میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو کم از کم ایک کریڈٹ تو دینا پڑے گا کہ یہ پروپیگنڈہ وار کے ماسٹر ہیں۔ اپنے حوالے سے سنہری دھند میں لپٹا ایسا امیج بناتے ہیں کہ لوگ دم بخود، حیرت زدہ آنکھیں کھولے تکتے رہ جاتے ہیں۔ سیاسی مخالفوں کے بارے میں ایسی ہنرمندی اور مہارت سے سیاہی آمیز پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ بے چارے بعد میں خواہ جتنا شور مچائیں، ان کی ایک نہ سنی جائے اور عوامی حلقوں میں ان کا مسخ شدہ مخصوص تاثر قائم ہوجائے۔ نوے کے عشرے میں مسلم لیگ نے یہ کام پیپلزپارٹی کے ساتھ کیا اور ماننا پڑے گا کہ حیران کن مہارت اور چالاکی کے ساتھ یہ کام سرانجام پایا۔
پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں کئی ایسی باتیں پھیلائی گئیں، اس تواتر اور طریقے کے ساتھ مختلف اخبارات میں خبریں، مضامین اور کالم وغیرہ لگوائے گئے کہ عوام میں بی بی کے حوالے سے کئی بے بنیاد باتیں مشہور ہوگئیں۔ ان میں سے ایک "آذان بج رہا ہے"کا جملہ بھی شامل ہے، اس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کو بنیادی دینی باتوں کا علم نہیں اور وہ آذان کو بھی گانے کی طرح سمجھتی ہیں۔ مسلم لیگ کے میڈیا سیل میں اس زمانے کے کئی معروف رائٹسٹ اخبارنویس، لکھاری شامل تھے، حسین حقانی بھی اپنی تمام تر شاطرانہ چالوں کے ساتھ اس مخصوص سیاسی انجینئرنگ میں جتے رہے۔ آصف زرداری نے مسٹر ٹین پرسینٹ کا "ٹائٹل"تو خیر اپنی" صلاحیتوں " کی وجہ سے حاصل کیا، مگر ان کے گھوڑوں کو مربہ جات اور دیگر ڈرائی فروٹس وغیرہ کھلانے کی خبریں بھی مسلم لیگی میڈیا سیل میں تشکیل پاتی رہیں۔
رائٹ ونگ کے معروف جرائد نے بھی اس میں بھرپور حصہ ڈالا۔ محمد صلاح الدین مرحوم نیک نام اور دلیر صحافی تھے۔ ، کراچی میں ایم کیوایم کی فسطائیت کے خلاف وہ بڑی جرات سے کھڑے رہے، اس کی قیمت اپنا لہو دے کر ادا کی۔ صلاح الدین صاحب کا ہفت روزہ جریدہ مگر بے بنیاد پروپیگنڈہ سٹوریز شائع کرنے میں بہت آگے تک گیا۔ پچھلے چند برسوں سے مسلم لیگی میڈیا اور سوشل میڈیا سیلز کا اصل ہدف عمران خان اور تحریک انصاف ہے۔ نوے کے عشرے میں مسلم لیگی پروپیگنڈے کی کامیابی کی بڑی وجہ پیپلزپارٹی کی جانب سے مناسب طریقے سے کائونٹر نہ کرنا تھا۔ اپنے کمزور میڈیا سیل اور برائے نام پی آر کی وجہ سے پیپلزپارٹی ہمیشہ مین سٹریم میڈیا سے شاکی رہی۔
یہ "سعادت"جناب زرداری کو حاصل ہوئی، جب انہوں نے اپنے معتمد ساتھی ڈاکٹر سومرو کی مدد سے مین سٹریم میڈیا میں نقب لگائی اور بڑے بڑوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ تحریک انصاف نے بھی شروع کے کئی برس تو اپنے میڈیا سیل پر توجہ ہی نہیں دی۔ سوشل میڈیا پر کمی انصافین نوجوانوں نے پوری کر دی۔ یہ لوگ رضاکارانہ جوش وخروش سے دن رات ن لیگ، جماعت اسلامی، جے یوآئی ف اور اے این پی وغیرہ کے ساتھ نبردآزما رہتے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا میں بھی عمران خان کو رضاکارانہ حمایت کئی اطراف سے میسر ہے، ورنہ ان کی پارٹی اس حوالے سے اس قدر کمزور رہی کہ خیبر پختون خوا میں انہوں نے جو کچھ کام کیا، وہ اسے بھی درست طریقے سے مارکیٹ نہ کر اسکی۔ اب فواد چودھری وغیرہ کی آمد سے تحریک انصاف کا موقف خاصے زوردار طریقے سے سامنے آ جاتا ہے، اگرچہ اس میں تندی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔
میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے زیرسرپرستی میڈیا سیلز کا تمام تر زور آج کل یہ ثابت کرنا ہے کہ میاں صاحب جمہوریت اور سول بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔"ووٹ کو عزت دو"کا خوبصورت فقرہ لگتا ہے ن لیگی میڈیا سیل میں تخلیق ہوا، جسے میاں صاحب آج کل اپنی ہر تقریر میں دہراتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ انہوں نے ووٹ، ووٹر، منتخب نمائندوں اور پارلیمنٹ کو کتنی عزت دے رکھی تھی؟ جب وزیراعظم سال بھر پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک نہ ہو، منتخب نمائندے چار چار سال تک اس سے ہاتھ ملانے تک کو ترس جائیں، وفاقی کابینہ کی میٹنگ بھی کئی کئی ماہ نہ بلائی جائے تو ایسا کرنے والے کے دل میں ووٹ، جمہوریت اور سیاسی عمل کے لئے کتنی عزت ہوگی؟ میاں صاحب نے تازہ اصطلاح "خلائی مخلوق" کی استعمال کی۔ میاں نواز شریف مطالعہ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہر آرمی چیف کی طرح کتابوں سے بھی میاں صاحب کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ اور خراب رہے ہیں، لگتا ہے اخبار پڑھنے سے بھی شغف نہیں، ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ جواصطلاح وہ استعمال کرنا چاہ رہے ہیں، اس سے ان کا مفہوم الٹ ہوجائے گا۔ خلائی مخلوق تو وجود ہی نہیں رکھتی۔ یہ تو صرف سائنس فکشن ناولوں، فلموں تک محدود ہے۔
سائنس دانوں کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ خلائی مخلوق یا خلائی جہاز دیکھنے کے جتنے واقعات رپورٹ ہوئے، وہ سب غلط تھے اور آج تک خلائی مخلوق کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس لحاظ سے خلائی مخلوق کی اصطلاح استعمال کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ ایسی مخلوق جس کے دیکھے جانے، سرگرم ہونے کے بارے میں باتیں تو کی جاتی ہیں، مگر ان کی کوئی حقیقت نہیں اور ایسی ہر بات فسانہ اور جھوٹ ہے۔ ظاہر ہے میاں نواز شریف یہ نہیں کہنا چاہتے، ان کا اشارہ نادیدہ قوتوں کی طرف ہے جو بسا اوقات پردے کے پیچھے رہ کر اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ اس اعتبار سے میاں صاحب کو خلائی مخلوق کے بجائے نادیدہ مخلوق یا نادیدہ قوتوں کی بات کرنی چاہیے تھی۔
میاں نواز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہر الیکشن سے پہلے مختلف اداروں میں اپنے اثرورسوخ استعمال کر کے وہاں سے طاقتور امیدواروں کی غیر رسمی فہرستیں بنواتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مئی 2013ء کے انتخابات سے پہلے بھی انہوں نے مختلف محکموں، اداروں سے ایسی فہرستیں بنائیں اور ان کے مطابق پارٹی ٹکٹ دئیے گئے۔ کئی ایسے الیکٹ ایبلز سے اس لئے رابطہ کیا گیا کہ ان فہرستوں کے مطابق وہ اپنے حلقوں میں جیت رہے تھے۔ سکندر بوسن اور بعض دیگر امیدواروں کومبینہ طور پر پی ٹی آئی سے اس لئے خود رابطہ کر کے توڑا گیا اور ان کی مرضی کے مطابق ٹکٹ دئیے گئے۔ یہ وہ بات ہے جس میں تحریک انصاف بڑی کمزور رہی۔ مئی تیرہ کے انتخابات میں تحریک انصاف کے تیس چالیس فیصد ٹکٹ غلط دئیے گئے تھے۔ عمران خان نے ٹکٹ دینے کا معاملہ اپنے ہاتھ میں رکھنے کے بجائے مقامی پارلیمانی بورڈز کے حوالے کر دیا۔
یہ طرز سیاست برطانوی جمہوریت میں تو چل سکتی ہے، پاکستان جیسے ممالک میں نہیں، جہاں لوگ سیاسی مخالفت پر تمام تراصول بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ تقریباً یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کا اس طرح ٹکٹ دینے کا طریقہ ناکام رہا، بہت سی ٹکٹیں فروخت بھی ہوئیں، کئی رہنمائوں پر الزامات بھی عائد ہوئے، ذاتی پسند، ناپسند اور اقربا پروری بھی کارفرما رہی۔ اس بار تحریک انصاف نے ماضی سے سبق سیکھ کر اپنی غلطیاں نہ دہرانے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ عمران خان نے اس لئے اس بار ٹکٹ دینے کا معاملہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے، ویٹو کی طاقت وہ کھل کر استعمال کریں گے۔ مختلف زون کے لئے اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کی ذمہ داری عمران خان نے لگا رکھی ہے کہ وہ امیدواروں کے پوٹینشل کا اندازہ لگائیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں تحریک انصاف نے اپنے تجربے اورمختلف ضمنی انتخابات میں ناکامیوں کے بعد سیکھا ہے۔
میاں نواز شریف شائد یہ سوچ رہے ہیں کہ ان معاملات میں تحریک انصاف جیسی "بھولی بھالی"پارٹی اور عمران خان جیسا" ناتجربہ کار" سیاستدان اس بار اتنا سیانا کیسے ہوگیا؟ انہیں خدشہ ہے کہ ان ہوشیاریوں اور سمجھداری کے پیچھے نادیدہ قوتیں تو موجود نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی مثال ایک ایسے اداکار کی ہے، جسے سٹیج کے پردے کے پیچھے ایک تجربہ کار "ڈائریکٹر "کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہدایات ملتی رہیں، بھرپور تکنیکی مدد دسیتاب ہو تو یہ کمال کر دکھاتے ہیں۔ 2002ء میں ایسا نہیں ہوا تو درجن بھر نشستیں بمشکل مل پائیں۔ ہرجگہ انتہائی مایوس کن نتائج ملے۔ اس بار بھی صورتحال ویسی ہے۔ جو ادارے ان کو مدد پہنچاتے تھے، اب ان کی ہمدردیاں ساتھ نہیں رہیں۔ ن لیگ اور نواز شریف صاحب کے لئے یہی اصل پریشانی ہے۔ میاں شہباز شریف اور چودھری نثارعلی خان کا اضطراب بے معنی نہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ایسی مدد نہ ملی تو ن لیگ کی کارکردگی کیا ہوگی؟
اسی لئے وہ خفیہ ملاقاتوں، بیک چینل ڈپلومیسی پر زور دیتے آ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ن لیگ نے ہر طریقے سے سیاسی سسٹم کو اپنے فائدے میں توڑ مروڑ کر استعمال کیا۔ میاں صاحب تین بار وزیراعظم ایسے نہیں بنے۔ یہ سب حربے استعمال ہوئے، تب ہی اپنے سیاسی حریفوں کو وہ چت کر پائے۔ اس بار مگر صورتحال مختلف ہے۔ ایک تو ان کے ترکش میں تیر زیادہ نہیں، زیادہ تر گھسے پٹے پرانے حربے ہیں، جوزیادہ کارآمد نہیں رہے۔ دوسرا ان کے حریف بھی اب زیادہ ہوشیار، سمجھدار اور کاریگر ہوگئے ہیں۔ سمارٹ طریقے سے کھیلتے ہوئے وہ ن لیگ کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ ن لیگ کو چاہیے کہ وہ اپنے توشہ خانے سے کوئی نئی، کام کی چیز نکالے۔ پرانے الزامات، سطحی جذباتی نعرے اور مظلومیت آمیز بیانیہ اس بار جادو نہیں دکھا سکتا۔ میاں صاحب کو جتنا جلد یہ بات سمجھ آجائے، اتنا ان کے فائدے میں ہے۔