پاکستان میں ایک عام رواج ہے کہ ہمارے بیشتر اہل دانش، لکھاری اور تجزیہ نگاری کے خواہش مند حضرات مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستانی ریاست اور ریاستی پالیسیوں کے لتے لیتے رہتے ہیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی نکتہ کھوج کر یہ ثابت کیا جاتا ہے ہماری تمام پالیسیاں غلط تھیں اور بحیثیت قوم، بحیثیت ریاست ہم مکمل طور پر ناکام رہے۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہہ رہے کہ ماضی میں غلطیاں نہیں ہوئیں۔ یہ کہنا مگر ٹھیک نہیں کہ ہم نے سب کچھ غلط ہی کیا۔ پاکستانی ریاست اور مختلف حکمرانوں کے ادوار میں کئی درست فیصلے ہوئے، ایسی پالیسیاں بنائی گئیں، جنہیں تسلسل سے جاری رکھا گیا۔ آج دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان نے اپنے کارڈز درست انداز سے کھیلے۔ تجزیہ نگاری کے لئے پہلی شرط دیانت داری ہے۔ کسی تعصب کے بغیر سچائی کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، وہ لکھا جائے۔ جہاں غلطی ہوئی، اس کی نشاندہی ہو، جہاں پالیسی درست نکلی، اس کا اعتراف کیا جائے۔
کئی مثالیں بیان کی جا سکتی ہیں۔ جیسے پاکستان نے چین کے ساتھ قریبی، سٹریٹجک تعلقات قائم کرنے کا درست فیصلہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب اس پالیسی کے معمار تھے۔ وزیرخارجہ بننے سے بھی پہلے انہوں نے وزیر تجارت کے طور پر یہ تجویز پیش کی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاک چین تعلقات میں گہرائی محمد علی بوگرہ کے دور میں آئی۔ ایوب خان نے اس پالیسی کو اپنایا، جسے بھٹو حکومت نے بعد میں آگے بڑھایا۔ جنرل ضیا، بے نظیر بھٹو، نواز شریف سے جنرل مشرف تک تمام حکمرانوں نے اسے جاری رکھا۔ مزید کمال یہ ہوا کہ چین کے ساتھ یہ قریبی سٹریٹجک پارٹنر شپ مغرب اور امریکہ کو ناراض کئے بغیر قائم رکھی گئی۔ خارجہ امور میں توازن کی یہ نہایت عمدہ مثال ہے۔ مغربی تھنک ٹینکس بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان نے امریکہ کی خاطر چین کو ناراض نہیں کیا اور نہ ہی چین کی خاطر امریکہ یا مغربی دنیا سے رابطے توڑے۔
سعودی عرب اورخلیجی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھنا بھی عمدہ حکمت عملی تھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستانی ریاست کے قریبی تعلقات ہمارے بدترین دنوں میں کام آتے رہے۔ اس حوالے سے البتہ دو غلطیاں ہوئیں۔ سعودیوں کو پاکستان میں مدارس کے نیٹ ورک سے براہ راست رابطے اور فنڈنگ کی اجازت دی گئی۔ ، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اس کا نقصان ہوا۔ دوسرا پاکستان اپنے اندرونی معاملات میں اس قدر کمزور ہوگیا کہ جہاں سعودی عرب پاکستان کی طرف تحفظ کے لئے دیکھتا تھا، اب ہمیں ویسی نظر سے اُدھر دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا کہ سعودی عرب کی وجہ سے پاکستان کو کسی دوسرے ملک میں ہونے والی عالمی کانفرنس کا بائیکاٹ کرنا پڑے۔ یہ ریاستی سطح پر ہماری کمزوری اور نقاہت کی علامت ہے۔ ایک اچھی بات جس کو سراہنا چاہیے، وہ سعودی عرب کی خاطر اپنے ہمسایہ ملک ایران سے بگاڑنے سے گریز ہے۔ پاکستانی ریاست نے اس حوالے سے شدید دبائو برداشت کیا، مگر کبھی ایران، عرب مخاصمت کا حصہ نہیں بنا۔ جنرل ضیاء الحق نے ایران عراق جنگ میں عرب بلاک کے دبائو کے باوجود غیر جانبداری اپنائی۔ یہ درست حکمت عملی تھی۔ آج بھی ریاستی پالیسی یہی ہے کہ عرب ایران لڑائی میں کوئی پوزیشن نہ لی جائے۔
ہمارے ہاں ایک مفروضہ عوامی مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بیک وقت سوویت یونین اور امریکہ سے دعوت نامہ آیا، مگر لیاقت علی خان روس کی دعوت ٹھکرا کر امریکہ چلے گئے اور یوں پاکستان مغربی بلاک کا حصہ بن گیا جو کہ ٹھیک نہیں تھا۔ یہ بات ویسے حقیقت نہیں ہے۔ اب تو خاصا مواد شائع ہوچکا ہے، اس زمانے میں سوویت یونین میں پاکستانی سفارت کاروں کی یاداشتیں شائع ہوچکی ہیں کہ ایسی کوئی باقاعدہ دعوت روسی قیادت کی جانب سے دی ہی نہیں گئی تھی۔ اگر ایک لمحے کے لئے فرض کر لیں کہ واقعی ایسا ہوا تھا، تب بھی آج ہم سب جان چکے ہیں کہ روسی بلاک میں جانا آخری تجزیے میں غلطی ہوتا۔ مغرب اور سوویت یونین کی لڑائی میں روس کھیت رہا۔ پاکستان نے درست گھوڑے پر دائو کھیلا اور اس کے ثمرات بھی حاصل کئے۔ 1965ء کی جنگ میں پاکستانی پائلٹ غیر معمولی جرات اور مہارت سے لڑے، مگراس جنگ میں ہماری اچھی کارکردگی کا کچھ حصہ مغربی ٹیکنالوجی اور اسلحہ کی بدولت بھی تھا۔ بھارت نے روسی اسلحے اور ٹیکنالوجی پر بھروسہ کیا اور اسے نقصان ہی ہوا۔
ایسی ہی کامیاب پالیسی اسلحے اور دفاعی قوت کے حوالے سے رہی۔ میاں نواز شریف کے طرز سیاست پر کئی حوالوں سے تنقید کی جا سکتی ہے، مگر میرے خیال میں انہوں نے دو تین فیصلے بہت اچھے کئے۔ موٹروے بنانے پر اس زمانے میں بڑی تنقید ہوئی، مگر آج موٹرویز کے جال نے جو سہولت عوام کو دی ہے، اس کا اندازہ ہر کوئی لگا سکتا ہے۔ میاں صاحب کا وہ فیصلہ درست تھا۔ میاں نواز شریف نے خلیج کی پہلی جنگ میں عراق کا ساتھ دینے سے گریز کیا، حالانکہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اس بارے میں نہایت غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے تھے۔ پاکستانی عوام کی پچانوے فیصد سےزیادہ تعداد صدام حسین کے ساتھ تھی، مگروزیراعظم نواز شریف نے دانشمندانہ فیصلہ کیا اور اس کا فائدہ پاکستانی ریاست کو پہنچا، ورنہ ہم بھی عراق اور فلسطین کے یاسرعرفات کی طرف دنیا بھر میں تنہا رہ جاتے۔ تیسرا درست فیصلہ ایٹمی دھماکہ کرنا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت امریکہ نے باضابطہ اور غیر رسمی سطح پر بے پناہ دبائو ڈالا، بہت سی مالی ترغیبات بھی دی گئیں۔ نواز شریف صاحب کی کابینہ کے کئی لوگ اور ان کے قریبی مشیر بھی دھماکہ نہ کرنے کے حق میں تھے۔ میاں نواز شریف نے ایک نیشنلسٹ لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے درست فیصلہ کیا۔ اگر اس وقت جرات نہ کی جاتی تو بعد میں عالمی دنیا نے ہمیشہ مختلف معاہدوں کے شکنجے میں جکڑ لینا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی پاکستان کے میزائل پروگرام کو آگے بڑھا کر دلیرانہ فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے ان کا شمالی کوریا کا دورہ بہت اہم اور دوررس نتائج کا حامل تھا۔ بہت سی باتیں لکھی نہیں جا سکتیں، مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ بی بی آخری تجزیے میں نیشنلسٹ لیڈر ثابت ہوئیں۔ ایسا ہی کردار پاکستانی تاریخ کے نہایت متنازع کردار جنرل پرویز مشرف کا رہا۔ جنرل مشرف پاکستانی تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹروں میں سے ہیں، مگر جو کریڈٹ ان کا ہے، وہ انہیں ملے گا۔ انہوں نے نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، اس حوالے سے وہ اچھی بارگینگ نہ کر سکے، پاکستان کو بعد میں جتنا نقصان اٹھانا پڑا، اتنا وہ امریکہ سے لے نہیں سکا، حالانکہ اس وقت ایسا ممکن تھا۔ مشرف نے جہادی تنظیموں کے حوالے سے یوٹرن بھی بھونڈے طریقے سے لیا، اس کا ردعمل شدید نکلا۔ لال مسجد آپریشن اور بلوچستان میں نواب بگٹی کو نشانہ بنانے مشرف کے بلنڈرز تھے۔ اس کے باوجود پرویز مشرف کا یہ کریڈٹ ہے کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات اورامریکی محکمہ دفاع کے بے پناہ دبائو کے باوجود افغان طالبان قیادت اور خاص طور سے مولانا سراج حقانی کے حقانی نیٹ ورک کو محفوظ رکھا۔ امریکی عسکری قیادت بار بار دبائو ڈالتی رہی، مگر پاکستانی ادارے صرف قومی مفاد کی خاطر افغان طالبان قیادت کو امریکیوں کے شکنجے سے بچاتے رہے۔ یہ ڈبل گیم جنرل مشرف اور ان کے بعد کے حکمرانوں نے جاری رکھی۔ درحقیقت یہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی تھی کہ افغان طالبان کا درپردہ ساتھ دیا جائے اور ان کے خلاف ایک حد سے زیادہ کچھ نہ ہو۔ القاعدہ کے خلاف البتہ آپریشن ہوئے، ان کے لوگ پکڑ پکڑ کر امریکیوں کے حوالے بھی کئے گئے، مگر افغان طالبان کی پچانوے ستانوے فیصد سے زیادہ قیادت محفوظ رہی۔ نائن الیون کے فوری بعد ملا ضعیف کی حوالگی کے بعد دوسرا کوئی نمایاں طالبان لیڈر امریکیوں کو نہیں دیا گیا۔
پاکستان کی افغان پالیسی کا ہمارے بہت سے دانشور، لبرل، سیکولر حلقے مذاق اڑاتے تھے، تنقید کے تیر چلاتے رہے۔ بے شمار آرٹیکل ہمارے ہاں شائع ہوئے، خاص کر انگریزی پریس کا تو یہ متفقہ مطالبہ تھا کہ حقانی نیٹ ورک سے جان چھڑائی جائے، انہیں امریکیوں کے حوالے کیا جائے۔ ان تمام لوگوں کو چند روز قبل موقر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج حقانی کا طویل آرٹیکل پڑھ کر یقینا سکتہ ہوگیا ہوگا۔ پاکستانی منصوبہ سازوں نے جس مہارت اور سلیقے سے بھارت کو افغان منظرنامے سے باہر نکالا، اس کا اندازہ بھی بھارتی پریس میں شائع ہونے والے تجزیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ بھارتی تلملا رہے ہیں کہ ہم نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور کئی برسوں تک شمالی اتحاد کے لیڈروں اور کرزئی، اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ وغیر کے ساتھ قریبی تعلقات رکھے، مگر جب فائنل رائونڈ آیا تو سب سے پہلے بھارت ہی کودودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا گیا۔ یہ پاکستان کی بڑی سٹریٹجک کامیابی ہے۔
طالبان امریکہ معاہدہ ہونے کو ہے۔ معاملہ چونکہ حساس ہے، اس لئے جب تک سب کچھ فائنل نہ ہوجائے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ یہ مگر واضح ہوچکا کہ پاکستانی ریاست نے نائن الیون کے بعد افغانستان کے حوالے سے جو پالیسی اپنائی وہ درست تھی۔ پاکستانی ریاست اور اداروں پر ہر وقت زہریلے تیر برسانے والے اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کو مان لیں تو ان کی دانش میں کمی ہرگز نہیں آئے گی۔