Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Cards Open Ho Gae

Cards Open Ho Gae

آخر کار عمران خان نے سیاست کی بساط پر کھیلے جانے والے جو کارڈز اپنے سینے سے لگا رکھے تھے، وہ اوپن کر کے سامنے رکھ دئیے ہیں۔ یہ وہ عمران خان ہے جس سے ہم واقف نہیں۔ ہم اخبارنویس جس جلد باز، فوری ہائپر ہوکر شور مچانے والے، راز دل میں نہ رکھنے والے خان سے آشناتھے، اقتدار کی ذمہ داریوں نے لگتا ہے اسے بدل ڈالا۔ ابھی خیرا نہیں بہت کچھ ثابت کرنا اور منوانا ہے، مگراپنے فیصلوں میں ایسی رازداری برتنا اچھا لگا۔ حکمرانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہندوستان کے مشہور بادشاہ غیاث الدین بلبن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ تنہائی میں آئینہ سامنے رکھ کر دیکھتا رہتا اور کوشش کرتا کہ چہرے سے تاثرات ظاہرنہ ہوں۔ مورخ کہتے ہیں کہ بڑے سے بڑے واقعے پر بلبن کا چہرہ سپاٹ اور بے تاثر رہتا، درباری قطعی اندازہ نہ لگا پاتے کہ بادشاہ کیا سوچ رہا ہے؟ اس کا چہیتا بیٹا ولی عہد شہزادہ محمد منگولوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا، اطلاع دربار میں پہنچی تو بلبن نے حسب معمول بے تاثر چہرے سے یہ المناک خبر سنی اور پھر بے پروائی سے بولامزید خبریں سنائی جائیں۔ اس کے بعد وہ پوری دلچسپی اور انہماک سے دربار میں بیٹھا مختلف مسائل نمٹاتا رہا۔ دو تین گھنٹوں بعد محل گیا۔ روایت کے مطابق وہاں دھاڑیں مار کر رویا۔ تازندگی اپنے بیٹے کا غم وہ نہ بھلا پایا، دربار میں مگر ہمیشہ پرسکون اور منضبط رہتا۔ اورنگ زیب یا کسی اور بادشاہ کا قول ہے " شاہ کے فیصلے کی خبر اس کی آنکھوں کو ہونی چاہیے نہ لبوں کو۔ وقت آنے پر ہی وہ اپنے دل میں چھپا راز فاش کرے۔"وفاقی کابینہ اور دیگر اہم عہدوں کے تقررپربات کرنا ہے، مگر پہلے قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا۔ اسمبلی میں اس دن مسلم لیگ ن نے ہر ایک کو مایوس کیا۔ ان کااحتجاج بالکل بلاجواز اور غیر منطقی تھا۔ سیاست میں ہر موو کا کوئی مقصد اور ہدف ہونا چاہیے۔ ن لیگ کے جغادریوں میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ اس دن ایسا بچکانہ احتجاج کر کے انہوں نے کیا حاصل کیا؟ صرف یہ بھرم ختم ہوا کہ وہ جمہوریت پسند ہیں۔ پچھلے پانچ برس وہ تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست پر سخت تنقید کرتے رہے، میرے جیسے تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے قلم کار بھی ان کی اس تنقید کی حمایت کرتے تھے کہ ان کا بنیادی نکتہ اصولی ہے اور اس کی سپورٹ کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف کے دھرنے اور ان کا مسلسل احتجاج غلط تھا، اس کا عمران خان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، الٹا اس نے اپنے سنجیدہ، معتدل حامی کھو دئیے۔ یہ بات مگر ماننا ہوگا کہ تحریک انصاف نے ایک سال بعد احتجاج شروع کیا، اسمبلی کے پہلے دن یوں ہنگامہ نہیں کھڑا کیا تھا۔ مسلم لیگ ن نے ایسا کیا اور اپنا بھرم گنوایا۔ صاف لگ رہا تھا کہ کسی کو دکھانے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے؟ خواجہ سعد رفیق سے اس ناچیز کو کبھی حسن ظن نہیں رہا، جنہیں تھا، آج وہ بھی پچھتارہے ہیں۔ اس کالم کے لکھنے سے پہلے ایک سنجیدہ تجزیہ نگار سے بات ہوئی، مئی تیرہ کے انتخابات میں انہوں نے عمران خان کو ووٹ ڈالا تھا، تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست سے بیزار ہو کر انہوں نے دوستوں کے حلقے میں اعلان کیا کہ وہ آئندہ ن لیگ کو ووٹ ڈالیں گے۔ جولائی کے انتخابات میں وہ ن لیگ کے ووٹر بنے، مگر اب اس بلاجواز احتجاجی سیاست سے دو ہفتوں میں بیزار ہوگئے۔ کالم سے پہلے ان سے بات ہوئی تو بے ساختہ بولے کہ خواجہ سعد رفیق نے سخت مایوس کیا ہے، اتنا پرانا پارلیمنٹیرین اور اتنا ہلکا، کمزور اور افسوسناک طرزعمل۔ میں نے عرض کی، المیہ یہ ہے کہ اب ن لیگ میں اسی قسم کے رویے اور طرز عمل کی پزیرائی ہوگی۔ سنجیدہ، معتدل اور عقل ہوش کی بات کرنے والوں پر مفاہمت کی مک مکا والی سیاست کا الزام لگے گا۔ یوں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ کر آتش فشانی پر مجبور ہو جائیں گے، نقصان ان کی جماعت کو پہنچے گا۔ وزیراعظم کے انتخاب کے موقعہ پر تحریک انصاف نے بھی مایوس کیا۔ وہ ابھی تک شائد یہ نہیں سمجھ سکے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں فرق ہوتا ہے۔ انہیں اخلاقی برتری جتانے کا ایک موقعہ ملا تھا، انہوں نے ضائع کیا۔ شہباز شریف کے خطاب پر جوابی ہنگامہ کرنے سے کیا حاصل ہوا؟ شائد یہ تاثر کہ تحریک انصاف برابری کی جنگ لڑ سکتی ہے۔ اس تاثر کا مگر کیا فائدہ؟ اپوزیشن آگ بھڑکانے اور حکومت آگ بجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ فرض کریں کہ اس روز میاں شہباز شریف کی تقریر تحریک انصاف والے کامل خاموشی سے سنتے تو لائیو ٹرانسمیشن دیکھنے والے کروڑوں لوگوں کو کتنا اچھا اور گہرا تاثر جاتا۔ جواب تو تقریروں میں بھی دیا جا سکتا تھا۔ عمران خان نے جارحانہ تقریر کی، چند نکات اس میں اہم تھے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں اور ووٹروں کوبتایا کہ وہ اپنے الیکشن کے نعروں اور وعدوں پر قائم ہیں۔ عمران مگر مشتعل میں آ کر کئی اہم باتیں چھوڑ گئے، انہیں اپنی اس تاریخی تقریر میں قوم کو ایک واضح ایجنڈا دینا چاہیے تھا۔ شاہ محمود قریشی کی تقریریں کبھی پسند نہیں آئیں، ا س روز مگر وہ خوب بولے اور مدلل انداز میں ہر نکتے کو بیان کیا، ساتھ ہی اپنے قائد کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ دن مگر بلاول بھٹو کے نام گیا۔ نوجوان بلاول نے بہت عمدہ تقریر کی۔ خوشگوار حیرت ہوئی۔ بلاول نوٹس لیتے رہے تھے اور پھر اچھے طریقے سے بولے۔ انہیں داد ملنی چاہیے۔ پیپلزپارٹی کے لئے بلاول کا ظہور ایک اچھی خبر ہے۔ ویل ڈن بلاول۔ عمران خان کے فیصلوں پر آتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی کے لئے ایک شائستہ پشتون کا انتخاب کیا گیا، پہلے اجلاس میں تو وہ کنٹرول نہ کر پائے، ان کی ناتجربہ کار ی اور وضع داری دونوں واضح ہوئیں، شائد وقت گزرنے سے بہتر ہوجائیں۔ ڈپٹی سپیکر کے لئے ایک ناتجربہ کار، مگر کوئٹہ سے اپنے ایک پرانے، نظریاتی ساتھی کو چنا۔ اس لحاظ سے اچھا فیصلہ ہے۔ عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے عثمان بزدار کا انتخاب کیا۔ یہ ایک سرپرائز تھا، مگر جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں، وہ کچھ زیادہ دل خوش کن نہیں۔ روایتی سیاسی گھرانے کے وہ سپوت ہیں، دیگر سیاستدانوں کی طرح جس نے پارٹیاں بدلی اور روایتی سیاست کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا تعلق پسماندہ علاقے سے ہے، مسائل وہاں بہت ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کے اراکین اسمبلی ان مسائل کی وجہ ہیں، حل نہیں۔ جو شخص تین بار ایم پی اے بنا ہو، تحصیل ناظم بھی رہا ہو، اس کے گائوں میں بجلی نہ ہو تو اس کاقصور وار وہ خود ہی ہے۔ عمران خان جس نیٹ کلین، انقلابی سوچ والے نوجوان کی نوید سنا رہے تھے، اس میں لگتا ہے وہ غلطی کر گئے۔ ایک دوست نے تبصرہ کیا کہ کہیں عثمان بزدار سیاسی میدان کے "منصور اختر" نہ ثابت ہوں۔ کرکٹ جاننے والے یہ نکتہ زیادہ اچھی طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ جس طرح عثمان بزدار کے خلا ف میڈیا میں ایک سوچی سمجھی منظم مہم شروع ہوگئی ہے، وہ بھی بہت عجیب لگی۔ دیہات کی سیاست میں ایک دوسرے پر جعلی، بے بنیاد مقدمات کرا دینا عام ہے۔ کسی سیاستدان کا دامن اس سے پاک نہیں، مگر یوں ہنگامے کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔ عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں ڈٹ کر عثمان بزدار کی حمایت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ ممکن ہے عمران خان کی بات درست نکلے اور وہ بہتر انتخاب ثابت ہوں۔ بادی النظر میں مگر ایک کمزور وزیراعلیٰ کا تصور ابھر رہا ہے، جس کے پیچھے" کوئی "اور رہ کر اسے کنٹرول کرے۔ اللہ کرے کہ یہ تاثر غلط ثابت ہو۔ وفاقی کابینہ میں بیشتر نام تو وہ ہیں جن کا اندازہ تھا۔ پرویز خٹک کو دفاع کی وزارت دی گئی، وہ دھیمے مزاج کے تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ درست انتخاب ہے۔ شیخ رشید ریلوے پہلے بھی چلا چکے ہیں، انہیں تجربہ حاصل ہے۔ شفقت محمود پڑھے لکھے انسان ہیں، تعلیم کی وزارت کے لئے مناسب انتخاب۔ ڈاکٹر شیریں مزاری بھی انسانی حقوق کے لئے درست چوائس ہیں۔ فواد چودھری پچھلے دو برسوں سے تحریک انصاف کی میڈیا کمپین چلا رہے ہیں اور حق تو یہ ہے کہ وہ اکیلے ن لیگ کی پوری میڈیا ٹیم کا مقابلہ کرتے رہے۔ وزارت اطلاعات انہیں دینا بنتا ہی تھا۔ عمران خان کو اتحادی جماعتوں کو بھی اکاموڈیٹ کرنا پڑا۔ وزیروں اور مشیروں میں بھی پرویز مشرف کے زمانے کا عکس دکھائی دیا۔ شائد اس لئے کہ جنرل مشرف نے ٹیکنوکریٹس کو ترجیح دی تھی اور عمران خان بھی مختلف شعبوں کے ماہرین کو ساتھ رکھنا چاہ رہے ہیں۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو، زبیدہ جلال اور بعض دوسرے پرو اسٹیبلشمنٹ لوگوں کو اس کابینہ میں اکاموڈیٹ ضرور کیا گیا۔ عامر کیانی کو صحت جیسی اہم وزارت دینے پر حیرت ہوئی۔ ان کا کوئی خاص پروفائل نہیں۔ پنڈی میں غلام سرور خان کے ساتھ انہیں دوسرا وزیر بنایا گیا۔ شائد یہ وجہ ذہن میں ہو کہ پوٹھوہار سے لینڈ سلائیڈ وکٹری ملی تو انہیں شیئر بھی مناسب دیا جائے۔ ابھی کابینہ میں توسیع ہونا ہے۔ فیصل آباد کو نمائندگی نہیں ملی، بہاولپور سے کسی کو وزارت ملنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے "ینگ ترک "زرتاج گل، فرخ حبیب، مراد سعید، حماد اظہر وغیرہ میں سے لوگ لئے جا سکتے ہیں۔ کابینہ کا انتخاب بہت اعلیٰ نہ سہی تو مناسب ضرور کہا جا سکتا ہے۔ غیر معمولی کچھ نہیں، مگر مایوسی کا پہلو بھی موجود نہیں۔