پاکستانی سیاسی نظام میں عام انتخابات تو پانچ سال بعد ہوتے ہیں، البتہ کسی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی الیکشن اور پھر بلدیاتی انتخابات سے ووٹر کے رجحانات اور بدلتے سیاسی رنگوں کا کسی حد تک اندازہ ہوجاتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات البتہ تاخیر سے ہوتے ہیں یا پھر ہر نئی سیاسی حکومت آ کر بلدیاتی ادارے عملاً مفلوج کر دیتی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ڈکٹیٹر حضرات نہایت باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات بھی کراتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کچھ اختیارات اور فنڈز بھی انہیں ملیں۔ سیاسی حکومتیں جنہیں سب سے زیادہ توجہ بلدیاتی اداروں پر دینی چاہیے کہ عوام کے ساتھ گراس روٹ لیول پر رابطے کی یہ پہلی سیڑھی ہے، وہ نجانے کیوں ان اداروں سے بیزار رہتی ہیں۔ اس کے منطقی نتیجے میں وہ خود کمزور رہتی ہیں اور کسی سیاسی، غیر سیاسی کشمکش کی صورت میں انہیں نچلی سطح سے بھرپور کمک نہیں مل پاتی۔
ملک میں ایک بار پھر سے بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں ہیں۔ پہلا مرحلہ کنٹونمنٹ اداروں کے الیکشن کی صورت میں مکمل ہوگیا۔ ان الیکشن کے نتائج کو اگلے عام انتخابات کا عکس تو نہیں کہا جا سکتا کہ کنٹونمنٹ کا علاقہ زیادہ وسیع نہیں، ووٹ بھی بہت کم ہے اورچند شہروں تک محدود ہیں، یہاں کا ووٹر بھی عام گلی محلے کے ووٹر سے مختلف ہے۔ یہ نتائج بہرحال مستقبل کی ایک دھندلی سی جھلک تو دکھاتے ہیں۔ سمجھدار جماعتوں اور دوراندیش لیڈروں کے لئے اس میں بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے کو ہے۔ اگر کوئی سمجھنا چاہیے تب۔
پیپلزپارٹی وفاق میں دو ہزار آٹھ سے تیرہ تک پانچ سال حکمران رہی۔ بدترین گورننس، کرپشن کے خوفناک الزامات اور سیاسی نااہلی کے باعث پیپلزپارٹی کی سندھ کے علاوہ باقی صوبوں میں حالت بے حد پتلی تھی۔ اس کا جیالا کارکن فرسٹریٹ ہو کر گھر بیٹھ گیا تھا۔ تحصیل ضلع سطح کے لیڈربددل اور ووٹر عمومی طور پر مایوس ہوچکا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پرانے جیالے گھرانوں کی نئی نسل عمران خان کے سحر کا شکار ہو کر پی ٹی آئی کی طرف جا چکی تھی۔ یہ چیزیں بہت واضح تھیں۔ سیاسی کارکنوں اور اخبارنویسوں کو نقشہ اچھی طرح سے سمجھ آ رہا تھا۔ مسلم لیگ ن نے اس پر ورکنگ کی اور اپنے انداز میں کائونٹر کرنے کی حکمت عملی بنائی۔ نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے مختلف حیلے، حربے اپنائے گئے، شہباز شریف نے طلبہ میں لیپ ٹاپ سکیم شروع کی، اور بھی خاصے پاپڑ بیلے گئے۔ بڑے میاں صاحب نے مختلف خفیہ اداروں سے جائزے، سروے کرائے اور پھر کوشش کر کے چند ایک الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی سے توڑ کر ن لیگ میں شامل کیا گیا۔ ڈی جی خان کے لغاری خاندان اور ملتان سے سکندر بوسن، جہانیاں گردیزی وغیرہ کو ساتھ شامل کیا گیا۔ ان حربوں سے انہیں فائدہ ہوا۔
تب پیپلزپارٹی اپنے غلط مفروضوں اور اندازوں میں مست بیٹھی رہی۔ پارٹی کے سربراہ آصف زرداری جن کا خیال تھا کہ سیاسی چالیں چلنا ان پر ختم ہیں اور ان کی سیاسی مہارت اورعیاریوں پر کتابیں لکھی جانی چاہئیں، وہ سمجھتے تھے کہ پیپلزپارٹی صفایا کر دے گی۔ اپنے قریبی صحافیوں کو انہوں نے بڑے یقین سے یہ فرمایا کہ تحریک انصاف اور ن لیگ آپس میں لڑے گی اور فائدہ پیپلزپارٹی کو ملے گا۔ ان کے پاس دو دلائل تھے، بھٹو ووٹ مستحکم ہے اور وہ کبھی اِدھر اُدھر نہیں ہوگا جبکہ اینٹی بھٹو ووٹ ن لیگ اور تحریک انصاف میں بٹ جائے گا، دوسرا انہیں بے نظیر سپورٹ پروگرام پر بھروسہ تھا کہ پچاس ساٹھ لاکھ لوگوں یعنی گھرانوں کو یہ وظیفہ ملتا ہے، ان کا ووٹ ایک ڈیڈھ کروڑ تو ہوگا ہی، اس میں سے آدھا بھی مل گیا تو بیڑا پار ہوجائے گا۔ انتخابی نتائج نے ثابت کیا کہ بیڑا غرق ہوگیا۔ پنجاب اور کے پی کے ساتھ بلوچستان جہاں پیپلزپارٹی نے پانچ سال صوبائی حکومت چلائی تھی، وہاں سے پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ سندھ میں بھی اس لئے کامیاب ہوپائے کہ وہاں کوئی متبادل سیاسی قوت سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ خیر بات حالیہ کنٹونمنٹ الیکشن نتائج کی ہو رہی تھی۔
پی ٹی آئی کے لئے ان نتائج سے خطرے کی گھنٹی بجی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت مغالطے میں رہنا چاہتی ہے تومجموعی طور پر اکثریت کے لفظ سے خوش ہوجائے، مگر حقیقت تلخ ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے کئی مضبوط علاقوں سے شکست کھائی ہے اور بعض جگہوں پر یہ بدترین شکست ہے۔ پنڈی میں تحریک انصاف نے پچھلے انتخابات میں ایک طرح سے سوئپ کیا تھا، اس بار چکلالہ پنڈی سے انہیں بہت بری شکست ہوئی، واہ کینٹ میں بھی تحریک انصاف کو نقصان ہوا۔ لاہور میں تو خیران کی شکست متوقع تھی، مگر لاہور کینٹ کے علاقے میں پی ٹی آئی کا ووٹ نسبتاً زیادہ ہے۔ اندرون لاہور یا باغبان پوری، اچھرہ وغیرہ کے علاقوں میں زیادہ بری پوزیشن ہے۔ لاہور کینٹ میں ن لیگ نے بڑی اکثریت لی ہے۔ ملتان میں بھی تحریک انصاف کو شکست ہوئی، زیادہ تر آزاد امیدوار جیتے ہیں۔ کہنے کو تو حکومتی وزرا دعوے کر رہے ہیں کہ یہ ان کے لوگ ہیں، اگر یہ دعویٰ سچ ہو تب بھی سوچنا چاہیے کہ ووٹروں نے پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر کے بجائے آزاد امیدوار کو کیوں جتوایا؟ کیا یہ مقامی تنظیم کی ناکامی نہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ کھاریاں کینٹ اور بہاولپور نے تحریک انصاف کا بھرم رکھ لیا، ورنہ پنجاب میں ان کا صفایا ہوجانا تھا۔ کھاریاں میں ان کی کارکردگی غیر معمولی رہی۔ پشاور بھی تحریک کا مضبوط مستقر تھا۔ عام انتخابات میں انہوں نے وہاں سے سوئپ کیا تھا۔ اس بار پشاور میں تحریک انصاف زیادہ اچھا پرفارم نہ کر سکی، نوشہرہ میں بھی اسے نقصان ہوا۔ کے پی نے بہرحال تحریک انصاف کو سہارا دیا ہے، ورنہ پنجاب میں یہ واضح طور پر ن لیگ سے پیچھے رہی۔ کراچی میں البتہ تحریک انصاف کی کارکردگی اچھی رہی۔ سندھ میں مجموعی طور پر ان کی نشستیں زیادہ ہیں، مگر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ جہاں سے تحریک انصاف کو جیتنا چاہیے تھا، وہاں سے ہار گئی۔ کلفٹن سے یہ عام انتخابات میں نشستیں نکالتی رہی ہے اور یہاں پر پارٹی کے اہم لیڈروں کے گھر بھی ہیں۔ ملیر کینٹ اور فیصل بورڈسے البتہ انہوں نے عمدہ کارکردگی دکھائی۔ عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ کسی کمزور اور نااہل کپتان کی قیادت میں کبھی ٹیم نہیں جیت سکتی۔ پنجاب میں کنٹونمنٹ بورڈ کے نتیجے نے مستقبل کی جھلک دکھا دی ہے، بلدیاتی انتخابات میں مزید اندازہ ہو جائے گا۔ عمران خان نے پنجاب ٹیم کا کپتان چننے میں جو بہت بڑی غلطی کی، اس کی قیمت اگلا الیکشن گنوانا ہوسکتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی مجموعی نشستیں تحریک انصاف سے کچھ کم رہی ہیں، مگر ان کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ انہوں نے پنجاب میں واضح طور پر اپنی برتری قائم رکھی۔ ن لیگ کی قیادت اور صف دوم کی قیادت سخت دبائو میں ہے، مقدمات کا انہیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے برے حالات میں اتنی اچھی کارکردگی دکھانا قابل تحسین ہے۔ ثابت ہوا کہ عمران خان اور ان کے حامی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ن لیگ کو پنجاب میں توڑ نہیں سکے۔ ن لیگ نے پنڈی میں بہت اچھی کارکردگی دکھا کر بونس پوائنٹ حاصل کیا، تاہم اپنے مضبوط ترین مستقر گوجرانوالہ میں ن لیگ کو بہت نقصان ہوا، کھاریاں میں ایسی بری شکست کی انہیں توقع بھی نہیں ہوگی۔ ن لیگ نے کراچی میں نشستیں لے کر سر اٹھایا ہے، مگر مجموعی طور پر یہ پنجاب کی جماعت بنتی جا رہی ہے۔ کے پی کے اور سندھ میں اسے بہت محنت کرنا ہوگی۔
پیپلزپارٹی کے لئے یہ الیکشن سخت مایوس کن ثابت ہوئے۔ بلاول بھٹو پنجاب کے دورے کرتے رہے، انہیں امید ہوگی کہ شائد کوئی بات بن جائے گی۔ انہوں نے جنوبی پنجاب میں خاصی محنت کی، مگر نتائج صفر نکلے۔ ثابت ہوا کہ نئے بیانیہ کے بغیر صرف گھسی پٹی تقریروں اور بھٹو کے نقل میں مصنوعی جذباتی تقریروں سے عوام موم نہیں ہوتے۔ پیپلزپارٹی صرف سندھ کی جماعت بنتی جا رہی ہے۔ اگلے عام انتخابات سے پہلے انہیں قومی سطح پر تاثر جمانے کے لئے بہت محنت کرنا ہوگی۔
جے یوآئی کیلئے یہ الیکشن بہت ہی برا رہا۔ وہ بلوچستان سے بھی ہار گئی اور کے پی کے جنوبی اضلاع بنوں وغیرہ سے بھی۔ یوں لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے ساتھ اپنی جماعت کی کشش بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ ان کے پچیس امیدوار شکست کھا گئے، کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اے این پی نے اس الیکشن میں محنت کی اور پشاور میں مناسب کارکردگی دکھائی۔ بلدیاتی انتخابات میں دیکھنا ہوگا کہ اے این پی کہاں کھڑی ہے؟
کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں سب سے حیران جماعت اسلامی نے کیا۔ طویل عرصے بعد اس نے کراچی میں بہت اچھا پرفارم کیا۔ جماعت نے کراچی سے پانچ نشستیں جیتیں، چکلالہ پنڈی سے دو سیٹیں جیت لیں جبکہ مردان اور نوشہرہ سے بھی ایک ایک لی۔ چکلالہ میں اچھی کارکردگی دکھانا ایک نیا عنصر رہا۔ کراچی میں جماعت تیسرے نمبر پر رہی اور اس کے ووٹوں کی شرح بہت اچھی ہے۔ جماعت اسلامی نے کراچی میں ایم کیو ایم، ن لیگ اور مصطفی کمال کی پی ایس پی کے مجموعی ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ لئے۔ کراچی جماعت کے امیر حافظ نعیم کی جارحانہ عوامی سیاست رنگ لائی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ جماعت اسلامی بعض نشستوں پر تھوڑے مارجن سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہی۔ اندازہ ہو رہا ہے کہ کچھ مزید محنت کی جائے تو جماعت اسلامی کراچی میں اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو اس الیکشن سے خاصا حوصلہ ملا ہوگا۔