پاکستان میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی دوستی ٹام اینڈ جیری کی طرح ہوتی ہے، اگر دوستی ہے تو "پکی"اور اگر دشمنی ہے تو وہ بھی پکی!اس لیے اکثر کہتے سنا گیا ہے کہ ملک اس لیے ترقی نہیں کر رہا کہ بیوروکریسی تعاون نہیں کر رہی یا بیوروکریسی کرپٹ ہے۔ یا یہ بھی سنا گیا ہے کہ حکومت نالائق ہے، اس لیے معاملات کو صحیح انداز میں سمجھ نہیں پا رہی، یا اکثر بیورو کریسی یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں منشور تو لے کر آتی ہیں لیکن ایکشن پلان نہیں لے کر آتیں۔
یعنی یہ کشمکش ہر دور حکومت میں جاری و ساری رہتی ہےموجودہ حکومت بھی جب سے اقتدار میں آئی ہے، تب سے بیوروکریسی میں انقلابی تبدیلیوں کی خواہاں ہے لیکن کیا کریں، معاملات سلجھنے کے بجائے مزید بگڑ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بیوروکریسی سے متعلق چند ماہ قبل نئے قوانین بھی پاس کیے گئے جن کے بارے میں بعد میں ذکر کریں گے لیکن ابھی گزشتہ دنوں انھیں رولز کے پیش نظر وزیر اعظم نے عمران خان نے بیوروکریسی کے رویے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے بیوروکریسی کوکارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی جب کہ متعدد افسروں کو شوکاز نوٹس اور وارننگ جاری کیے گئے جب کہ کئی افسروں کو محتاط رہنے کی ہدایت جب کہ کئی افسران سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔
اسے اوور ری ایکٹ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ نوٹسز "نامعلوم" شکایات پر لیے گئے۔
جس خطے میں جھوٹی شکایا ت کا کلچرہو، وہاں حکمرانوں کو ذرا احتیاط سے کام چلانا چاہیے، لہٰذا ہماری بیوروکریسی اور حکومت کے ٹام اینڈ جیری کھیل میں کہیں نہ کہیں پسند نہ پسند کا عنصر بھی چھپا ہوتا ہے۔ ویسے بھی اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا وزیراعظم عمران خان کا مشن اور عزم ہے لیکن تاحال بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی جس کی بنیادی وجہ فریقین کا رویہ ہے۔ اور چونکہ عوام و خواص کو براہ راست افسر شاہی اور حکومت سے ہی واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے دونوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ عمل "گونگلوؤںسے مٹی جھاڑنے" کے ہی مترادف ہے۔
درحقیقت سول بیورو کریسی میں اصلاحات کے نام پر مختلف حکومتیں مختلف اقدامات عمل میں لاتی رہی ہیں لیکن پولیٹیکل وِل نہ ہونے کی بناء پر پہلے سے چلتا ہوا بیوروکریٹک نظام ٹھیک ہونے کے بجائے اْلٹا خراب ہوتا چلا جاتا ہے۔ حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن مختلف شعبوں میں کی جانے والی اصلاحات کبھی پروان نہیں چڑھ سکیں۔ اس کی ایک وجہ تو عمومی طور پر یہ ہوتی ہے کہ ہر نئی حکومت گزشتہ حکومتوں کے دور میں شروع ہونے والی ریفارمز کو تسلسل دینے کے بجائے اُس میں سے کیڑے نکال کر واویلا مچائے رکھتی ہے اور پولیٹیکل ویکٹامائزیشن کے سہارے اپنا اپنا وقت گزار کر چلی جاتی ہیں اور عوام آیندہ آنے والی حکومتوں سے آس لگا لیتے ہیں۔
تحریک انصاف کے دور میں بھی اصلاحات ہونے کے بجائے انکوائریاں کرنے کے لیے نئے قوانین بنائے گئے، حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں "سول سرونٹس ایفی شنسی اینڈ ڈسپلن رولز 2020" لاگو کیے۔ ان رولز کی رو سے جائیداد اور آمدن میں مطابقت نہ رکھنے والا سرکاری عہدیدار کرپٹ تصور کیا جائے گا اور خورد برد ثابت ہونے پر ریکوری، عہدے سے تنزلی یاجبری ریٹائرمنٹ میں سے کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ الزام علیہ (ملزم) جواب نہ دے سکے تو اتھارٹی30دن کے اندر فیصلہ کرے گی۔
مس کنڈکٹ کی تشریح بھی کی گئی ہے۔ مس کنڈکٹ سے مراد یہ ہے کہ تقرری، پروموشن، ٹرانسفر، ر یٹائرمنٹ یا سروس کے دیگر معاملات میں سیاسی طور پر اثر ور سوخ استعمال کرنا۔ کرپشن کے بعد کسی ایجنسی سے پلی بارگین کرنا بھی مس کنڈکٹ تصور ہوگا۔ سول سرونٹ کے خلاف انضباطی کارر وائی جن بنیادوں پر کی جاسکے گی، ان میں کسی افسرکی اپنی یا اس پر انحصار کرنے والے اہل خانہ کی جائیداد یں، ان کے ظاہری ذرایع آمدن سے مطابقت نہ رکھتی ہوں یا ان کا طرزِ زندگی ذرایع آمدن سے مطابقت نہ رکھتا ہو یا وہ تخریب کاری یا مشکوک سر گرمیوں میں ملوث ہوں یا وہ سر کاری راز کسی غیر مجاز شخص کو بتانے کا مرتکب ہو۔ ایسی صورت میں اس افسر کے خلاف انضباطی کارروائی ہو گی وغیرہ۔
الغرض مختلف ادوار میں ایک مضبوط، شفاف، فعال اور قابل عمل سسٹم بنانے کے بجائے غیر پیچیدہ یامبہم اقدامات کی وجہ سے سول بیوروکریسی کا حلیہ بگاڑ دیاگیا، اور اب حکومت کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے بیوروکریسی کا مورال مزید ڈاؤن ہو گیا ہے۔ حالانکہ بیوروکریسی ہی وہ واحد شعبہ ہے جو ریاست اور حکومت کو فنکشنل رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ جن اَدوار میں لوگ گورننس کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے تھے، اُن ادوار میں بھی بیوروکریسی کے طفیل کچھ نہ کچھ معاملات چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
بیوروکریسی میں لاکھ برائیاں سہی مگر انھیں ایک سسٹم میں لاکر ٹھیک کیا جا ئے، سیاست کا اس میں قطعاََ عمل دخل نہ ہو، ہمیں اس حوالے سے انڈیا کے ماڈل کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں کسی بھی ٹھیکے میں سیاسی اثرورسوخ ثابت ہو جائے تو دوبارہ اُس بیوروکریٹ کو کسی بھی بڑے پراجیکٹ کا حصہ نہیں بننے دیا جاتا، اس لیے تمام بیوروکریسی ایک سسٹم کے اندر رہ کر کام کرتی ہے۔ اس لیے وہاں ایک بات بہر کیف طے ہے جب بھی معاملات بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہوں یا انھیں اُن کی مروجہ آئینی حدود میں کام کرنے دیاجائے ملک میں میرٹ اور شفافیت دکھائی دیتی ہے۔
اور کرپشن کا تناسب بھی کم ہوگا، کیوں کہ بھارت میں پراجیکٹس میں کرپشن کا تناسب11فیصد اور ہمارے ہاں بہت زیادہ ہے۔ میرے خیال میں کام ہمیشہ اُس وقت خراب ہوتا ہے، جب کسی افسر کا کسی خاص شعبے کا رجحان ہی نہیں ہوتا اورذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے اُسے وہاں تعینات کردیا جاتا ہے تو وہ بنا بنایا نظام تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس لیے میری رائے میں بیوروکریسی کے مزاج کو سمجھاجائے اور انھیں اُن پر مسلط ہونے کے بجائے اُن سے ایسا سسٹم بنایا جائے جس میں سرکاری افسر خودکو آزاد اور ذمے دار محسوس کریں، تو یہی بیوروکریسی آپ کو 100فیصد نتائج دے گی، ورنہ ہم مزید نقصان کی طرف بڑھیں گے!