اس سال ارادہ تھا کہ عورت مارچ پر لکھنے سے گریز کروں گا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی ایک مخصوص قسم کی ایکٹوٹی ہے اور چند ایک تنظیمیں ایسی ہیں جن کے کام یا فنڈنگ وغیرہ کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ سال بھر میں ایک آدھ ایسا ایونٹ منعقد کریں جس کی تصاویر اور ویڈیوز ڈونر اداروں کو بھیجی جا سکیں۔ سچی بات ہے کہ شائد سیاسی گہماگہمی میں یہ دن گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جہاں ہر ایکٹوٹی اور سرگرمی یکا یک زیربحث آنے لگتی ہے۔ آٹھ مارچ سے ایک آدھ دن پہلے سے درجنوں بلاگز، پوسٹیں، سٹیٹس نظر سے گزرے۔ سوشل میڈیا پر فعال شخص کسی ایشو کو نظرانداز کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ یار دوست اتنی جگہ پر مینشن کر دیتے ہیں، ٹیگ پوسٹیں، رہی سہی کسر احباب واٹس ایپ اور فیس بک مسینجر پر لنک بھیج کر پوری کر دیتے ہیں۔ یوں ہمیں بھی ادھر متوجہ ہونا ہی پڑا۔
آٹھ مارچ اور ویمن ڈے کے حوالے سے نیٹ پر تھوڑی سی تحقیق کی تو ایک دلچسپ انکشاف ہوا کہ سب سے پہلے سوشلسٹوں نے یہ آئیڈیا متعارف کرایا تھا۔ اٹھائیس فروری 1909کو سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے نیویارک میں ویمن ڈے منایا، اس میں جرمنی اور بعض دیگر ممالک سے سوشلسٹ خواتین کے وفود نے شرکت کی۔ فیصلہ ہوا کہ ہر سال ایک دن انٹرنیشنل ویمن ڈے کے طور پر منانا چاہیے۔ بعد میں سوویت انقلاب کے بعد وہاں آٹھ مارچ کو خواتین ڈے منایا جا نے لگا اور اس دن قومی تعطیل ہوتی۔ بہت بعد میں، 1967 کے قریب فیمنسٹ تحریک نے ویمن ڈے کو اپنا لیا اور پھر اس پر اپنا ایجنڈانافذ کر دیا۔ 1977ء سے اقوام متحدہ آٹھ مارچ کو انٹرنیشنل ویمن ڈے کے طور پر منا رہی ہے۔
ہمارے ہاں پچھلے چند برسوں میں اس کا رواج ہوا۔ بدقسمتی سے یہ نہ صرف فیمنسٹوں بلکہ الٹرا الٹرالبرلز کے ہتھے چڑھ گیا۔ انہوں نے پاکستانی سماج سے متعلق اپنا تمام زہر اس میں انڈیل دیا۔ دوسال پہلے عورت مارچ میں کچھ ایسے سنسنی خیز، چونکا دینے والے جملوں کے پوسٹر اور پلے کارڈ سامنے آئے کہ ہر کوئی دنگ رہ گیا۔ اس مارچ پر سخت تنقید ہوئی۔ عورت مارچ کومگر ایک فائدہ ہوا کہ میڈیا اس جانب متوجہ ہوا۔ ہمارے جیسے ملکوں کا میڈیا ہر سنسنی خیر اور متنازع ایشوز کی طرف لپکتا ہے۔ جس پر دھواں دھار بحث ہو اور جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ سکے، میڈیا کے لئے وہ جادوئی تحفہ ہے۔ سوشل میڈیا کا بھی کم وبیش یہی حال ہے۔ وہاں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو باقاعدہ صحافی نہیں، ان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کہیں پر لکھ سکیں، سوشل میڈیا خاص کر فیس بک ایسا فورم ہے جہاں وہ کھل کر اپنی رائے بیان کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر بھی متنازع اور گرما گرم موضوعات پر فوری بحث شروع ہوجاتی ہے۔ یہ اچھی چیز ہے اور بری بھی۔ بحث مباحثوں سے ایشو نمایاں ہوجاتا ہے، مگر بہت بار مختلف حلقے انتہائی آرا بنا لیتے ہیں اور پھر اڑے رہتے ہیں۔
عورت مارچ کا بھی یہی حال ہوا ہے۔ بنیادی طور پر اس کا آئیڈیا برا نہیں۔ یہ درست کہ صرف ایک دن کے بجائے ایسے اہم موضوع پر سال بھر بات ہونی چاہیے، مگر ایک دن مختص کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس سے اپنی توانائی اس دن صرف کرنے کی ترغیب اور ایکٹوسٹ حضرات کو ٹارگٹ مل جاتا ہے کہ اس سے پہلے پہلے فلاں فلاں چیزیں لکھ لی جائیں، ویڈیوز بن جائیں، مزید کچھ ہوجائے۔
عورت مارچ کے تصور میں خرابی نہیں، مگر ہمارے ہاں جس طرح سے اس کا انعقاد ہو رہا ہے، اس حوالے سے تحفظات ہیں۔ یہ مارچ ہمارے الٹرالبرل، الٹرا سیکولر حلقے اور الٹرا فیمنسٹوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ انہوں نے اس پر اپنا ایجنڈا پوری قوت سے نافذ کر دیا ہے۔ ایک مخصوص زاویہ نظر سے چیزوں کو دیکھنے کے سوا وہ کچھ نیا، مفید نہیں کر پا رہیں۔ دوسرا ان این جی او ز والی بیبیوں کو عام پاکستانی عورت کے مسائل سے آگہی نہیں۔ انہیں کٹھن حالات سے گزرنا ہی نہیں پڑا۔ میں یہ قطعاً نہیں کہہ رہا کہ اس مارچ میں سب ایسی ہی خواتین شامل ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے ایسا نہیں، ہمارے معروف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی اپر مڈل کلاس کی بچیاں بھی اس جانب متوجہ ہوئی ہیں۔ اپنے معصوم انداز میں وہ پورے اخلاص اور دردمندی کے ساتھ خواتین کے مسائل اٹھانا چاہتی ہیں۔ چند ایک اہم باتیں انہوں نے اٹھائیں جیسے ریپ مسائل۔ مسئلہ ان کا بھی یہی ہے کہ کبھی زندگی میں ویگن پر سفر نہیں کیا، بسوں کے دھکے نہیں کھائے۔ چار پانچ ہزار ماہانہ کے عوض کسی نجی سکول میں اٹھ دس گھنٹے نوکری کی خواری برداشت نہیں کی۔ احساس پروگرام کی قلیل رقم لینے کے لئے لمبی قطار میں نہیں لگیں۔ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ گھر میں کھانے کے پیسے نہ ہوں اور بچوں، بچیوں کی سکول، کالج کی فیس بھرنا پڑے تو کیسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر عورت مارچ کے شرکا کو کبھی زندگی کی کٹھنائیاں سہنا پڑتیں، انہیں آٹے دال کا بھائو علم ہوتا تو ان کے مسائل، سلوگن، نعروں والے پلے کارڈ مختلف ہوتے۔ بہت کچھ ایسا ہوتا جس سے عام عورت کا مستقبل براہ راست منسلک ہے۔
اس سال عورت مارچ کی لاہور، اسلام آباد وغیرہ میں مارچ کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھیں۔ کئی رپورٹر حضرات سے بات ہوئی، جنہوں نے یہ ایشو کور کیا۔ سچی بات ہے ایک بار پھر مایوسی ہوئی۔ وہی مخصوص برگر کلاس، وہی کچی پکی باتیں کرنے والی بچیاں جن کی گفتگو سے دودھ کی خوشبو آئے۔ صاف لگ رہا تھا کہ چھائوں ہی چھائوں دیکھی ہے، دھوپ سے کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا۔ بعض نعرے نسبتاً بہتر تھے، مگر کئی نعرے افسوسناک حد تک فضول۔ ایک پلے کارڈ کئی تصویروں میں دیکھا جس میں مشہور بھارتی فلم گینگ آف واسع پور کے اداکار نواز الدین صدیقی کاایک ڈائیلاگ تھا، "ماں کا، نانی کا، دادی کا، سب کا بدلہ لیں گے۔"نواز الدین صدیقی نے اپنے علاقے کے بدعنوان اور سفاک سیاستدان کے خلاف انتقام لیتے ہوئے یہ فقرہ بولا جس نے اس کی ماں، بھابھی اور بھائیوں کو قتل کرایا تھا۔ جن لڑکیوں نے یہ پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، ممکن ہے انہوں نے ازراہ مزاح یہ لکھا ہو، مگر ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ اس بچی کا والد، نانا یا دادا اگر یہ پلے کارڈ دیکھیں گے تو کیا سوچیں گے؟
ایک اور عجیب وغریب پلے کارڈ یہ بھی تھا، "اج ویکھے گا کرائوڈ میرا احتجاج ٹی وی تے۔" ساتھ نصیبو لعل کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ شائد یہ نصیبو لعل کی پی ایس ایل کے لئے گائے گانے کی پیروڈی تھی، مگر کیسی بچکانہ، مضحکہ خیز اور عامیانہ۔ دو بزرگ خواتین نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، " میرا جسم تمہاری مرضی، اب خوش ہو۔" یہ احتجاج تھا کہ میرا جسم میری مرضی کے نعرے پر تنقید کیوں کی جاتی ہے۔ ایک لڑکی نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا اور ساتھ ہی پہلوانوں والے انداز میں بازو لہرا رکھا تھا، کارڈ پر لکھا تھا، " آنکھیں نیچے، عورت آ رہی ہے۔"کاش یہ جملہ سلیقے سے لکھا ہوتا۔ لاہور میں ہونے والے مارچ میں لڑکے زیادہ تھے اور وہ بھی صاف برگر کلاس کے لگ رہے تھے۔ ایک خاصے صحت مند لڑکے نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، بی بی سی کا کیمرہ اس جانب تو نہیں گیا، ساتھ والے لڑکے سے انٹرویو لیا گیا، مگر اس لڑکے کا پلے کارڈ والا ہاتھ کیمرے میں آتا رہا۔ نوجوان نے خاصی چمکدار سرخ رنگ کی نیل پالش لگا رکھی تھی، شائد عورت مارچ کی سرشاری میں وہ ریموورسے پالش مٹانا بھول گیا۔ ایک دو لڑکوں نے مشہور ہم جنس پرست تنظیم (LGBT)کا ملٹی کلر بینر اٹھا رکھا تھا۔ اس پر کچھ نہیں لکھا تھا، مگر اس کے مخصوص رنگ ہی سب سے بڑا پیغام ہیں۔
ہر معقول شخص یہ بات تسلیم کرے گاکہ ہمارے سماج میں خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے بعض قوانین بنے ہیں۔ ان پر عملدرآمد ہونا چاہیے، مزید قانون سازی کی ضرورت بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر سماج کی سوچ کو بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔ ہم سب کو مل کر آگہی مہم چلانی چاہیے، اپنی تحریروں، گفتگو اور وی لاگز وغیرہ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں پر اثرانداز ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے حقیقی مسائل کو نمایاں کرنے کا کام عورت مارچ کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف اپنا ایک دن کا ایونٹ ہی منا سکتے ہیں، کچھ شغل میلہ، شور شرابا، نعرے، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے وغیرہ اور بس?
اس مارچ کے ساتھ جماعت اسلامی کی خواتین کی جانب سے حیا مارچ کا انعقاد بھی ہوا۔ ہر سال باقاعدگی سے یہ مارچ ہوتا ہے۔ میڈیا اسے کوریج دیتا ہے، مگر عورت مارچ جتنی توجہ نہیں مل سکتی۔ حق تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کوبھی اپنے مارچ پر غور کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عورت مارچ کی طرح ادھر بھی خاص انداز میں، ایک خاص حلقہ، اپنے مخصوص باپردہ ملبوسات کے ساتھ، مخصوص سلوگن لئے مارچ کرتا ہے۔ اسی لئے اس کا بھرپور تاثر نہیں جم پاتا۔ یہ البتہ ہے کہ جماعت اسلامی خواتین کے نعرے مہذب، شائستہ اور ہمارے سماج کے فیبرک سے ہم آہنگ ہیں۔ عام عوام سے کٹا ہوا ان کا مارچ بھی بے اثر اور بے نتیجہ ہے۔ یہ دونوں انتہائیں ہیں۔ درمیان کی بہت بڑی جگہ خالی ہے۔ اسے کون پر کرے گا؟