پچھلے چند دن خاصی تکلیف، پریشانی اور کنفیوژن میں گزرے۔ کورونا ہمارے گھر پر دوسری بار حملہ آور ہوا۔ پچھلے سال ستمبر کے اواخر میں مجھے کورونا ہوگیا تھا، میرے بعد منجھلے بیٹے کو بھی ہوا۔ باقی گھر والے الحمد للہ محفوظ رہے۔ اس بار مارچ کے آخری ہفتے میں پہلے اہلیہ کو کورونا کی علامات ظاہر ہوئیں، ان کا ٹیسٹ نیگیٹو آیا، مگر جسم پر کورونا کے اثرات موجود ہیں، Ddimerبھی بڑھے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایسی کمزوری اور نڈھال کیفیت کہ غسل خانے تک جانے سے تھکن ہوجائے۔ عام طور پر کورونا کیسز میں ایسی کمزوری نظر آ رہی ہے۔ ہم دونوں کے ٹیسٹ نیگیٹو آئے تو پھر بڑے بیٹے میں علامات ظاہر ہوئیں، اس کاCrpٹیسٹ کرایا جو انفیکشن کو ظاہر کرتا ہے، اس میں ہلکی انفیکشن لگی۔ مزے کی بات ہے کہ اس کا کورونا ٹیسٹ بھی نیگیٹو آیا۔ صورتحال کچھ کنفیوز سی ہے کہ لگتا ہے کورونا گھر میں آیا، کسی پر اثر ہوا، کسی پر نہیں۔ سب سے اچھی بات یہی کہ اللہ کی رحمت سے معاملہ بہت ہلکا رہا اور بچت ہوگئی۔ ان شااللہ دو چار دنوں میں یہ بلا ٹل جائے گی۔
کورونا کے اس وار میں پریشانی پہلے سے زیادہ رہی۔ فیس بک پر اس کا ذکر کیا تو بہت لوگوں نے دعائیں کیں۔ ممتاز اینکر اور صحافی برادرم جنید سلیم نے بے پناہ محبت اور شفقت کا مظاہرہ کیا۔ پچھلی بار بھی کورونا ہونے پر انہوں نے بار بار فون کر کے تسلی دی، اپنے تجربات شیئر کئے اور ضرورت پڑنے پر آکسیجن سیلنڈر مہیا کرانے کی پیش کش کی۔ جنید بھائی سے ایک آدھ ہی ملاقات ہے، مگر اللہ بعض اوقات لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے انس ڈال دیتا ہے۔ انہوں نے اس بار بھی بڑی محبت اور خلوص کا مظاہرہ کیا۔ مسلسل رابطے میں رہے، گائیڈ کرتے رہے، ٹیسٹ کرانے میں معاونت کی۔ پھر انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر خالد گوندل صاحب کو کہہ کر میرا واٹس ایپ گروپ بنا دیا۔ گوندل صاحب مسیحاتو ہیں ہی، مگر لگتا ہے بڑی پوتر پاکیزہ روح کے مالک ہیں۔ انہوں نے اتنی محبت، خلوص کے ساتھ رہنمائی کی کہ دل شاد ہوگیا۔
میو ہسپتال کے میڈیکل وارڈ کی ہیڈ پروفیسر بلقیس شبیر صاحبہ کی کمٹمنٹ اور خلوص سے میں پہلے ہی بہت متاثر تھا۔ دسمبر میں بڑے بھائی صاحب کورونا کے باعث میو ہسپتال میں ایڈمٹ رہے، تب پروفیسر بلقیس شبیر اور ان کی ٹیم نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میو ہسپتال کے ان ڈاکٹروں کی گراں قدر خدمات ہیں، انہوں نے دنیا ہی میں اپنے کام سے جنت کما لی ہے۔ پروفیسر بلقیس میو ہسپتال کے ایک مشہور پروفیسر شبیرا حمد مرحوم کی صاحبزادی ہیں، یہ پوری فیملی لائق فائق ڈاکٹروں پر مشتمل ہے۔ ان کی چھوٹی ہمشیرہ اور چھوٹے بھائی امریکہ میں سپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں۔ پروفیسر بلقیس نے دسمبر میں ہمارے لئے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا تھا، جس میں پروفیسر ساجد عبیداللہ کی ٹیم بھی شامل تھی۔ رات دو بجے کوئی رپورٹ اس گروپ میں ڈالی جائے، اس پر فوری پروفیسر صاحبان، کنسلٹنٹ حضرات کی رائے آ جاتی۔ اس بار پروفیسر خالد گوندل نے جو گروپ بنایا اس میں پھر پروفیسر بلقیس شبیر شامل ہیں۔ انہوں نے فوری طور پر تمام ضروری معلومات مجھے ارسال کیں۔ ویڈیو کال کر کے ایک ایک بات سمجھا دی گئی۔ معلوم ہوا کہ اس طرح کے بے شمار واٹس ایپ گروپ بنا کر لوگوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔
دوستوں کا کیا شکریہ ادا کریں، وہ ہر مشکل وقت میں کام آتے ہیں، ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ دانشور، تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش میرے فیملی ڈاکٹر بن چکے ہیں، ہر پریشانی میں ان سے ہی رابطہ کرتے، ان کی رہنمائی سے ٹریٹمنٹ شروع کراتے ہیں۔ ڈاکٹر انتظار بٹ نے بار بار چیسٹ ایکس رے پر زور دیا اور پھر رپورٹ پلمونالوجسٹ کو بھجوائی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ملک داتا دربار ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں، وہ مختلف سماجی، ہیلتھ ایشوز پر کالم بھی لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید ملک کی یہ خوبی ہے کہ دوستوں کے ساتھ انتہا پر جا کر نبھاتے ہیں۔ اس بار بھی ان کے تعاون ہی سے سٹی سکین کی مشکل آسان ہوئی۔ اپنے ان تجربات سے تین چار نکات سمجھ آئے جو قارئین سے بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
کورونا کی تیسری لہر زیادہ شدید اور خطرناک ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایسے کچھ کیسز رپورٹ ہوئے جن میں مریض کے پھیپھڑے یعنی لنگز پہلے متاثر ہوئے، علامات بعد میں ظاہر ہوئیں۔ بہت سے کیسز میں علامات(کھانسی، گلے میں درد، بخار وغیرہ)ظاہر ہوتے ہی تیزی سے پھیپھڑے متاثر ہوئے۔ بعد میں ان کا کورونا ٹیسٹ بھی نیگیٹو آیا مگر کورونا کے اثرات جسم پر بری طرح ظاہر تھے۔ اس لئے اس بار زیادہ مستعداور ہوشیار رہیں۔ یاد رکھیں کہ کورونا ٹیسٹ (PCR)نیگیٹو آنے کا یہ مطلب نہیں کہ کورونا نہیں ہے۔ یہ ٹیسٹ ویسے ہی ساٹھ فیصد تک موثر ہے یعنی چالیس فیصد اس میں غلطی کا امکان ہے۔ اس لئے اگر کورونا ٹیسٹ پازیٹو آ جائے تو اسے کورونا سمجھیں، مگر نیگیٹو نہ آنے کی صورت میں بھی احتیاط جاری رکھیں اور اپنی علامات پر نظر رکھیں۔
اگر بخار رہتا ہے تو اسے ایزی نہ لیں۔ کورونا کے حالیہ کیسز میں چیسٹ ایکس رے ضرور کرائیں۔ اس سے پھیپھڑوں کی حالت کا کچھ اندازہ ہوجائے گا۔ یہ پلمونالوجسٹ pulmonologist یعنی سانس کے مسائل کے ماہر کو دکھائیں۔ اگر وہ کہے کہ سٹی سکین یعنی HRCTکرائیں تو بالکل تاخیر نہ کریں۔ سٹی سکین ہی سے پھیپھڑوں کی حقیقی صورتحال کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر تب سٹیرائیڈز شروع کرائی جائیں گی۔ گورنمنٹ ہسپتالوں میں یہ ٹیسٹ ہوسکتا ہے اور پرائیویٹ کی نسبت کئی گنا سستا پڑتا ہے۔
ایک دوائی جو مجھے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے پچھلی بار بھی استعمال کرائی تھی، اس بار دیکھا کہ بیشتر سینئر ڈاکٹر اسے تجویز کر رہے ہیں، یہ آئیورمائٹ ivermite 6mg ہے، دراصل اس کے سالٹ کا نام Ivermectin ہے اور یہ طویل عرصے سے انتڑیوں کے جراثیم وغیرہ کے خاتمے کے لئے استعمال ہو رہی تھی۔ ڈاکٹروں کے تجربات کے مطابق یہ کورونا میں خاصی مفید ہے اور یہ وائرس کو تیزی سے بڑھنے سے روکتی ہے۔ بعض ڈاکٹر اس کی دو دوگولیاں صبح شام تین دنوں کے لئے استعمال کراتے ہیں، مجھے پروفیسر بلقیس صاحبہ نے دو گولیاں فوری، دو 12 گھنٹوں بعد جبکہ دو 24گھنٹوں کے بعد استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ اسی طرح اس بار دیکھا کہ monteka 10 بھی ایک گولی روزانہ دس دنوں کے لئے استعمال کرنے کا کہا گیا۔ یہ دوائی سانس کے مسائل کوکم کرنے کے لئے ہے۔ ایزومیکس 500تو خیر کورونا کی ابتدا سے استعمال ہو رہی ہے، ہر روز ایک گولی پانچ دنوں کے لئے۔ یہ سالٹ مختلف ناموں سے ملتا ہے تو جو بھی مناسب سی کمپنی کی دوائی ہے لے لینی چاہیے۔
ان کے ساتھ بھاپ صبح شام لینا لازمی چیز ہے۔ نیم گرم پانی سے غرارے کئے جائیں۔ اچھی غذا کھائی جائے جس میں پروٹین زیادہ ہو۔ دو ابلے ہوئے انڈوں کی سفیدی اور یخنی وغیرہ میں مناسب پروٹین ہوتی ہے۔ سربکس زی یا ری وائٹل یا اسی طرح کی کوئی اوراچھی ملٹی وٹامن لینی چاہیے جس میں وٹامن سی اور زنک مناسب مقدار میں ہو۔ وٹامن ڈی کی ہیوی ڈوز ہر پندرہ دن کے بعد لیتے رہیں، مریض کو ابتدا ہی میں دے دیں۔ ٹیسٹوں میں سب سے بنیادی ٹیسٹ کمپلیٹ بلڈ یعنی CBCہے جبکہ CRPٹیسٹ جسم میں انفیکشن کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان سے یہ اندازہ ہوجائے گاکہ مسئلہ کتنا سنگین ہے، ضرورت پڑنے پر چیسٹ ایکس رے جبکہ اگر ڈاکٹر کہے تو پھر ڈی ڈائمر، فیراٹین ٹیسٹ بھی کرائے جاتے ہیں۔ زیادہ پیچیدگیوں کی صورت میں جگر کا ٹیسٹ LFT، گردوں کا ٹیسٹ RFT، شوگر کا اندازہ کرنے کے لئے نہار منہ HBA1Cکا ٹیسٹ ہوتا ہے، کسی اہم آرگن کی خرابی کا اندازہ لگانے کے لئے LDHٹیسٹ کرانا پڑتا ہے۔ یہ سب اللہ نہ کرے پیچیدگیوں کی صورت میں ہوں گے۔ عام طور پر سی بی سی یا سی آرپی سے کام چل جاتا ہے۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ اسی پچاسی فیصد کیسز میں کورونا تھوڑی بہت تکلیف کے بعد گزر جاتا ہے، چند فی صد کیسز البتہ مختلف وجوہات کی بنا پر پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ اس لئے گھبرانے یا Panic ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، بس باخبر اور ہوشیار رہیں۔ جتنا زیادہ آپ جانتے ہوں اتنا ہی آپ کے کام آئے گا۔
میں نے کورونا پر اپنے پچھلے کالموں میں کوروناکے علاج کے لئے ہومیوپیتھک دوائی NAJA 1Mکا ذکر کیا تھا۔ ساہیوال کے ہومیو ڈاکٹر نیاز صاحب نے یہ تجویز کی۔ قبلہ سرفراز شاہ صاحب اس کی بھرپور تائید کرتے اور دعا کی درخواست کرنے والوں کو اس کے دو قطرے ایک گھونٹ پانی کے ساتھ پینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ میں نے اسے استعمال کیا، میری پوری فیملی نے کیا، بہت اچھے اثرات آئے۔ ڈاکٹر نیاز کے مطابق اس بار کورونا کے اثرات زیادہ گہرے ہیں تو ناجا کو ایک سے زائد بار استعمال کرنے کی نوبت آ رہی ہے۔ بعض کیسز میں چار دن بعد، بعض میں دو دن بعد، کچھ میں ہفتہ بعد وہ استعمال کراتے ہیں۔ ناجا ون ایم کے بعد اگلے روز China 1 Mدی جاتی ہے، یہ کمزوری دور کرنے کے ساتھ امیونٹی بہتر کرتی ہے۔ جن صاحبان کو ہومیوپیتھک پر یقین نہیں، اسے فراڈ سمجھتے ہیں، وہ یہ سطریں نظرانداز کر دیں، مگر جو لوگ اس طرز علاج کو اہمیت دیتے ہیں، ان کے لئے اس دوائی کا ذکر کر دیا۔