے سے پہلے ہی دل میں ترکوں کی ترکی سے قابل رشک محبت اتر جاتی ہے۔ طیارہ لینڈنگ کے لئے جھکائی دیتا نہیں کہ آبنائے باسفورس کے شفاف پانیوں پرمتحرک سرخ نقطے دیکھنے لگتے ہیں۔ اتاترک ائیرپورٹ سے باہر آتے ہی یہ سرخ نقطے چاند ستارے والے ترکی کا پرچم بن جاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی شاہراہ کوئی چوراہا اور کوئی عمارت ایسی ہو جہاں یہ سرخ پرچم لہراتا دکھائی نہ دے ترک اپنے وطن سے محبت کا ایسے ہی اظہار کرتے ہیں۔
ترکوں کی ترکی سے محبت کا عملی مظاہرہ ہمیں اسکے سرحدی شہر شانلی عرفا سے واپسی پراس وقت دیکھنے کو ملا جب وین کا ڈرائیور ہمیں مچھلی کھلانے غازی انطب شہر لے جارہا تھا۔ داخلی راستے پر سیاہ وردی میں ملبوس ترک رینجرز کے جوانوں نے ہمیں روک لیا شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے باعث ترکی کے سرحدی شہروں میں حفاظتی انتظامات غیر معمولی ہیں۔ گاڑی رکی تو رینجرز کا ایک جوان وین میں داخل ہوا اور سلام کرکے ترکی میں کچھ کہنے لگا۔ ہمارے مترجم نے اسے بتایا کہ یہ سب پاکستانی مہمان ہیں اوران میں پاکستان کے صحافی اور علماء کرام ہیں۔ پاکستان اور علماء کرام کا سنتے ہی وہ اہلکار مودب سا ہوگیا اس نے وائرلیس پر کہیں اطلاع دی اور احکامات کا انتظار کرنے لگا اس دوران اس نے علماء کرام کی موجودگی کا فائدہ اٹھانے کا سوچا اور کہنے لگا میں ان معزز علماء سے دعا کی درخواست کرسکتا ہوں؟ مترجم نے یہ بات بتائی اس پر بھلا کس کو اعتراض ہوتا دعا کی ضرورت کسے نہیں ہوتی۔ میں سمجھا کہ بیچارہ کسی مشکل میں ہوگاشائد اسے ترقی چاہئے ہوگی یا قرضوں میں پھنسا ہوگالیکن اسے ترقی چاہئے تھی نہ قرضوں سے نجات۔ اسے تو ترکی کا استحکام اور ترقی چاہئے تھی اس نے جب کہا کہ ہمارے ترکی کے لئے دعا کیجئے گا تو ہم سب حیران ہو گئے ترکوں کو اپنے وطن اور اسلام سے ایسے ہی محبت کرتے پایا اگر چہ کہ ترک قوم کو پکڑ پکڑ اسلام سے دور کیا گیا لیکن یہ اسی شدت سے اسلام کی طرف پلٹے ہیں اور اسکا سہرہ ترک صدر طیب اردوان اور ان اسلامی این جی اوز کے سر جاتا ہے جس نے ترکوں سے سیکولرزم کو ایسے جھاڑا جیسے صبح نیند کے بعد بستر سے چادر جھاڑی جاتی ہے۔
ترکوں نے آج سے چار برس پہلے پندرہ جولائی کو بغاوت کرنے والوں کو پکڑ پکڑ کر ایسے ہی جھاڑا تھا۔ میں ترکی میں ان لوگوں سے ملا ہوں جو باغیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے میں ترک این جی او، آئی ایچ ایچ کے سربراہ فہمی یلدرم سے بھی ملاہوں جس کی ایک کال پر استنبول کی سڑکوں پر ترک امڈے چلے آئے تھے راسخ العقیدہ یلدرم اپنی خدمت سے ترکوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں ان کی یہ این جی اومسلم دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ہے جو دنیا بھر میں پچیس ہزار یتیم بچوں کی پرورش کررہی ہے اسکی خدمات کا دائرہ 123ملکوں تک پھیلا ہوا ہے لیکن یہاں بات صرف اسلام پسند ترکوں کی جائے اور لبرل سیکولر، قوم پرست ترکوں کا ذکر نہ کیا جائے تو بدترین خیانت ہوگی، استنبول میں اسلام آباد کے نوجوان انجینئر شاہوار کئی برسوں سے مقیم ہیں انہوں نے یہ بغاوت ہوتے اور اسے عوام کو کچلتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے شاہوار مجھے اس شاہراہ لے جا کربغاوت کے دنوں باتیں کرتا رہا ہے اس نے بتایا کہ بغاوت کا اعلان ہوتے ہی استنبول کی شاہراہیں ترکوں سے بھر گئی تھیں ترک عورتیں ہاتھوں میں بیلن، وائپر لئے سڑکوں پرباغیوں کی پٹائی کرنے آپہنچی تھیں۔ ایک طرف اسکارف باندھے ہوئے اسلام پسند خواتین تھیں تو دوسری جانب ماڈرن ترک خواتین سگریٹ کے کش لیتے ہوئے باغیوں کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں ایک طرف اردوان کے حامی تھے تو دوسری طرف اسے ووٹ دینے سے انکاری سیکولر لبرل۔۔۔
لیکن اس وقت کسی نے سیکولر قوم پرست یا اسلام پسند کا لیبل نہ لگا رکھاتھا سب ایک تھے اور پھر وہ مناظر کس نے نہیں دیکھے جب عوام نے باغیوں کو پکڑ پکڑ کر پولیس کے حوالے کیاجب شاہوار تقسیم اسکوائر کے قریب مجھے بغاوت کے دنوں کی کہانی سنا رہا تھا تب بھی میں ترک قوم پرستوں کا اپنے قوم پرستوں سے موازنہ کئے بنا نہ رہ سکا تھا اور آج بھی سوچتاہوں کہ ایک ہمارے بھی قوم پرست ہیں، ہمارے نصیب میں لکھے گئے قوم پرست کہیں اور بھی پائے جاتے ہیں؟ ترکی میں بھی کرد ہیں اورشام کی سرحد سے ملحق شہروں میں عربی بولنے والے ترک بھی ہیں لیکن ان میں سے شائد ہی کوئی پاکستانی قوم پرستوں جیسا نابغہ ہوجو ترکی میں کھڑے ہو کر ترکوں سے دوسرے ملک کی شہریت لینے کی تاکید کرے اور اگر ایسی حماقت کرے تو ترک اسے اٹھا کر بحر مردار میں نہ پھینک دیں، خیر سے ہمارے پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی صاحب سات اکتوبر 2018ء کوکوئٹہ کے ایک جلسے میں اپنے کارکنوں کو افغانستان کی شہریت لینے کی ہدایت کرچکے ہیں، اس سے پہلے ان کے والد مرحوم عبدالصمد خان اچکزئی ساری زندگی پشتونستان کیلئے کوششیں کرتے رہے۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ کانگریس کے متحرک کارکن تھے۔ کے پی کے میں خان عبدالغفار خان سرحدی گاندھی تھے تو یہ یہاں بلوچی گاندھی کے نام سے جانتے تھے۔
پاکستان میں قوم پرست تحریکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں انہیں گھٹی دینے والے ہاتھ وہی ملیں گے جو پاکستان کا گلا دبانا چاہتے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے۔ پشتون قوم پرست ہوں یا بلوچی، سندھی?ان سب کی زبان ثقافت رنگ نسل سب مختلف ہیں لیکن پاکستان کے حوالے سے ان سب کا نظریہ فکر مشن مشترک ہوجاتاہے، جی ایم سید صاحب کو جانے دیں کہ ان کے پاکستان کیلئے خیالات سب جانتے ہیں حال ہی میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو دیکھ لیں پاکستان کا کھاپی کر عیاشیاں کرتے رہے بانیان پاکستان کی اولاد کہلاتے رہے اور اب لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کررہے ہیں نہ سمجھ میں آنیوالا معمہ ہے کہ پاکستان میں قوم پرستی کی زمین پر وطن کیلئے ببول ہی کیوں اگتے ہیں یہاں وطن بیزاری کے کیکٹس ہی کیوں نظر آتے ہیں یہاں کوئی مادر وطن کا جاں نثار کیوں نہیں ملتا۔ ہمارے ملک میں قوم پرستی کی مٹی اتنی بانجھ کیوں ہے!