آج جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں، بجٹ کا اعلان کیا جانا ہے، ٹی وی چینلز اور اخبارات سمیت ہر جگہ مختلف پیش گوئیاں اور تبصرے کیے جا رہے ہیں کہ آنے والا بجٹ عوام دوست ہوگا یا عوام دشمن۔ آنے والے بجٹ کی بہت سی تفصیلات اور شقیں تو لوگوں کو پہلے سے ہی پتا ہیں جس کی وجہ سے بزنس کمیونٹی اور عوام پریشان نظر آتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کے کہنے پر بنایا جا رہا ہے اور اس میں عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جائے گا۔ دوسری طرف سے یہ توضیح پیش کی جا رہی ہے کہ بجٹ میں جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ پاکستان کے لیے بہت ضروری ہیں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس بجٹ کے بعد آپ دیکھیں گے کہ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گااور نتیجتاً عام آدمی کی ضروریات کی چیزوں کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی اور مہنگائی کا ایک سیلاب آئے گا۔
کسی بھی بجٹ کے دو مخصوص نکات ہوتے ہیں، ایک یہ کہ پیسہ اکٹھا کہاں سے کیا جائے گا اور دوسرا پیسہ کہاں لگایا جائے گا۔ جہاں تک پیسہ اکٹھا کرنے کی بات ہے تو ایف بی آر نے اپنا ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف 55 کھرب روپے رکھا ہے، جو گزشتہ سال کے ہدف کے دو گنا سے کچھ کم ہے۔ یاد رکھیں کہ گزشتہ سال کا ٹارگٹ بھی ایف بی آر پورا نہیں کر سکا۔ یہ بہت مشکل محاذ ہے اور معیشت کا حجم کم ہونے کی وجہ سے مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ امسال اقتصادی ترقی کی شرح نمو 3.3 فیصد رہی حالانکہ ہدف 6.3 فیصد مقرر تھا۔
ٹیکس بڑھانے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں یا تو آپ اشرافیہ کے پیچھے پڑ جائیں یا پھر عوام کو نچوڑ کر ٹیکس اکٹھا کریں۔ اشرافیہ کے پیچھے پڑنا بہت مشکل اس لئے ہے کیونکہ طاقتور طبقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں بھی یہی طبقہ بیٹھا ہوا ہے اور یہ اپنے مفادات کی بھرپور حفاظت کرتا ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم آتی رہتی ہیں حالانکہ اس کا بینی فشری طبقہ محض ایک یا دو فیصد بلکہ اس سے بھی کم ہوتا ہے۔ دوسرا، اشرافیہ سے ٹیکس زیادہ اکٹھا کرنے کے لیے محنت بھی بہت زیادہ درکار ہوتی ہے کیونکہ آپ کو ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ کون ٹیکس کم دے رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں عوام پر ٹیکس لگانا بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ ان سے ڈائریکٹ ٹیکس نہیں لیا جاتا بلکہ ان پر ہمیشہ بالواسطہ ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ سیلز ٹیکس بڑھا کر یا مختلف اشیاء کے اوپر ڈیوٹی لگا کر ٹیکس آسانی سے اکٹھا ہو جاتا ہے لیکن غریب عوام کی زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔
لیکن صرف عوام سے زیادہ پیسہ اکٹھا کرنے سے بجٹ عوام دشمن نہیں ہو جاتا۔ اس بات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ یہ اکٹھا کیا گیا پیسہ کہاں استعمال ہو رہا ہے اور کیا اس سے عوام کی فلاح کے لئے بھی کوئی کام کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے تو سب سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کریں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ آپ کا ٹیکس آپ پر ہی استعمال ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے یا پھر عوام سے کئے گئے باقی وعدوں کی طرح یہ بھی ایک سیاسی بیان ہے؟
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ پبلک سیکٹر کے بجٹ میں گزشتہ سال بھی کٹوتی کی گئی اور اس بجٹ میں بھی کی جائے گی۔ حالانکہ جب ترقیاتی کام کم ہوتے ہیں تو معیشت کے ساتھ ساتھ نوکریوں پر بھی اس کی ضرب پڑتی ہے۔ ترقیاتی کام کرکے حکومت نہ صرف عوام کو فائدہ پہنچاتی ہے بلکہ معیشت کی بڑھوتری کے لیے بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دوسری طرف صحت، تعلیم اور عوام کی فلاح کے دیگر کاموں کیلئے نہ تو کوئی نئی اسکیم متعارف کرائی گئی ہے اور نہ ہی ان سیکٹرز کے بجٹ میں کسی قابلِ ذکر اضافے کی امید ہے۔
لہٰذا بجٹ خسارے کو عام عوام پر بہت زیادہ ٹیکس لگا کر پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی، بجٹ کا زیادہ تر حصہ قرضوں کی ادائیگی اور ریاست کے اخراجات پورے کرنے میں لگ جائے گا۔ عمومی طور پر بجٹ پر تنقید دفاعی بجٹ کے حوالے سے کی جاتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ بجٹ قرضوں اور قرضوں پر واجب الادا سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جاتا ہے۔ عوام کو کسی حد تک ضرور لیکن شاید براہ راست اس بجٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت اور ریاست کو چاہئے کہ اگر عوام سے قربانی درکار ہے تو خود بھی قربانی دیں۔ عوامی عہدیداروں کو کیا ضرورت ہے کروڑوں کی گاڑیوں میں پھرنے اور بڑے بڑے گھروں میں غریب عوام کے پیسوں سے شاہانہ زندگی گزارنے کی؟ ہمارے جیسے ملکوں کو جو دنیا بھر میں بھیک مانگتے پھرتے ہیں، یہ چیزیں زیب نہیں دیتیں اور عوام کو بھی ٹیکس کم ادا کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔
یہ بجٹ عوام کا دوست ہوگا یا دشمن، یہ تو آپ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں لیکن یہ نظر آ رہا ہے کہ اس ملک کے بیشتر عوام کے لیے آنے والا وقت بہت مشکل ہے۔