دو دن پہلے اچانک ٹی وی پر خبرچلنے لگی کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھارت سے چینی اور دھاگہ خریدنے کی سفارش کی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی ایک اہم اور اعلیٰ فورم ہے، اس کی سفارشات عام طور سے حکومت مان لیتی ہے۔ حال ہی میں وزیرخزانہ مقرر ہونے والے وفاقی وزیر حماد اظہر نے کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرس میں اس سفارش سے آگاہ کیا۔ حماد اظہر وزیراعظم عمران خان کے پسندیدہ وزرا میں سے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کی اپنی ایک تقریر میں ان کی کارکردگی کو سراہا چکے ہیں۔ حماد اظہر کی پریس کانفرنس کے بعد ہر ایک کواندازہ ہوگیا کہ امریکہ اور عرب ممالک کی جانب سے پاک بھارت تعلقات بحالی کی جو بیک چینل ڈپلومیسی چل رہی تھی، اسی دبائو کے نتیجے میں ایک بڑی قلابازی کھانے کا وقت آ گیا ہے اور پاک بھارت تجارت شروع ہوجائے گی۔
وہ بچے کچھے لوگ جو ابھی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کے لئے کسی نہ کسی سطح پر حسن ظن رکھتے ہیں، وہ سب اس اچانک پیش رفت پر بھونچکا رہ گئے۔ کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ اس فیصلے کی کیا تک اور منطقی جواز ہے؟ پاکستان نے دو سال قبل بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کر دئیے تھے کہ اس نے غیر اخلاقی، غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کر دیا۔ عمران خان ہی تب پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے تند وتیز بیانات دئیے، بھارتی وزیراعظم مودی کو ہٹلر سے تشبیہہ دی اور کہا کہ جب تک بھارت اپنے فیصلے کوریورس نہیں کر لیتا، ہم بھارت سے معمول کے تعلقات بحال نہیں کریں گے۔ اس پر بحث ہوسکتی ہے کہ تب بھارتی اقدام پر تنقید اور احتجاج کیا جاتا، مگر تجارتی معاملات نہ چھیڑے جاتے یا نریندر مودی پر تنقید ہوتی مگر ہٹلر کہنا غلط تھا وغیرہ وغیرہ۔ بات یہ ہے کہ بھارت نے اتنا بڑا دھچکا پہنچایا کہ اس پر جارحانہ عمل فطری تھا۔ ریاست پاکستان نے درست فیصلہ کیا کہ جب تک بھارت اپنی غلطی درست نہیں کرتا، تب تک مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں ہم بھارت سے تجارت اور دیگر معاملات کا بائیکاٹ کریں گے۔
ویسے تو بھارت کے اس فسطائی اقدام کے خلاف دنیا میں جس طرح آواز اٹھانا چاہیے تھی، جیسی جارحانہ سفارت کاری کی ضرورت تھی، وہ پاکستان نہیں کر پایا۔ جو کچھ عمران خان نے کیا، وہ ناکافی تھا۔ انہیں اس حوالے سے آگے بڑھنا چاہیے تھا، وہ نہیں کر پائے۔ ان کے بعض فیصلے عجیب وغریب اور بچکانہ شعور کے حامل تھے۔ جمعہ کے بعد باہر نکل کر احتجا ج کرنا، وزیراعظم ہائوس میں انسانی زنجیر بنانا وغیرہ۔ اس کے بجائے کشمیری خواتین اور مختلف شخصیات کے وفود کو دنیا بھر میں بھیجنا چاہیے تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں پر بھارتی فورسز نے جو مظالم ڈھائے، اس پرپاکستان اہم عالمی زبانوں میں مختصر ڈاکومینٹری فلم یا ویڈیوز تک نہیں بنا پایا۔ یہ کون سا مشکل کام تھا؟ مغربی دنیا سے کئی ایسے ہیومن ایکٹوسٹ فنکار مل جاتے جنہیں صرف بنیادی وسائل فراہم کرنے کی ضرورت تھی۔ وہ فرانسیسی، اطالوی، جرمن، ہسپانوی، سوئس، ڈچ، روسی، عربی اور دیگر زبانوں میں چند منٹ کی ویڈیوز بنا ڈالتے۔ پہلے سے موجودمیڈیا ویڈیوز، کلپس پر غیر ملکی زبانوں میں وائس اوور اور سب ٹائٹلز دینے میں کتنا خرچ آجاتا؟ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اگر اس حوالے سے حکومتی کارکردگی کو دس میں سے نمبر دئیے جائیں تو بمشکل تین یا چار نمبر ملیں گے، رعایتی پاس ہونا مشکل ہو جائے گا۔
چلیں یہ سب کوتاہی، کمی اپنی جگہ، مگر عمران خان نے تقریروں میں کسر نہیں چھوڑی۔ یہ وہ ہنر ہے، جس میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ انہوں نے جو دھواں دھار تقریریں کیں، ان کا نچوڑ یہی نکلتا ہے کہ پاکستان بھارت سے تجارتی مقاطعہ کے اپنے فیصلے پر مضبوطی سے قائم رہے۔ معمول کے سفارتی تعلقات کی بحالی، کنٹرول لائن پر سیز فائر الگ ایشو ہے، اس میں البتہ کوئی حرج نہیں۔ ایسے میں پھر یکایک تجارت شروع کرنے کے فیصلے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
وزیرخزانہ حماد اظہر کے بیان کے بعد پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اتنا شدید عوامی دبائو آیا، سوشل میڈیا پر منفی ٹرینڈ چلے اور تحریک انصاف کے حامیوں میں ایسی خوفناک بددلی پھیلی کہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ فیصلہ اس لئے کہا کہ ای سی سی وزیراعظم سے مشاورت کئے بغیر کبھی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتی تھی۔ واضح طور پر کمیٹی کی سفارش میں حکومتی اشیرباد شامل تھی۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ محض فارمیلٹی ہوتی ہے۔ اس لئے حقیقی صورتحال یہ نہیں کہ کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی سفارش رد کر دی بلکہ اصل میں یہ کہنا ہوگا کہ حکومت نے اپنے فیصلے سے یوٹرن لیا اورچند دن پہلے بننے والے اپنے وزیرخزانہ کو مفت میں شرمندہ کرایا، پنجابی عوامی محاورے کے مطابق بزت کرایا۔
اسے حکومت کا ایک اور یو ٹرن کہنا چاہیے۔ ایسے کئی بڑے یوٹرن لئے جا چکے ہیں۔ بہت سے فیصلے بغیر سوچے سمجھے اور مناسب مشاورت کے سنا دئیے جاتے ہیں، جب دبائو آتا ہے تب کسی نہ کسی بہانے سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ سوال وہی ہے کہ آخر ایسی ناتجربہ کاری اور ناپختگی کب تک؟ عمران خان اور ان کی کابینہ کو ڈھائی سال ہوچکے ہیں، اب انہیں ناتجربہ کاری کی رعایت نہیں مل سکی۔ ابتدائی تین چارماہ تک اس بات کا فائدہ مل سکتا تھا، اب نہیں۔ ڈھائی سال بعد بھی کسی حکومت کو یہ معلوم نہیں کہ بڑے فیصلوں سے پہلے کس طرح ہوم ورک کرنا چاہیے تو پھر وہ ہمیشہ غلطیاں اور بلنڈر ہی کرے گی۔
اب یہی دیکھ لیں کہ گندم کی کاشت سے پہلے ہر سمجھ بوجھ رکھنے والا حکومت کو مشورہ دے رہا تھا کہ گندم کی امدادی قیمت اٹھارہ سو روپے رکھی جائے کہ کاشت کار زیادہ خرچوں کی وجہ سے گندم کے بجائے مکئی کاشت کر رہے ہیں۔ گندم کی فصل کم ہوگی تو پھر کروڑوں ڈالر خرچ کر کے باہر سے منگوانی پڑے گی، وہی پیسے اپنے کسانوں کو دینا عقلمندی ہے۔ یہ بات بار بار وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی سمجھائی گئی، مگر کسی نے پروا نہ کی۔ پنجاب میں امدادی قیمت ساڑھے سولہ سو روپے فی من مقرر کی گئی۔ اس پر کسانوں نے احتجاج کیا۔ مطالبہ ہوا کہ دو ہزار روپے من کرنا ممکن نہیں تو اٹھارہ سو ہی کر دی جائے۔ حکومت نے انکار کر دیا۔ اب جبکہ گندم کی فصل تیار ہوچکی ہے، چند دنوں میں کٹائی شروع ہونے والی ہے تو اچانک ہی امدادی قیمت اٹھارہ سو روپے کر دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ اب اٹھارہ سو روپے من کرنے کا کیا فائدہ کہ یہ اعلان اکتوبر میں کرتے توکسانوں کی زیادہ تعداد گندم کاشت کرتی اور حکومت کو اضافی گندم کی پیداوار مل جاتی۔ جس حکومت کو، جس کے وزیروں اور ماہرین کو اتنی سادہ بات سمجھ نہیں آتی، انہوں نے کیا حکومت چلانی ہے؟
ابتدا میں تو حکومت سے غلطیاں بیوروکریسی نے بھی کرائیں۔ ایک بار یہ اعلان ہوا کہ تیل کی قیمتوں میں پچیس پیسے کی کمی کی جارہی ہے۔ یہ نہایت مضحکہ خیز بات تھی۔ پچیس پیسے کی کمی کا کیا مطلب ہوا؟ سادہ سی بات تھی کہ اگر قیمت کم کرنا ممکن نہیں تو اس مہینے قیمت اسی جگہ رکھی جائے۔ چارآنے کی کمی تونرا مذاق تھا، اس پر حکومت کا خوب تمسخراڑایا گیا۔ اب خیر حکومت اس حوالے سے ہوشیار ہوگئی ہے۔ اب وہ قیمت ایک یا ڈیڑھ روپیہ کم کرتی ہے اور پھر مزے سے اگلے مہینے پانچ سات روپے بڑھا دیتی ہے۔ ایک اور کاریگری بھی دکھائی جاتی ہے کہ اوگرا سے دس روپے یا پندرہ روپے قیمت بڑھانے کی سمری جاری کراد ی جاتی ہے، اس کے بعد وزیراعظم بڑی فیاضی سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ عوام پر اتنا بوجھ نہیں ڈالنا، اس لئے دس کے بجائے صرف پانچ روپے قیمت بڑھائی جائے۔ پھر وزرار زور شور سے جناب وزیراعظم کی نرم دلی اور مہربان طبیعت کے قصیدے پڑھنے لگتے ہیں۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس طرح کی ہوشیاریاں ن لیگی حکومت پہلے ہی بہت بار کر چکی ہے تو عوام سیانے ہوچکے ہیں۔ مہنگائی کی سطح جاننے کے لئے لوگوں کو وزیروں کے بیانات کی ضرورت نہیں۔ ہر وہ شخص جو بازار سے سودا خریدتا ہے، اپنی بائیک، گاڑی میں پٹرول ڈلواتا، بجلی، گیس کے بل بھرتا ہے، اسے اندازہ ہے کہ عمران خان کی حکومت پچھلی تینوں حکومتوں سے زیادہ بے حس، سفاک اور ظالم ہے۔ مشکل فیصلے کرنے کے نام پر وہ عوام کے سروں پرکسی بھی قسم کی قیامت گرانے سے نہیں ہچکچاتی۔ پچھلی حکومتیں بھی نالائق اور ظالم تھیں، مگر انہیں چونکہ علم تھا کہ عوام سے ووٹ لینے ہیں، اس لئے وہ اندھا دھند قیمتیں بڑھانے کے بجائے کوئی متبادل راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے تھے۔ عمران خان ایک لمحہ بھی سوچنا گوارا نہیں کرتے اور فوراً قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے ہی ان کی حکومت کسی الیکشن میں گئی، خواہ وہ بلدیاتی انتخابات ہی کیوں نہ ہوں، اندازہ ہوجائے گا کہ عوام ان" مشکل فیصلوں "کا جواب بھی ویسی بے رحمی اور سفاکی سے دیں گے۔ یقین کی حد تک قطعیت سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر مہنگائی کم نہ ہوئی اور "مشکل فیصلوں "کا بوجھ لوگوں سے نہ ہٹایا گیا تو تحریک انصاف کا اگلے کسی بھی الیکشن میں پنجاب سے صفایا ہوجائے گا۔ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے نام پر جو بھونڈا اور بھدا مذاق کیا گیا، اس کا" ثمر "بھی جنوبی پنجاب کے عوام خوشی خوشی دیں گے۔