Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Asif Zardari Aor Imran Khan Ne Kya Sikhaya?

Asif Zardari Aor Imran Khan Ne Kya Sikhaya?

ایک مشہور فارسی شاعر( غالباانوری)نے کہا تھا کہ آسمان سے جو بھی مصیبت نازل ہوتی ہے، نیچے آ کر پہلے یہ پوچھتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے، تاکہ وہاں کا رخ کیا جائے۔ الحمدللہ ہمارے ساتھ مصیبت والا معاملہ تو نہیں، مگر بہرحال حالات حاضرہ کا ہمارے کالم کے ساتھ ایک خاص قسم کا سمبندھ ضرور ہے۔ جب ہم کوشش کرتے ہیں کہ کسی بڑے، پھیلے ہوئے ایشو پر لکھیں اورایک کالم میں بات سمٹ نہ سکے تو دوسرے کالم میں اس پر لکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ اکثر اس کے فوری بعد حالات کچھ یوں کروٹ بدلتے ہیں کہ پچھلا ایشو غائب ہی ہوجاتا ہے۔ نئے بحرا ن پر مجبوراً لکھنا پڑتا ہے۔ یہ بات اتنی بار ہوچکی ہے کہ اب تو یہ فقرہ یاردوست ہمیں چڑانے کے لئے استعمال کرتے ہیں کہ باقی بات اگلی نشست یا اگلے کالم میں ہوگی۔ اس بار آسیہ کیس کے فیصلے اور اس پر تحریک لبیک کے پرزور بلکہ پر شور احتجاج نے کسی اور طرف توجہ جانے ہی نہیں دی۔ خیر ہم نے اپنے فولادی عزم کو دوبارہ سے جگایا اور سوچا کہ یہ معاملہ نمٹا ہی دیں۔ بات مختلف سیاسی جماعتوں کے رویوں اور ان سے سیکھے جانے والے سبق سے شروع ہوئی تھی۔ پچھلے کالم میں مسلم لیگ ن، ایم ایم اے کی دینی جماعتوں اور قوم پرستوں کا ذکر آ گیاتھا۔ آصف زرداری صاحب اورعمران خان کی طرز سیاست پر بات نہیں ہوسکی تھی، آج اسی کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست اور صحافت کے ایک طالب علم کے طور پر زرداری صاحب کی حکومت (2008-13ئ)سے پہلے ہمارا یہ خیال تھا کہ سول سوسائٹی خاصی موثر ثابت ہوسکتی ہے، خاص کر جب اسے میڈیا کی حمایت حاصل ہوجائے۔ پرویز مشرف کے خلاف وکلاء کی تحریک اس کی بڑی مثال تھی۔ وکیلوں کے ساتھ سول سوسائٹی کے مختلف طبقات نے مل کر بھرپور جدوجہد کی، میڈیا نے ڈٹ کر ان کا ساتھ دیا اور بحالی عدلیہ کی تحریک کو زندہ رکھا۔ پرویز مشرف کو کمزور کرنے اور پیپلزپارٹی سے این آر او کرنے پر اسی تحریک نے مجبور کیا۔ بعد میں مسلم لیگ ن نے کھل کر اپنا وزن تحریک کے پلڑے میں ڈالا اور آخر کار پرویز مشرف کی رخصت ہونے کے کئی ماہ بعد زرداری صاحب کو عدلیہ کی بحالی پر مجبور ہونا پڑا۔ زرداری صاحب کی پسپائی کا یہ آخری موقعہ تھا۔ اپنے دور حکومت میں اس کے بعد وہ سول سوسائٹی، میڈیا، فعال طبقات اور عدلیہ …غرض ہر ایک سے بے نیاز ہوگئے۔ ان کی حکومت کے حوالے سے کرپشن کے بے پناہ سکینڈل آئے، بعض ایسے کہ ملک ہل کر رہ گیا، مگرایوان صدر میں بیٹھے آصف زرداری کی کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سٹیل ملز سمیت قومی ادارے ایک ایک کر کے تباہ ہوگئے۔ میڈیا چیختا رہا، زرداری صاحب سب کو اپنی مخصوص طنزیہ، سفاک مسکراہٹ دکھاتے رہے۔ انہوں نے قوم کو، ہمیں، سب کو بتایا کہ اگر حکمران اپنے اوپر بے حسی اور بے نیازی کی موٹی چادر اوڑھ لے، تب اسے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ خواہ کس قدر بدنامی ہو، پارٹی کارکن دلبرداشتہ ہوں، ووٹر برہم ہوجائیں، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ زرداری صاحب ہی نے ہمارے جیسے بھولے لوگوں کو یہ بتایا کہ اگر حکومت ڈھٹائی پر اتر آئے تو سپریم کورٹ بھی اپنی تمام تر قوت کے باوجود ایک حد سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی۔ مختلف حیلے بہانوں سے اس کے احکامات ٹالے جا سکتے ہیں۔ زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کے گٹھ جوڑ سے ہی ہم نے فرینڈلی اپوزیشن کی اصطلاح کو سنا، سمجھا۔ اس سے پہلے ہم سمجھتے تھے کہ اہم تقرریوں جیسے چیف الیکشن کمشنر، چیئرمین نیب وغیرہ کو قائدحزب اختلاف کی منظوری سے مشروط ہونا چاہیے۔ خاکسار نے اور بہت سے لکھنے والوں کے ساتھ اس موضوع پر کئی کالم لکھے۔ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی ایسا ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن لیڈر مک مکا سیاست کے تحت آپس میں سمجھوتا کر لیں گے۔ ایسا مگر ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ قمرالزماں چودھری جیسا شخص چیئرمین نیب بنتے دیکھاجس پر خود نیب کی انکوائریاں چل رہی تھیں۔ نجم سیٹھی جیسے متنازع لوگ نگران وزیراعلیٰ بنتے دیکھے۔ جناب آصف زرداری ہی سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ مال کی ہوس بے انتہا ہے، اس کا کوئی انت، اختتام نہیں۔ عام انتخابات میں بدترین شکست کے بعد خیال تھا کہ پیپلزپارٹی کے پاس ایک صوبہ بچا ہے، وہاں ہی ڈھنگ کی حکومت کریں گے۔ اگلے پانچ برسوں میں ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ سب خواب چکنا چور ہوتے دیکھے۔ کرپشن کی ایسی ایسی ہولناک کہانیاں سامنے آئیں کہ ہر کوئی دنگ رہ گیا۔ نوٹوں کی بوریوں سے بھری لانچیں، اربوں کی چائنا کٹنگ، ایمبولینس کرایے پر چلانے جیسے فراڈ، ایماندار آئی جی پولیس کو عدالت کی تمام تر سپورٹ کے باوجود نہ چلنے دینا، تھر میں معصوم بچوں کی اموات پر سفاک ترین بے حسی… یہ سب ہم نے دیکھا۔ ان تمام کاموں کے بعد جس حیران کن معصومیت اور سادگی سے جناب زرداری خطاب کرتے، اپنی ایمانداری اور مظلومیت کے قصے سناتے ہیں، اس پر تو انہیں ڈبل آسکر ایوارڈ ملنا چاہیے۔ آج کل ان کی باتیں سنی جائیں تو "یقین "سا ہونے لگتا ہے کہ یہ ریڑھی والوں، فالودہ بیچنے والے، رکشہ چلانے والوں کے اکائونٹس استعمال کر کے اربوں کی منی لانڈرنگ کی وارداتیں سب جھوٹ ہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا اور یہ صرف میڈیا ٹرائل ہے۔ جناب زرداری کے حوالے سے بہت کچھ مزید بھی لکھا جا سکتا ہے، مگر پھر کالم کی گنجائش ختم ہوجائے گی اور میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ ایک اور نشست کی منحوس خبر قارئین کوسناناپڑے۔ عمران خان کی جانب آتے ہیں۔ وہ ایک پاپولر لیڈر ہیں، پاپولر سیاست کرتے رہے۔ پولیٹیکل سائنس میں پاپولزم(populism)ایک مکمل اصطلاح ہے، ایسی سیاست جس میں عوام کو مختلف طریقوں سے اپنی طرف راغب کیا جائے۔ اس کے مثبت، منفی دونوں طرح کے مضمرات ہیں۔ سب سے نقصان دہ بات یہ ہے کہ لیڈر عام آدمی کو ایک سادہ، جذباتی نعرے دے کر اپنے ساتھ لگاتا ہے، موٹی موٹی چند ایسی باتیں جن کی تفصیلات اور جزئیات دانستہ اوجھل رکھی جاتی ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ، لوٹی دولت کی واپسی، تارکین وطن کے بجائے مقامی لوگوں کے لئے ملازمتیں، ٹیکس کی شرح نیچے لانا، صحت کی مفت سہولتیں، یوٹیلیٹی بلز میں کمی، ظالموں کا احتساب وغیرہ وغیرہ۔ لوگ ان نعروں سے متاثر ہو کر اس طرف لپکتے ہیں۔ اقتدار سونپے جانے کے بعدان پاپولر سیاستدانوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ زمینی حقائق کس قدر مختلف ہیں۔ مثال کے طور پرٹیکس کم نہیں ہوسکتے کہ ریونیو کم ہوجائے گا، بجلی اور دیگر یوٹیلٹی بلز میں کمی اس لئے نہیں آ سکتی کہ حکومت کو اس کے لئے سب سڈی دینا پڑے گی اور خزانہ خالی ہے۔ اسی طرح لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا تصور بڑا دل خوش کن اور انقلابی ہے، مگر اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔ سوئس بینکوں سے سرمایہ واپس لانا جتنا آسان لگتا ہے، ویسا ہے نہیں۔ سو طرح کی شرطیں، قدغنیں ہیں۔ ایسا نہ ہوتو سوئس بینک سرے سے خالی ہوجائیں۔ وہاں چھپانے کی غرض سے ہی سرمایہ محفوظ کیا جاتا ہے۔ جب یہ آپشن نہیں رہے گی تو کسی کا دماغ خراب ہے کہ پیسے وہاں رکھے؟ جب پیسے وہاں نہیں رکھے جائیں گے تو سوئس بینک بند ہوجائیں گے اور ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوگا۔ اپنا نقصان کون کراتا ہے؟ کرپٹ لوگوں کا احتساب بھی ایک خوبصورت نعرہ ہے۔ مسئلہ پھر وہی ہے کہ کرپشن کرنے والے خاصا سرمایہ اسے محفوظ بنانے پر لگاتے ہیں۔ بڑے بڑے ماہرین کی خدمات لی جاتی ہیں جو بلیک منی وائٹ کردیتے ہیں۔ جب ثبوت نہ ہوں تو سزائیں دلوانا ممکن نہیں رہتا۔ یہ سب باتیں ہمارے ذہن میں تھیں، اندازہ تھا کہ دو سو ارب ڈالر واپس لانے کا دعویٰ بچکانہ ہے۔ دیگر نعروں کے بارے میں یہی گمان تھا کہ مبالغہ آمیزی اور ضرورت سے زیادہ سادہ لوحی پر مبنی ہیں۔ اوورسیز پاکستانی کیوں ڈالروں کی بارش کر دیں گے، ٹیکس ریونیو کس طرح اچانک ڈبل ہوجائے گااور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا کون سا ماڈل آزمایا جائے گا؟ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے ابتدائی دو ڈھائی ماہ ہی نے بتا دیا کہ پاپولزم کے کیا منفی مضمرات ہیں۔ یہ خیال بھی ذہن میں تھا کہ ہمارے سسٹم میں سروائیو کرنے کے لئے خان کو بھی کمپرومائز کرنے پڑیں گے، اچھے کی جگہ اوسط اور کہیں اس سے کم تر آدمی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اتنے کمزور وزرااعلیٰ کا انتخاب ہوگا، عون چودھری اور زلفی بخاری جیسے نجی دوستوں میں بھی منصب بانٹے جائیں گے۔ خیر یہ عملی سیاست ہے۔ یہ تو پتہ چل رہا ہے کہ عمران خان اپنے وعدوں کے مطابق کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ ان کے پاس اس کے لئے مطلوبہ اہلیت رکھنے والی ٹیم ہی نہیں۔ تجربہ کار لوگوں نے دوسری پارٹیوں میں جگہ بنا رکھی ہے، خان صاحب کو جومال، مسالہ دستیاب ہوا، اسی کے ساتھ عمارت بنا رہے ہیں۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ وہ اپنی کوششیں کس حد تک اور کتنے وقت تک جاری رکھتے ہیں؟ یہ اہم سوال ہے، اگر وہ جلدی ہمت ہار بیٹھتے ہیں تب نتائج صفر ہوں گے، لگے رہے تو کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ تبدیلی اگر چند فی صد آ جائے، تب بھی غنیمت ہے۔ بعض اوقات تو مزید بگاڑ نہ ہونے کو بھی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان کی سیاست سے میرے جیسے اخبارنویسوں نے جو سیکھا، وہ بہرحال نعمت سے کم نہیں۔