ٹی وی ڈراموں سے بڑی حسین یادیں وابستہ ہیں۔ میری نسل پی ٹی وی کے رنگین ڈراموں کا سنہری دور دیکھ چکی ہے۔ ستر اور اسی کے عشرے کے اوائل کے ڈرامے زیادہ یاد نہیں، مگر اس کے بعد پی ٹی وی پر ڈراموں کے کئی شاندار موسم گزرے۔ ایسے ایسے عمدہ ڈرامے دیکھے کہ آج تک دل پر نقش ہیں۔ پی ٹی وی نے نشر مکرر کے طور پر اپنے بہترین ڈرامے دوبارہ دکھائے۔ انکل عرفی، شہہ زوری، شمع، افشاں وغیرہ۔
وارث، اندھیرا اجالااور سونا چاندی پہلی بار لگا تب آٹھ دس سال عمر ہوگی، زیادہ یاد نہیں۔ نشر مکرر کے طور پر انہیں دیکھ کر بڑا لطف اٹھایا۔ پی ٹی وی کے ڈراموں، فنکاروں کے نام اگر لئے جائیں تو دو تین کالم اسی میں صرف ہوجائیں گے۔ ہم سے پہلے والی، ہماری اور ہمارے فوراً بعد کی نسل ان مشہور ڈراموں سے اچھی طرح واقف ہے۔
پی ٹی وی کا سنہرا زمانہ بیتے دو عشرے گزر گئے۔ سیاسی تقرر یوں نے اس کا بیڑا غرق کر دیا۔ ارطغرل ڈرامہ کی وجہ سے ناظرین کی بڑی تعداد پی ٹی وی کی طرف لوٹ کر آئی ہے۔ اس ڈرامے نے سرکاری ٹی وی کو نئی زندگی بخشی۔ عمران خان کی حکومت کا شائد یہی ایک اچھا کام ہے جو یاد رہ جائے گا۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ ایک اور بہت مشہور ترک ڈرامہ" پایہ تخت سلطان عبدالحمید" کی اردو ڈبنگ کی بھی ہدایات جاری کریں۔ ارطغرل کا چوتھا سیزن چل رہا ہے، جلد مکمل ہوجائے گا۔ پی ٹی وی نے پایہ تخت سلطان عبدالحمید دکھایا تو مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم ہوں گے۔ ماہ رمضان میں اور اس کے بعدگھر والوں کے ساتھ ارطغرل ڈرامہ کی کچھ قسطیں پھر سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ میری ساس صاحبہ بڑے ذوق شوق سے ارطغرل دیکھ رہی ہیں، ان کے ساتھ چھوٹا صاحبزادہ عبداللہ اوردونوں کو کمپنی دینے کے لئے" ام عبداللہ "بھی شریک ہوتی ہیں۔ جب گھر کی اتنی اہم شخصیات کچھ کام کریں تو ہماری کیا مجال کہ شامل نہ ہوں۔
ارطغرل میرا پسندیدہ ڈرامہ ہے، اس پر کئی بار لکھا، بہت کچھ مزید لکھ سکتا ہوں۔ اس ڈرامہ کے بیشتر فنکاروں نے کرداروں میں ڈوب کر اتنی عمدہ اداکاری کی ہے کہ داد دئیے بنا نہیں رہا جا سکتا۔ امیر سعدالدین کوبیک کا مشکل کردارنہایت خوبصورتی سے ادا کیا گیا۔ آج کل امیر سعدالدین کا انجام قریب ہے، اسی شوق میں سب کے ساتھ میں بھی ڈرامہ دیکھے جا رہا ہوں۔ ایک فائدہ یہ ہوا کہ عرصے بعد دو تین ڈرامے مزید بھی دیکھے۔ اس کا سب سے بڑا کریڈٹ تو ہمارے آٹھ سالہ بیٹے عبداللہ کو جاتا ہے جس نے پی ٹی سی ایل کے سمارٹ ٹی وی میں ریورس کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ کئی برسوں سے ہم اسے استعمال کر رہے ہیں مگر کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ عبداللہ نے اپنے کارٹون دیکھنے کے چکر میں ریموٹ سے چھیڑ چھاڑ کی تو پتہ چلا کہ اکثر چینلز کی نشریات تین گھنٹے تک پیچھے ہو سکتی ہیں۔ رات گیارہ بجے آپ پیچھے کر کے شام آٹھ سے نو بجے تک نشر ہونے والے ڈرامے کو دیکھ سکتے ہیں۔ یوں ہم نے پہلی بارپچھلے مہینے ایک ساتھ تین ڈرامے دیکھے۔
مزے کی بات ہے کہ یہ تینوں ڈرامے خاص طور سے ایک مہینے کے لئے تیار کئے گئے تھے، رمضان میں شروع ہوئے اور عید رات پر ختم ہوگئے۔ ایک ڈرامہ" تانا بانا" افطاری کے کچھ ہی دیر بعد لگ جاتا، جبکہ باقی دونوں " چپکے چپکے" اور "عشق چنبیلی"الگ الگ چینل پر آٹھ یا نو بجے لگتے تھے۔ ہم نے خیر سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا اور تمام معمولات سے فارغ ہو کر انہیں اکٹھا ہی دیکھ ڈالتے۔ فائدہ یہ ہوتا کہ اشتہارات کے طویل وقفے فاسٹ فارورڈکر کے گزر دیتے، یوں " بریک فری" ڈرامہ مل جاتا۔" چپکے چپکے" لگتا ہے باقاعدہ ہٹ ہوا، اس پر سوشل میڈیا میں خاصی بات ہوئی، مختلف ویب سائٹس اوربی بی سی اردو وغیرہ پر بھی فیچر آتے رہے۔ ان ڈراموں کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ان کا خاندانی سازشوں، ناجائز تعلقات، افیئرز وغیرہ سے پاک ہونا ہے۔ یہ پی ٹی وی کے اچھے زمانے کے ڈراموں کی جھلک لئے ہوئے تھے۔ ہلکی پھلکی کہانیاں، کچھ مزاح، کچھ رومانس، نئے پرانے اداکاروں کا امتزاج، مجموعی طور پر عمدہ اداکاری اور پھر خوشگوار اختتام۔
دو تین خامیاں البتہ بڑی واضح نظر آئیں۔ حیرت ہے کہ اتنے مہنگے ڈراموں کے ڈائریکٹرحضرات اس پر غور نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر چپکے چپکے ڈرامہ میں سب سے بڑی مس کاسٹ اس کی ہیروئن تھیں۔ وہ خاصی معروف اداکارہ ہیں، بہت سے کامیاب ڈرامے ان کے کریڈٹ پر ہیں، لیکن اگر اٹھارہ انیس سالہ لڑکی کا کردار کسی پینتیس سالہ خاتون کو کرنا پڑے تو یہ زیادتی ہے۔ پی ٹی وی کے ڈراموں کی سب سے بڑی خوبی ان کی عمدہ کاسٹنگ ہوتی تھی۔ ہرکردار نگینے کی طرح فٹ نظر آتا۔ اس ڈرامے کے مرکزی کردار "مینو"کے کردار کے لئے نسبتاً ینگ اداکارہ کو لینا چاہیے تھا۔ گریجوائشین کی طالبہ دکھانا ہے تو اسے لیں جو سٹوڈنٹ لگے تو سہی۔
کرکٹ میچز میں کھلاڑی اگر امپائر سے بدتمیزی کریں یا مقررہ وقت میں کپتان اوورز مکمل نہ کرا پائے تو اس کی میچ فیس کا کچھ حصہ یامکمل فیس کاٹ لی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں ایسی مس کاسٹ پر ڈائریکٹر کی نصف فیس تو ضرور کاٹ لینی چاہیے۔ اداکارہ کی بھی یہ غلطی ہے کہ جو کردار اس کے لئے بنا ہی نہیں، اس میں فٹ ہونے کی کوشش ہی کیوں کر رہی ہے؟ سر کے بالوں پر کلپ لگانے اور تیز تیز بولنے سے عمر پندرہ سال کم ہوجاتی ہے کیا؟ ان کی کمزور اداکاری دیکھ کر سخت کوفت ہوتی رہی۔ اوپر سے ہیرو بھی ایسا جس کی ہر ڈرامے میں ایک جیسی لُک ہوتی ہے۔ وہ غصہ اور رومان ایک ہی انداز اور لب ولہجہ میں کرتا۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ نئی نسل کے فنکا راپنے کردار کے حساب سے حلیہ (گیٹ اپ)بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ لوگ عالمی معیار کی فلمیں، ڈرامہ سیزن وغیرہ نہیں دیکھتے؟ آج کل کسی بھی ڈرامے کے ہیرو یا نمایاں نوجوان کردار کو دیکھ لیں، ایک ہی سٹائل کی ہلکی سی ڈاڑھی، سر پر(نیوز چینلز کے اینکرز کے انداز میں) کلہاڑانما ہیر سٹائل جبکہ آواز، بولنے کے سٹائل میں بھی تبدیلی لانے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ پچھلے سال ایک ڈرامہ عہد وفا بہت مشہور ہوا تھا، اس میں ایک کردار فوجی افسر تھا، اس کی اہلیہ کا کردار جس لڑکی نے اداکیا ان کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ وہ عفیفہ کسی ڈرامے میں جھاڑو پوچا لگانے والی کسی نوکرانی کا کردا ر ادا کریں یا فوجی ڈاکٹر کا، ہر ایک میں دو لٹیں نکال کر سامنے کی ہوں گی۔ اتنی سمجھ تو ہونی چاہیے کہ کرداروں کے نفسیات کے مطابق گیٹ اپ بنایا جائے۔ نامور اداکار محمد قوی خان اتفاق سے ان دونوں ڈراموں میں کام کر رہے تھے۔ دونوں میں ان کا گیٹ اپ، بولنے کا انداز، اداکاری انتہائی مختلف تھی۔ چپکے چپکے میں وہ بڑے ابا کا کردار نبھا رہے تھے جبکہ عشق چنبیلی میں پنجابی بولنے والے گھر کے بزرگ بوٹا کی ایکٹنگ کی۔ چہر ے کے تاثرات، لہجہ، چلنے کا انداز، گیٹ اپ سب کچھ الگ تھا۔ نوجوانوں کو سینئرز سے سیکھنا چاہیے۔
یہ بات ہمارے نوے فیصد ڈراموں میں رچ بس چکی ہے کہ ہیروئن یا مرکزی کردار والی نوجوان لڑکیوں نے دوپٹہ نہیں پہننا۔ سمجھ سے باہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں جب پچانوے ستانوے فیصد گھرانوں میں دوپٹہ لازمی ہے تو ڈراموں میں کیوں نہیں دکھایا جاتا؟ چپکے چپکے میں مینو کے کردار کا بھی یہی حال تھا۔ اس کی ماں، چچی، دادی سب نے دوپٹے سلیقے سے لئے ہوتے۔ اس بی بی کو ڈائریکٹر نے ایک بار بھی نہیں پہننے دیا۔ مزے کی بات ہے کہ ڈرامے میں ہر وقت دوپٹہ اوڑھنے والی بزرگ خواتین نے اسے ایک باربھی نہ ٹوکا، منطقی طور پر انہیں اسے سمجھاتے اور ٹوکتے رہنا چاہیے جیسا کہ ہمارے ہاں بزرگ کرتے ہیں۔ دونوں ڈراموں کی رائٹر ایک ہی خاتون ہیں۔ انہوں نے اچھا کام کیا اور بعض کردار خوبصورتی سے تخلیق کئے، خاص کر چپکے چپکے میں سرائیکی ٹچ والی دادی اور "گھر دا پیر چلھ دا وٹا " کے سرائیکی تکیہ کلام والا داماد اور پنجابی لہجے والی اسما عباس کے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا۔ اسما عباس نے بہت عمدہ کام کیا۔ اسی طرح عشق چنبیلی میں سیالکوٹی لہجے کی پنجابی بولنے والی ارسہ غزل کے مکالمے کمال کے تھے۔ ہمارے بہت اچھے کمپیئر، اینکر نورالحسن نے بھی شاندار کام کیا۔ عاشق حسین ایڈووکیٹ کا انہوں نے کمال کردار ادا کیا، یاد رہے گا۔ نورالحسن کی اس ڈرامے سے بطور اداکارشناخت مستحکم ہوئی۔
چپکے چپکے کی نسبت عشق چنبیلی زیادہ آرٹسٹک انداز میں بنایا گیا، پلے بیک میں گانے اور موسیقی کا اچھا استعمال کیا اور خوبصورتی سے رشتوں پر مادہ پرستی کے اثرات دکھائے گئے، مس کاسٹ نہیں تھی اورنوجوان مرکزی اداکاروں نے متاثر کیا۔ البتہ رائٹر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ تیس چالیس لاکھ کی نئی گاڑیاں یوں چلتے چلتے اچانک بار بار خراب نہیں ہوجاتیں اور ان کے ٹیوب لیس ٹائر پنکچرہونے کے باوجود گھر پہنچا دیتے ہیں۔ گھسی پٹی سیچوئشن کے بجائے کچھ نیا سوچنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ان ڈراموں پر کئی دوستوں سے بات ہوئی۔ سب کا یہی خیال تھا کہ انٹرٹینمنٹ چینلز کو ایسے خوشگوار ڈرامے دکھانے چاہئیں۔ چلیں خاندانی جھگڑوں، سازشوں والے بھی دکھاتے رہیں، مگر کہیں سے تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی آئے۔ البتہ اگر ڈراموں کو منطقی بنائیں، پامال آئیڈیاز اور سیچوئشن کے بجائے نیا سوچیں اورکرداروں کو اپنے کلچر سے ہم آہنگ بنائیں تو زیادہ موثر نتائج ملیں گے۔