امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل کے ملزم عمر سعید شیخ کی عدالتی رہائی کے فیصلے اور تفصیلی پس منظر پر چار پانچ کالموں کی ایک سیریز لکھی تھی۔ اب اس سیریز کا سب سے اہم سوال زیر بحث ہے کہ یہ سب کیوں کیا گیا؟ ڈینیل پرل کو اغوا کرنے کا مقصد کیا تھا، اسے کیوں قتل کیا گیا اور عمر سعید شیخ کا اس میں ممکنہ حصہ کتنا ہے؟
ڈینیل پرل کو اغوا کرنے کے پیچھے کیا اسباب تھے، اس پر پچھلے سترہ اٹھارہ برسوں میں خاصاکچھ کہا اور لکھا گیا۔ ڈینیل پرل کی بیوی میریان پرل نے بھی اس پر بات کی۔ میریان کی کتاب پر بنی فلم" اے مائٹی ہارٹ" میں بھی یہ سوال پوچھا گیا۔ فلم میں میریان پرل اور ڈینیل پرل کی دوست اسرا نعمانی پرل کے اخبار وال سٹریٹ جرنل کے انٹرنیشنل ایڈیٹر جان بسی سے یہ سوال پوچھتے اور اس پر بحث کرتے ہیں کہ ڈینی یعنی ڈیننیل پرل ہی کیوں اغوا ہوا؟ (Why Danny?)۔ ایک فیکٹر تو امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کا ہے۔ امریکہ کا یہ موقر اخبار امریکی اسٹیبلشمنٹ سے قدرے قریب تصور ہوتا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ ان کے کسی رپورٹر کو برطانوی شو بمبار رچرڈ ریڈ کے حوالے سے ایک لیپ ٹاپ ملا۔ اخبار نے وہ لیپ ٹاپ امریکی اداروں کے حوالے کر دیا۔ میریان پرل نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو جان بسی کا برجستہ جواب تھا کیونکہ یہ ہمارے قومی مفادات کا سوال تھا، ہم نے یہی کرنا تھا۔ اس پر اسرا نعمانی اور میریان پرل دونوں کا تبصرہ تھا کہ چلیں ایسا کر لیا مگر اس کی خبر لگانا، تشہیر کرنا کیاضروری تھا؟ جان بسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
وال سٹریٹ جرنل کا رپورٹر ہونا بھی شائد ایک وجہ ہو، مگراغوا کی اصل وجہ ڈینیل پرل کا گورا اور امریکی ہونا ہے۔ اس کے یہودی النسل ہونے کے بارے میں اغوا کے وقت بہت کم لوگ جانتے تھے۔ عمر شیخ کو یقینی طور پر اس کا علم نہیں ہوگا۔ یہ بات اغوا کے بعد سامنے آئی۔ اپنے پچھلے کسی کالم میں یہ ذکر کیا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے پاکستانی نمائندے نے یہ خبر بھیجی جو شائع ہوگئی، اس پر ڈینیل پرل کی بیوی سخت برہم ہوئی، اس نے اخبار کو احتجاجی ای میل بھی بھیجی کہ ایسا کر کے آپ لوگوں نے ڈینی کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کر دئیے ہیں۔ ویسے اس حوالے سے ایک سازشی تھیوری یہ بھی ہے کہ امریکیوں نے دانستہ یہ خبر شائع ہونے دی، تاکہ جو ہونا ہے وہ ہوجائے اور اس کا تمام تر ملبہ القاعدہ اور اس کی حامی تنظیموں پر ڈال کر بے رحمی سے ان کا صفایا کر دیا جائے۔ تاہم یہ صرف سازشی تھیوری ہی ہے، میرے پاس اس پر یقین کرنے کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں۔
ڈینیل پرل کو اغواکرنے کا مقصد دنیا کی اس جانب توجہ مبذول کرانا تھی۔ اس اغوا کے جو مقاصد بیان کئے گئے، وہ ایسے نہیں تھے جو آسانی سے پورے ہوسکتے۔ عام طور پر تاوان کے لئے اغوا کئے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اغوا برائے تاوان کامیاب ہے کہ بیشتر لوگ پیاروں کی جان بچانے کے لئے ڈیمانڈ پوری کر دیتے ہیں۔ ہائی سکیورٹی قیدی رہا کرانے کا مطالبہ آسانی سے پورا نہیں ہوسکتا۔ حکومتیں اس لئے نہیں مانتیں کہ اس میں شکست اور سبکی کا پہلو بھی ہے، پھر ایسی باتیں مان لی جائیں تو ہر دوسرے چوتھے کوئی نہ کوئی اغوا کر لیا جائے۔ ڈینیل پرل کے اغوا کے مطالبات کی فہرست تو مزید طویل تھی۔ اس میں دیگر مطالبوں کے ساتھ پاکستان نے امریکہ سے ایف سولہ طیارے لینے کے لئے جو رقم دی تھی، اس کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ مطالبات پورے کرانے کی نیت سے کئے ہی نہیں گئے۔ مقصد عالمی میڈیا میں توجہ حاصل کرنا اور گوانتا ناموبے کے قیدیوں کی حالت ہائی لائٹ کرانا تھا۔
ڈینیل پرل کا اغوا نائن الیون واقعہ کے آفٹر شاکس سے منسلک ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ افغان طالبان کی حکومت ختم ہوگئی، طالبان اور القاعدہ کمانڈروں کو گرفتار کرکے گوانتے ناموبے بھیجا جانے لگا۔ القاعدہ، طالبان قیدیوں کو گوانتاناموبے بھیجے جانے کے واقعات کی خبریں آنے کے چند ہی ہفتوں میں ڈینیل پرل اغوا ہوگیا۔ پرل کو اغوا کرنے کے بعد دانستہ طور پر ایک دھاری دھار ٹریک سوٹ پہنا کر تصاویر کھینچی گئیں، اسے زنجیر سے باندھا گیا اور مخصوص انداز میں زمین پر بٹھایا گیا۔ یاد رہے کہ انہی دنوں گوانتاناموبے کے قیدیوں کی بھی اسی طرح کے لباس میں زنجیروں سے جکڑے ہوئے زمین پر ویسے بیٹھے ہوئے تصاویر شائع ہوئی تھیں۔ اغوا کاروں نے اپنی ای میلز میں یہ بات لکھی کہ جس طرح امریکہ مسلمان قیدیوں کے ساتھ کر رہا، ویسا ہی سلوک" امریکی ایجنٹ "کے ساتھ ہورہا ہے۔
امریکی ایجنٹ والی بات دانستہ گھڑی گئی تھی تاکہ عوامی سطح پر ہمدردی مل سکے۔ وال سٹریٹ جرنل اور سی آئی اے نے اعلان کیاتھا کہ ڈینیل پرل کا کسی امریکی ادارے سے تعلق نہیں، تب اس الزام میں ترمیم کر کے ڈینیل پرل کو یہودی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ یہ بھی غلط بات تھی۔ ڈینیل پرل ایک پروفیشنل صحافی تھا۔ طویل عرصے سے وہ اخبارات میں رپورٹنگ کر رہا تھا، اس کے آرٹیکل تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ اس کی بعض سٹوریز امریکی اسٹیبلشمنٹ اور ان کے دعوئوں کے خلاف بھی تھیں۔ خرطوم، سوڈان میں ایک دوائیاں بنانے کی فیکٹری پر امریکی طیاروں نے بمباری کی اور دعویٰ کیا کہ ہم نے دہشت گردی کا اڈہ ختم کر دیا۔ ڈینیل پرل نے وہاں جا کر تفصیلی رپورٹ بنائی جس میں ثابت کیا کہ یہ دہشت گردی کا اڈہ نہیں بلکہ فارماسیوٹیکل فیکٹری تھی اور اس حملے میں کئی سویلین شہری ہلاک ہوئے۔ ویسے بھی یہ توممکن ہے کہ کوئی صحافی کسی ایجنسی کے لئے کام کرے، مگر یہ ممکن نہیں کہ ایک پروفیشنل صحافی فیلڈ ایجنٹ بن کر ان کا نیٹ ورک چلائے۔ صحافت فل ٹائم پروفیشن ہے اور لکھنے کے لئے بہت وقت درکارہے۔ صحافیوں اور میڈیاہائوسزکو ایجنسیاں صرف اپنی مطلب کی خبریں فیڈ کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ کوئی نام نہاد(فیک) رپورٹر تو شائدایجنسیوں کے لئے فیلڈر پورٹنگ کرے، مگر عملی صحافی چاہیں بھی توایسا نہیں کر سکتے۔
ڈینیل پرل کے سی آئی ایجنٹ یا اسرائیلی ایجنسی موساد کا ایجنٹ ہونے کے شواہد موجود نہیں۔ ڈینیل پرل کئی دنوں تک اغوا کاروں کے قبضے میں رہا، مگر انہوں نے اس پر تشدد کر کے اس سے راز اگلوانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ اگر وہ امریکی یا اسرائیلی ایجنٹ ہوتا تو سب سے پہلے اس سے راز نکلوائے جاتے۔ نچلے درجے کے جو اغواکار بعد میں پکڑے گئے، انہوں نے ایسی کسی بات کی نشاندہی نہیں کی۔ واضح طور پر یہ عسکریت پسندوں کا بے بنیاد پروپیگنڈہ تھا۔
عمر سعید شیخ کا تعلق حرکت الانصار اور پھر جیش محمد سے رہا۔ معلوم مگریہ ہوتا ہے کہ اس ایڈونچر میں یہ کالعدم جہادی تنظیمیں ملوث نہیں تھیں۔ جیسی کسمپرسی ڈینیل پرل کے اغوا کاروں کی تھی، اس سے ان کے مفلس، لاوارث اور بے اختیار ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ دراصل ان دنوں کراچی میں کئی طرح کے مافیاز سرگرم تھے، شدت پسند تنظیموں سے لے کر انڈرورلڈ کے گینگسٹرز اور لسانی جماعتوں کے ٹارگٹ کلرز سے فرقہ ورانہ تنظیموں کے شدت پسندوں تک ہر کوئی پنجابی محاورے کے مطابق اپنا لُچ تل رہا تھا۔ لگتا ہے عمر سعید شیخ نے کالعدم تنظیموں میں اپنے ذاتی دوستوں کو استعمال کیا اور مختلف گروپوں سے لوگ لئے۔ کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا اکٹھا کرنے کی وجہ سے ہی پولیس اور تحقیقاتی ادارے ڈینیل پرل تک فوری نہ پہنچ سکے۔ اگر بڑی تنظیمیں ملوث ہوتیں، ان کے مرکزی نیٹ ورک سے یہ کام ہوا ہوتا تو جلد پتہ چل جاتا۔
ڈینیل پرل کے اغوا میں عمر سعید شیخ کے انوالو ہونے کے البتہ خاصے ثبوت موجود ہیں۔ جن دو افراد نے اخبارات کو ای میلز کرنا تھیں، وہ اپنا کمپیوٹر استعمال کرنے کی وجہ سے پھنس گئے۔ پکڑے جانے کے بعد انہوں نے عمرشیخ کو ماسٹر پلانر بتایا۔ جس شخص نے تصویریں ان آئی ٹی والے لڑکوں کو دیں، وہ بھی ہاتھ آ گیا۔ ان کے بعد پولیس نے روایتی حربے استعمال کر کے عمر شیخ کو بھی پکڑ لیا۔ باقی لوگ چونکہ الگ الگ تھے، ان کے ٹھکانے بھی معلوم نہیں تھے، اس لئے وہ آزاد رہے۔ ڈینیل پرل کے چار گارڈز میں سے ایک کسی اور جرم میں پکڑا گیا تو تھرڈ ڈگری ٹارچر پر اس نے پرل کے قتل کی تفصیل اگل دی۔ ا س کی لاش کے ٹکڑے جہاں دفن کئے، وہ جگہ بھی بتا دی۔ یہ واضح ہے کہ عمر شیخ نے ڈینیل پرل کو قتل نہیں کیا بلکہ اغوا کے بعد اس نے اسے دیکھا تک نہیں، وہ اغوا کے بعد کراچی تک نہیں گیا۔ ڈینیل پرل کے قتل کا القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد نے اعتراف کر رکھا ہے، اس لئے عمر شیخ قتل کے الزام سے بری ہوجاتا ہے، معاونت کا الزام ضرور لگتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر عمر شیخ ڈینیل پرل کو اغوا نہ کرتا تو وہ زندہ ہوتا۔
القاعدہ کاعمر شیخ سے کیا تعلق تھا، پرل سے کیا دشمنی تھی اور خالد شیخ محمد نے اسے قتل کیوں کیا؟ اس پر ان شااللہ بات کرتے ہیں۔