چندمنظر ایسے ہیں جو ہمیشہ دل موہ لیتے ہیں، بچوں کی کھلکھلاہٹ، ماں کا اپنے بچے کو دیکھ کر مسکرانا، بیٹی کو وداع کرتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں آنسو ئوں کی جھلملاہٹ اور زندگی کے تیز رفتار جھمیلے میں چند لمحے رک کر اپنے رب کی بندگی ادا کرنے کی کوشش۔ منظر اوربھی پرکشش اور دل کو چھو لینے والے ہوں گے، فوری طور پر یہ ذہن میں آئے۔ ان سب میں ریاکاری سے پاک خالص جذبہ دکھائی دیتا ہے۔ بچوں کی ہنسی سے زیادہ خالص چیز شائد ہی دنیا میں کوئی اور ہو، اسی طرح ممتا کا جذبہ ہے۔ اپنے رب کی بندگی، اس کا سجدہ شکر بجا لانا، زندگی کی تیز رفتار دوڑ میں وقت کی گھومتی سوئی روک کر نماز پڑھنا بھی مجھے ہمیشہ ویسا ہی دل خوش کن منظر لگا۔
بھاپ اڑاتی چائے یا کافی کے کپ کے ساتھ کسی شاندارکتاب پڑھنے کا لطف بیان کرنا دشوار ہے۔ اپنے پیاروں کے ساتھ کسی خاموش پرسکون حسین جھیل کے کنارے بیٹھ کر کچھ لمحات گزارنا بھی ایسا ہی پرلطف ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پیار کرنے والی باوفا شریک حیات کے ساتھ خواہ خاموش وادی ہو یا پرہجوم شاپنگ مال، بھیگا موسم ہو یا کڑکتی دھوپ، ہر جگہ اچھا ہی لگتا ہے۔ رومان کی جو گہرائی، محبت کی وسعت اور جذبے کا خالص پن حلال رشتے اور سنجوگ میں ہے، اس کا دوسرے کسی بھی جذباتی، رومانی تعلق میں تصورہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سوچ کر ہی اچھا لگتا ہے کہ اس رشتے کو رب کریم نے حلال بنایا ہے، اسی نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس بنایا اورانسانوں کے لئے آسانی پیدا کی۔ ایسا ہی ایک دلکش تجربہ کرکٹ میچز دیکھنا ہے۔ کرکٹ میرا پسندیدہ کھیل ہے، اسے دیکھنا پسند ہے۔ ہم جیسے تو ٹیسٹ میچز بھی شوق سے دیکھتے ہیں۔ اچھی سپورٹنگ پچز پر پاکستانی ٹیم کے اچھے میچز دیکھنا سرشاری سے کم نہیں۔
ان کرکٹ میچوں کے دوران کوئی بلے باز سنچری بنانے کے بعد، بائولر پانچ وکٹ لینے یا کوئی اہم میچ جیتنے کے بعد گرائونڈ میں سجدہ کرے تویہ منظر دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اکثر لبرل عناصر اس پر برہم کیوں ہوجاتے ہیں؟ کھلاڑی کھیل کے دوران عجیب وغریب ایکشن کریں، جشن منانے کے احمقانہ انداز، میچز کے بعد انگلینڈ میں شیمپین کی بوتل سے جھاگ اڑائیں، کوئی برا نہیں مانتا۔ گرائونڈ میں سجدہ کرنے سے ایسے مذہب بیزار لوگوں کو لگتا ہے کہ کھلاڑی تبلیغی بن گئے، مذہب کوکھیل میں لا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب حالانکہ بے ساختہ ہوتا ہے۔ میچ کے انتہائی جوش بھرے لمحات میں کون پوز کر سکتا ہے؟ سرشاری کے عالم میں اپنے رب کو سجدہ کرنا، اس کی عنایت کا شکریہ ادا کرنا دراصل یہ بتانا اور اظہار کرنا ہے کہ جو بھی ہوا وہ اوپر والے کے کرم سے ہوا۔ اس میں ان کا ذاتی کمال نہیں۔ یہ عجز وانکسار کا مظاہرہ اور بندگی کا اظہار ہے۔
مجھے یاد ہے کہ گرائونڈ میں سجدہ کرنے کی یہ روایت جاوید میانداد نے ڈالی۔ اس سے پہلے شائد ہوگا، مگر ہمیں یاد نہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ یہ الزام انضمام الحق پر لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ٹیم کو مذہبی بنایا اور انہیں تبلیغی بنایا وغیرہ وغیرہ، حالانکہ پاکستان ورلڈ کپ جیتا تو میانداد کے ساتھ عامر سہیل وغیرہ نے بھی سجدہ کیا۔ عامر سہیل معروف معنوں میں ٹھیٹھ مذہبی شخص نہیں اور نہ ہی جاوید میانداد تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوئے۔ یہ صرف بے ساختہ پرخلوص اظہار تھا۔
آج کل قومی کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان کی تصویر وائرل ہے۔ محمد رضوان کسی میچ کے دوران پانی کے وقفے میں گرائونڈ کے ایک کونے میں کھڑے نماز ادا کر رہے ہیں۔ بعض لوگ اس پر بھی چیں بہ چیں ہوئے کہ میچ میں نماز کیوں پڑھی؟ بھئی کوئی کھلاڑی اگر وقفے میں نماز پڑھے تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟ وہ اس وقفے میں گانے سنے تو کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ مزے کی بات ہے کہ محمد رضوان پچھلے کچھ عرصے سے ٹاپ پرفارمر ہے۔ رضوان کی کارکردگی بری ہوتی تو نجانے کہاں کہاں سے اس پر طنز کے تیر برسائے جاتے۔ اس کے نماز پڑھنے کو بری کارکردگی کی وجہ بتایا جاتا۔
پاکستانی کرکٹ میں انضمام الحق اس حوالے سے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنے۔ انضمام الحق دراصل کرکٹر سعید انور کی کوشش سے تبلیغ اور مذہب کی طرف آئے۔ انضمام پر یہ بے بنیاد الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ ٹیم میں تبلیغی جذبات کو غیر ضروری طور پر ہوا دے رہے ہیں، ان کھلاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں جو تبلیغ میں وقت لگاتے ہیں جبکہ ان کی وجہ سے کھلاڑی پریکٹس کرنے کے بجائے تبلیغی بیان سنتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب الزامات غلط اور بکواس تھے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، ایک آدھ بارفراغت کے دنوں میں دو تین کھلاڑی انضمام کے ساتھ کوئی بیان سننے چلے گئے ہوں گے، جیسا کھلاڑی اکٹھے فلم دیکھنے یا ڈرامہ دیکھنے جائیں۔ انضمام الحق نے مصباح الحق کوٹیسٹ میچز نہیں کھلائے۔ ان کی جگہ نمبر چھ پر انضمام شعیب ملک یا عبدالرزاق کو کھلا دیتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مصباح کوموقعہ ملنا چاہیے تھا، عبدالرزاق اور شعیب ملک دونوں ٹیسٹ میٹریل نہیں تھے، ون ڈے کے لئے زیادہ موزوں۔ انضمام شائد ایسا اس لئے کرتے کہ ان دنوں مڈل آرڈر بیٹنگ بڑی مضبوط تھی، نمبر تین پر یونس خان، نمبر چار پر محمد یوسف اور نمبر پانچ پر انضمام خود۔ تینوں فارم میں تھے اور اکثر میچز میں تینوں میں سے دو نے سنچری بنائی ہوتی۔ انضمام الحق نمبر چھ پر آل رائونڈر کھلانے کو ترجیح دیتے کہ پانچواں بائولر میسر ہوسکے۔ اس کی وجہ مذہبی یا غیر مذہبی ہونا ہرگز نہیں تھا کیونکہ عبدالرزاق اور شعیب ملک دونوں میں سے کوئی بھی روایتی معنوں میں ٹھیٹھ مذہبی نہیں۔
ہمارے ساتھی صحافی محمود الحسن نے انضمام الحق کے دور میں چیئرمین کرکٹ بورڈ رہنے والے شہریار خان کا تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ شہریار خان نے ان تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ اگر کھلاڑی نماز کی پابندی کرنے لگے تو اس کا ٹیم کا فائدہ ہوا تھا۔ یہ بات سپورٹس رپورٹرز بھی بتاتے کہ تب اکثر کھلاڑی نماز فجر میں شامل ہوتے، اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ وہ رات کو وقت پر سو جاتے تاکہ نماز فجر کے بعد پریکٹس سیشن شروع کر سکیں۔ شہریار خان نے اس کی تردید بھی کی کہ انضمام الحق نے عاصم کمال کو مواقع نہیں دئیے۔ شہریار خان کے بقول یہ باب وولمر تھے جو عاصم کمال کی نہایت کمزور فیلڈنگ اور ناکافی فٹنیس کے باعث انہیں کھلانے کے مخالف تھے۔ باب وولمر کا نقطہ نظر تھا کہ کھلاڑی محمد یوسف کی کلاس کا ہو تو اس کی کمزور فیلڈنگ برداشت کی جا سکتی ہے، ہر کھلاڑی کو یہ رعایت نہیں مل سکتی۔
انضمام الحق کے حوالے سے ایک اور اہم بات قومی کرکٹ ٹیم کے ان دنوں واحد اقلیتی رکن دانش کییریا کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ہے۔ دانش کینیریا غیر مسلم (ہندو)تھے، مگر انضمام الحق نے انہیں بھرپور طریقے سے سپورٹ کیا۔ صحافی اور فکشن نگار اقبال خورشید نے دانش کینیریا کا انٹرویو کیا تو اس نے برملا اعتراف کیا کہ انضمام بھائی نے مجھے بہت پروموٹ کیا اور مسلسل مواقع دئیے۔ مزے کی بات ہے کہ دانش کینیریا لیگ سپنر مشتاق احمد کی جگہ پر کھیلے۔ مشتاق مذہبی اور تبلیغی ہونے کے ساتھ انضمام کے گہرے دوست بھی تھے۔ انکی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں تھی، اس لئے انضمام نے دانش کینیریا کو ترجیح دی۔ کچھ عرصہ قبل شعیب اختر نے اپنے یوٹیوب چینل پر انکشاف کیا کہ دانش کینیریا کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی، ان کے ساتھ ناروا سلوک رکھا گیا۔ اس کے بھی کوئی شواہد نہیں ملتے۔ دانش کینیریا کے ساتھی کرکٹراس تاثر کی تردید کرتے ہیں۔ شعیب اختر نے ممکن ہے اپنے وی لاگ کو سنسنی خیز بنانے کے لئے ایسا کیا ہو۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ جونیئر کھلاڑی ہونے کے ناتے دانش کینیریا کو کچھ رگڑا لگ گیا ہو، مگر اس میں ہندو، مسلمان کی کوئی تمیز نہیں۔ قومی کرکٹ ٹیم میں ہر جونیئر کھلاڑی کو کچھ رگڑا لگتا ہی ہے۔ خود عمران خان جب جونئیر تھے تو ان کے سینئر کھلاڑی مشتاق محمد نے انہیں چائے لانے کا کہہ دیا، عمران خان اس پر تلملا اٹھے تھے۔ عمران خان نے اپنی کتاب میں وہ واقعہ بھی بیان کیا ہے جس میں سعید احمد نے انہیں دانستہ کمرے سے نکلوانے کی پلاننگ کی اور کپتان، مینجر سے گوشمالی کرائی۔
سابق کرکٹر اور حالیہ ٹی وی اینکرپی جے میر2007ورلڈ کپ میں ٹیم مینجر تھے۔ قومی ٹیم ہار گئی تو انہوں نے الزام لگایا کہ کھلاڑی تمام وقت تبلیغی سرگرمیوں میں لگے رہتے تھے اور جہاز میں بھی آذان دے کر نماز پڑھنے لگے۔ اس وقت کے چیئرمین کرکٹ بورڈ نے میر کے ساتھ اپنی دوستی کے باوجود اس الزام کی تردید کی اور وضاحت کی کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے۔ انضمام الحق نے اس پر دلچسپ تبصرہ کیاتھا کہ جہاز میں ہم بیٹھے فلمیں دیکھتے رہیں، گانے سنیں، کسی کو اعتراض نہیں، نماز پڑھ لی تو غلط کر ڈالا؟
انضمام الحق پر کئی حوالوں سے تنقید ہوسکتی ہے، مگر اس میں مذہبی تفریق اور تبلیغ کا کوئی پہلو موجود نہیں۔ ایسا کرنا زیادتی ہوگی۔ اللہ محمد رضوان پر رحم کرے، لگتا تو یہی ہے کہ ہمارے لبرل کیمپ اور انگریزی میڈیا کے تیروں کا ہدف وہ بننے جا رہے ہیں۔