Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Dengue Ki Waba Mein Guzre Lamhaat

Dengue Ki Waba Mein Guzre Lamhaat

گارشیا مارکیز کا مشہور ناول وبا کے دنوں میں محبت (Love in the Time of Cholera)مجھے پسند رہا ہے۔ یہ بہت عمدہ ناول ہے، جس کا اردو ترجمہ بھی اچھا ہوا، اکادمی ادبیات پاکستان نے اسے شائع کیا ہے۔ اس میں ایک محبت کی اچھوتی کہانی ہے، مگرتب پھیلی ہیضہ کی وبا کا بھی ذکر ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں اپنے ملک میں ایسی وبائوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کورونا کے بعد ڈینگی بھی ایسی ہی وبا ہے۔ کوروناکی تباہ کاری بہت زیادہ تھی، مگر چونکہ اس نے دنیا بھر کو متاثر کیا، اس لئے اس کی ویکسین کے لئے غیرمعمولی بجٹ مختص کئے گئے اور وہ بروقت بن گئی۔ ڈینگی بخار البتہ ہمارے جیسے ملکوں کے لئے بہت خطرناک اور تکلیف دہ مرض بن کر آیا ہے۔ اس سے نمٹنا بھی ہمیں اپنے طور پر ہی پڑے گا۔

ڈینگی بخار چند سال پہلے خطرناک حد تک پھیلا تو میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، انہوں نے اسے روکنے کیلئے بے پناہ کام کیا اور حق یہ ہے کہ اس وبا کو بڑی حد تک ختم کرنے کا کریڈٹ انہیں ہی جاتا ہے۔ عمران خان تب اپوزیشن لیڈر تھے اور اپنے مخصوص بے رحمانہ، تذلیل آمیز انداز میں بجائے سراہنے کے وہ میاں برادران کو ڈینگی برادران کہہ کر اپنا غصہ نکالا کرتے۔ ڈینگی تب جتنا پھیل گیا تھا، اگر پنجاب میں شہباز شریف وزیراعلیٰ نہ ہوتے اور پی ٹی آئی کی تب حکومت ہوتی تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ لاکھوں لوگ نشانہ بنتے اور ان کاکوئی پرسان حال نہ ہوتا۔

آج ڈینگی پنجاب خاص کر لاہور جیسے شہروں میں خوفناک صورت میں پھیلا ہوا ہے، اس کی تمام تر ذمہ داری وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد پر عائد ہوتی ہے۔ اس سال ہر ایک کو نظر آ رہا تھا کہ بارشیں معمول سے زیادہ ہوئی ہیں۔ اگست میں ڈینگی سے بچائو کے لئے مچھر مار سپرے ہونے چاہیے تھے۔ نہیں ہوئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لاہور میں ہزاروں لاکھوں لوگ ڈینگی کا شکار ہوئے پڑے ہیں۔ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو صلواتیں سنانے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں رکھتے۔

خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ میں نے آج کل ایک نسبتاً صاف ستھری سوسائٹی میں کرایے پر پورشن لیا ہوا ہے، دفتر کے قریب ہونے کی وجہ سے مجھے یہ مناسب لگا۔ یہاں پر خاصا سبزہ ہے اور گھر کے قریب پارک بھی موجود ہیں۔ اگرچہ ہم نے اپنی روایتی سستی کے پیش نظر اس پارک کو لفٹ نہیں کرائی اور دور دور سے نظر ڈالتے ہوئے گزرجاتے ہیں۔ اس کے باوجود شائدکسی طرح ڈینگی مچھر کی افزائش ہوئی اور سوسائٹی کے کئی گھروں میں ڈینگی کے مریض ہیں۔ مجھے بھی تمام تر احتیاط (مچھر دافع لیکوڈ لگانے، گھر میں سپرے، جالیاں بند کرنے وغیرہ)کے باوجوددس بارہ دن پہلے ڈینگی بخار ہوگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی زندگی کے تکلیف دہ ترین دنوں سے گزرا۔ مسلسل 101، 102پر تیز بخار اور جسم میں سخت درد۔ یوں سمجھئے کہ ہر پل کانٹوں کی سیج پر گزرا۔ ڈینگی کو ہڈی توڑ بخار کا نام درست دیا گیا ہے۔

ڈینگی بخار کے بارے میں سب سے اہم بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک آپ اس سے بچ سکتے ہیں، تب تک ہی بہتری ہے۔ اس لئے زیادہ زور بچنے میں لگائیں۔ آج کل مکمل آستین والی قمیص پہنیں، پائوں میں جرابیں اور جسم کے کھلے حصوں (ہاتھ، پنڈلی، گردن، کان وغیرہ پر)مچھر دافع لیکوڈ جیسے موسپل وغیرہ لگائیں۔ گھروں میں جالی کے دروازے بند رکھیں، مچھر اگر ہیں تو مارنے کے لئے کوائل، میٹ یا لیکوڈ وغیرہ جلائیں۔ ، اپنے گھر اور آس پاس پانی جمع نہ ہونے دیں اور اگر محلے میں کسی کو ڈینگی ہوا ہے تو ہوشیار ہوجائیں۔ یہ یاد رکھیں کہ کسی ڈینگی کے مریض کو مچھر کاٹے گا تو اس میں ڈینگی وائرس آ جائے گا، پھر وہ مچھر جسے بھی کاٹے گا اسے بھی ڈینگی ہوجائے گا۔ اس لئے ڈینگی کے مریض کو مچھروں سے بچائو کی جالی میں رکھا جاتا ہے۔ ہو سکے تو ایسا کریں۔

مصیبت یہ ہے کہ ایک بار ہوجانے کے بعداس کا کوئی علاج نہیں۔ یہ وائرل فیور ہے۔ جب تک وائرس کی زندگی ہے، وہ زندہ رہتا ہے اورپھر سات سے دس دنوں کے بعد خود ہی مر جاتا ہے۔ جب تک بخار ہے، تب تک آپ صرف پیناڈول /پیراسیٹامول ہی استعمال کر سکتے ہیں، وہ بھی چھ گھنٹوں کے وقفے سے۔ اب یہ الگ مسئلہ ہے کہ پینا ڈول وغیرہ 100تک کے بخار کو کنٹرول کر سکتی ہے، ایک سو ایک یا ایک سو دو اس کی طاقت سے باہر کا معاملہ ہے۔ سو پیناڈول لینے کے بعد بھی تکلیف میں تھوڑی بہت کمی آ سکتی ہے، زیادہ نہیں۔ بروفین، ڈسپرین وغیرہ بخار اچھے طریقے سے اتار دیتی ہیں، مگر ڈینگی بخار میں انہیں استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس لئے تیز بخار اتارنے کے لئے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں ہی رکھنا پڑتی ہیں۔

دو تین چیزوں کا خیال رکھیں۔ ایک تو ان دنوں میں ہلکا یا تیز بخار ہونے کی صورت میں سب سے پہلا ٹیسٹ "کمپلیٹ بلڈ" کا کرائیں یعنی CBC۔ یہ بیس لائن ٹیسٹ ہوگا یعنی اس سے معلوم ہوگا کہ کیا پوزیشن ہے۔ سی بی سی ٹیسٹ لیبارٹریوں سے پانچ چھ سو میں ہوجاتا ہے، مگر ڈاکٹر کے نسخے سے ہر لیبارٹری اسے سو روپے میں کرنے کی پابند ہے۔ یہ شہباز شریف کی صوبائی حکومت کے دور میں ہوا تھا۔ اس لئے ڈاکٹر کے نسخے کی مدد سے نو ے یا سو روپے میں CBCٹیسٹ کرائیں، مگر یاد رکھیں کہ پہلے ٹیسٹ پر مطمئن ہو کر نہ بیٹھ جائیں۔ ڈینگی میں پلیٹلٹ عام طور پر دو تین چار دن بعد گرتے ہیں۔ اس لئے ہر دو دن یعنی اڑتالیس گھنٹوں بعد سی بی سی ٹیسٹ کراتے رہیں، ڈاکٹر ان کے موازنے سے اندازہ لگائیں گے کہ بخار نے کیا نقصان پہنچایا ہے؟ جس طرح کورونا میں آکسیجن سیچوریشن چیک کرنے کے لئے پلس آکسی میٹر کا ہونا زندگی کی ضمانت ہے، ڈینگی بخار میں سی بی سی ٹیسٹ کی وہی اہمیت ہے، اسے بالکل ہلکا نہ لیں۔ فوری یہ ٹیسٹ کرائیں اور پھر ہر دو دن یا زیادہ سے زیادہ تین دنوں بعد اسے دوبارہ کرائیں اور رپورٹس کسی مستند ڈاکٹر کو دکھائیں۔

ڈاکٹر بسا اوقات ٹائیفائیڈ، ملیریا اور ڈینگی وغیرہ کو مکس کر دیتے ہیں۔ سی بی سی ٹیسٹ انہیں تشخیص میں مدد فراہم کرتا ہے۔ بعض ڈاکٹر ایک نکتہ یہ بتاتے ہیں کہ ٹائیفائیڈ میں نبض معمول سے زیادہ سست ہوتی ہے جبکہ ملیریا اور ڈینگی کے تیز بخار میں نبض تیز چلتی ہے۔ ملیر یا کا بخار تیز ہوتا ہے اور وہ ایک سو چار تک چلا جاتا ہے، اس میں سردی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ ڈینگی کا بخار عام طور پر ایک سو دو تک جاتا ہے، اس میں سردی کم مگر جسم میں سخت درد محسوس ہوتا ہے۔ ڈینگی میں وائرس بون میرو (ہڈیوں کے گودے)پر دبائو بڑھاتا ہے، اس سے پلیٹلٹ کم ہونے لگتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ پلیٹلٹ خون کو گاڑھا کرتے ہیں، یہ کم ہوں تو خون پتلا ہونے لگتا ہے اور خطرناک حد تک گرنے سے ہیمبرج کا خطرہ رہتا ہے، ناک، منہ سے خون بہنے لگتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ پلیٹلٹ بڑھانے کا کوئی مستند طبی طریقہ نہیں، مختلف ٹوٹکے ہیں، جنہیں آزما لینا چاہیے مگر وائرس نے ختم ہونا ہوتا ہے اور پلیٹلٹ ایک بار کم ہونے (تیس چالیس اور بعض کیسز میں بیس ہزار تک)کے بعد خود بڑھتے ہیں۔

ڈینگی میں ہم عام طور سے فیور مینجمنٹ ہی کرتے ہیں، پینا ڈول ہر چھ گھنٹوں بعد لی جائے۔ ہمارے محترم دوست تجزیہ کار اور میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے مجھے مشورہ دیا کہ پیناڈول ٹیبلٹ کی جگہ" کالپول سکس پلس" کے دو چمچ ہر تین گھنٹوں بعد لئے جائیں۔ کال پول سکس پلس بھی پیراسیٹامول ہی ہے۔ مجھے تو اس کا بہت فائدہ ہو ااور بخار نیچے رہا۔ اس کی وجہ شائد یہ ہوکہ سیرپ جلدی جسم میں جذب ہوجاتا ہے اورٹیبلٹ کچھ وقت لیتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم تخلیقی ذہن رکھنے والے ڈاکٹر ہیں اور بہت کچھ پڑھتے پڑھاتے رہتے ہیں، ان کے ایسے نسخے ہمیشہ مفید رہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم ہی نے کئی برس پہلے مشورہ دیا کہ تیز بخار میں بار بار پسینہ آنے سے جسم کے نمکیات خارج ہوجاتے ہیں، ایسی صورت میں او آر ایسORSکا ایک ساشے پانی کی بوتل میں ڈال کر استعمال کیا جائے۔ ایسا کرنے سے جسم کی کمزوری کچھ ہی دیر میں بہت کم ہوگئی۔ یہ شاندار طبی نسخہ ہے۔

ڈینگی بخار میں زیادہ سے زیادہ مشروبات لینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی شکل میں ہوں۔ لوگ سیب کے رس، انار کے رس کا مشورہ دیتے ہیں، یہ سب مفید اور مزے دار ہیں، مگر مہنگے بھی پڑتے ہیں۔ اس لئے اگر پھلوں کا رس نہیں لیا جا سکتا تو سادہ پانی پی لیں، روح افزا، جام شیریں کا شربت لیں، گلوکوز، لسی وغیرہ بھی لے سکتے ہیں، شوگر کے مریض ظاہر ہے اپنی پیچیدگی کو سامنے رکھیں۔ مقصد یہ ہے کہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے پائے، ورنہ گردے متاثر ہوں گے۔ ممتاز سماجی کارکن اورموجودہ وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف جاہ نے پپیتے کے پتوں کا عرق بنوایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے پلیٹلٹ بڑھتے ہیں اور ڈینگی میں فائدہ ہوتا ہے۔ یہ شربت پپتیہ 449جہانزیب بلاک، سٹریٹ تیرہ، اقبال ٹائون لاہور میں کسٹم ویلفیئر سوسائٹی کے دفتر سے یہ دستیاب ہے، مہنگا نہیں، اس پر آنے والا مصرف ہی لیا جاتا ہے۔