آج، جمعہ کے دن کا اہم ترین سوال یہی ہے کہ نیب ریفرنسز میں احتساب عدالت سے کیا فیصلہ آ رہا ہے؟ کیا میاں نواز شریف اور ان کی اولاد، مع داماد کیپٹن صفدر، سب کو سزائیں ہوجائیں گی یا ان میں سے کچھ کے خلاف سزا اور بعض کے خلاف نرم فیصلہ آئے گا؟ اخبار صبح سویرے گھروں میں پہنچ جاتا ہے، ویب سائٹ پر آپ لوڈ البتہ چند گھنٹوں بعد ہوتا ہے، امکان یہی ہے کہ اخبار اور یہ کالم پڑھ لینے کے کہیں بعد ہی فیصلہ سامنے آئے گا۔
عدالتی فیصلوں کے بارے میں پیش گوئی کرنا مناسب نہیں، جج صاحبان میرٹ پر ہی فیصلہ کرتے ہیں اور خاص طور پر ایسا ہائی پروفائل کیس جو برسوں یاد رہے، اس میں تو غیر معمولی ذمہ داری سے تمام فیکٹ جانچے جاتے اور اس کی روشنی میں فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ کیس کی روداد اخبارات میں شائع ہوتی رہی، بعض کورٹ رپورٹرز بڑی محنت اور عرق ریزی سے تفصیلی رپورٹنگ کرتے رہے۔ وہ سب پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ بھلے وقتوں میں یعنی صحافت کی وادی میں قدم رکھنے سے پہلے قانون کی ڈگری ہم نے بھی حاصل کی تھی۔
والد مرحوم ہائی کورٹ کے سینئر وکیل تھے، انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں یعنی مجھے اور بڑے بھائی کو قانون کی تعلیم حاصل کا مشورہ نما حکم یا حکم نما مشورہ دیا تھا۔ کس میں جرات تھی کہ بڑے خان صاحب کے آگے پر مار سکتا، بسم اللہ کرکے لاء میں داخلہ لے لیا تھا۔ لاء کی ڈگری کہیں کاغذات میں پڑی ہوگی، اس قسم کے عدالتی فیصلے پڑھتے ہوئے مگر ہم خیال ہی خیال میں اپنی ڈگری جھاڑ پونچھ کرخود کو قانونی ماہر قرار دے ڈالتے ہیں اوراہم سیاسی مقدمات کو حسب استطاعت باریک بینی سے سمجھنے کی کوشش فرماتے ہیں۔
نیب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کیس کی تفصیلات کاجائزہ لینے سے ایک بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ بڑے میاں صاحب کے لئے بچنا آسان نہیں۔ وہ اپنے وکیل کی ہوشیاری، طراری کے باعث اخبارات، چینلز کے لئے سنسنی خیز بریکنگ نیوز بنوا سکتے ہیں، روایتی تعلقات استعما ل کرا کر ان خبروں کو اپنے سائز سے زیادہ کوریج دلا دیں گے، اس پر مریم بی بی اپنے میڈیا سیل کے تیار کردہ چٹ پٹے ٹوئٹ جاری کردیں گی، مگر جب تک ثبوت پیش نہ کئے جائیں، تب تک مقدمہ جیتا نہیں جا سکتا۔
مسلم لیگ ن کی میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیم نے واجد ضیا کی خوب بھد اڑائی، ان پر تیکھے، کٹیلے وار کئے، مگر فائدہ کوئی نہیں کہ جتنا نقصان واجد ضیا نے پہنچانا تھا، وہ انہوں نے کر ڈالا۔ وکیل گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اور کچھ پڑھنے وغیرہ کی عادت سے یہ سبق جلدی سیکھ لیا تھا کہ وکیلوں سے کبھی پنگا نہیں لینا، ان کے خلاف میڈیا تو کیا سوشل میڈیا پر بھی تبصرے نہیں کرنے کہ اگر کوئی سرپھرا وکیل بپھر گیا تو نوٹس دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس نے تو عدالت روز آنا ہے، ادھر ہم صحافیوں کے پاس تو بیمار ہونے کا وقت بھی نہیں۔
یحییٰ بختیار مرحوم مشہور وکیل تھے، بھٹو صاحب کے دور میں اٹارنی جنرل رہے اور بعد میں بھٹو کیس بھی انہوں نے لڑا۔ بعض قانونی ماہرین ان پر تنقید کرتے تھے کہ چونکہ بختیار صاحب فوجداری وکیل نہیں تھے، اس لئے انہوں نے کیس اچھا نہیں لڑا۔ یہ بات انہیں بہت ناگوار گزرتی، کئی بار ایسا ہوا کہ گستاخانہ تنقید لکھنے والے رپورٹر یا ایڈیٹر کو وہ کوئٹہ کی مقامی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے بلواتے اور پھر پیشی در پیشی کے ذریعے خوار کرتے۔
لاہور سے معتوب صحافی جہاز کا کرایہ بھر کر خود کو کوستا ہوا کوئٹہ پہنچتا اور پھر معلوم ہوتا کہ اگلے ماہ کی پیشی پڑ گئی ہے۔ دو چار جھٹکوں کے بعد وہ یحییٰ بختیارکے پاس حاضر ہوتا اور معافی طلب کرتا۔ ادیب جاودانی مرحوم ایک ڈائجسٹ نکالا کرتے تھے، وہ بتاتے تھے کہ کوششوں کے باوجود بختیار صاحب نے ان کی معافی کی درخواست قبول نہ کی اور ایک لاکھ روپے کراچی کے ایک مخیر ادارے کو دینے کی شرط پر دعویٰ واپس لیا۔ بقول ادیب جاودانی اس کے بعد انہوں نے طے کر لیا کہ زندگی بھر کسی وکیل کے خلاف اپنے ڈائجسٹ میں کچھ نہیں چھاپنا۔
مقصد یہ بتانا تھا کہ وکلا برادری میں سے کوئی منہ پھٹ وکیل یا ہمارے ممدوح انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی لا فیکلٹی کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق خان جیسا قانون کا استاد تو یہ کہہ سکتا ہے کہ میاں صاحب کی قانونی ٹیم انہیں چونا لگا رہی ہے اور نتیجہ شروع ہی سے صاف ظاہر ہے۔ یہ بات مگر ہم کہنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ ہماری دلچسپی فیصلے کے بعد کے ممکنہ واقعات پر ہے تجزیہ تو فیصلہ سننے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے، قیاس آرائی میں البتہ کوئی حرج نہیں۔ کالم کا پیٹ بھرنے کے لئے مفروضوں، اندازوں، قیاس سے بھی کام چل جاتا ہے۔ فیصلہ اگر شریف خاندان کے حق میں آ جائے تو پھر تو ظاہر ہے ان پر چھائے خدشات کے بادل فوری چھٹ جائیں گے۔ الیکشن تک پھر انہیں کوئی خطرہ نہیں، شائد وہ اگلی فلائیٹ پکڑ کر وطن آ دھمکیں۔ ہاں اگر فیصلہ خلاف جائے، تب میاں نواز شریف کا ردعمل بہت کچھ طے کرے گا۔ وہ جرات کا مظاہر ہ کرکے وطن واپس لوٹ کر جیل جانے کا رسک لیں گے؟ اگر ہاں تو اس کے لئے کس دن اور مناسب وقت کا انتخاب کیا جائے گا؟
میاں صاحب کے علاوہ مریم نواز شریف کا ردعمل بھی بہت اہم ہوگا کہ وہ اصل سیاسی وارث ہیں، شہباز شریف نہیں۔ مسلم لیگ کی سیاست کو سمجھنے والے ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں، " ن لیگ کا اصل لیڈر نواز شریف ہی ہے اور شہباز شریف کو ایک پریزینٹر سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں۔ وہ اچھی پریزینٹیشن تیار کرتے ہیں اور ان کا پنجاب ماڈل ن لیگ پیش کرکے دوسرے صوبوں سے کچھ ووٹ بھی لے لیتی ہے، مگر شہباز شریف صاحب میں لیڈروں والی خوئے دلنوازی نہیں۔ وہ کارکنوں میں مقبول ہیں نہ ہی ووٹر ان کی بات پر کان دھرے گا"۔
یہ بات اب سچ نکلی۔ شہباز شریف صاحب کراچی فتح کرنے کے جذبے سے گئے اور کچھ حاصل کرنے کے بجائے کراچی والوں کو خفا کرکے واپس لوٹے۔ جلسوں کا حال یہ ہے کہ سینکڑوں ٹکٹیں لیگی امیدواروں نے لی، کوئی سابق خادم پنجاب کو اپنے حلقے میں بلانے کے لئے تیار ہی نہیں۔ ہر ایک کی نظریں میاں نواز شریف پر ہیں کہ شائد وہ وطن واپس آ جائیں اور جیل جانے کے بجائے جلسے کرنے نکلیں۔ ایک آدھ جلسہ شہباز شریف صاحب نے کیا تو چند سو سے زائد لوگ جمع نہ ہوئے۔ وہ کراچی والوں کو یہ خبر سنا رہے تھے کہ پیپلزپارٹی نے اس شہر کو تباہ کیا، میں اسے لاہور بنا دوں گا۔ اتنے میں ایک بارش نے شہباز شریف کے لاہور کا سارا میک اپ، غازہ پائوڈر، سرخی اتار ڈالی۔ ایسی تباہ کن صورتحال پیدا ہوئی کہ دوسرے صوبوں والے جو کبھی رشک کی نظرسے لاہوریو ں کو دیکھتے تھے، یکایک کانپ اٹھے کہ بخشو جناب، ہم لنڈورے ہی بھلے۔
بارش کے بعد سارا دن ن لیگی سپورٹر سوشل میڈیا پر گوگل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر پیرس، لندن وغیرہ کی تصویریں لگاتے رہے کہ دیکھیں وہاں بھی ایسے بارش کا پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔ ہمارے جیسے ان سے عرض کرتے رہے کہ تصویریں ڈھونڈنے نکلے ہو تو ان شہروں کے سکول سسٹم، ہسپتالوں، پینے کے پانی، ٹرانسپورٹ سسٹم کی تصاویر بھی ڈائون لوڈ کر ڈالو، شائد کہ کچھ اپنے ہم وطنوں پر ترس آ جائے۔ صاف بات ہے کہ طوفانی بارش کا پانی تو کہیں بھی کھڑا ہوسکتا ہے، ہنگامی حالت پید ہوسکتی ہے، مگر لاہور پچھلے تیس برسوں سے اسی طرح کے حالات دیکھ رہا ہے۔
میں نے چھیانوے ستانوے میں لاہور کی جن جگہوں پر پانی کھڑا ہوتے دیکھا، آج بھی وہی علاقے ڈوب جاتے ہیں۔ آل شریف کو کتنا موقعہ ملا پنجاب اور خاص طور سے لاہور کی تقدیر بدلنے کا؟ دعوے بے پناہ اور کام کچھ نہیں۔ کئی بار لوگوں نے شہباز شریف صاحب کو سیوریج سسٹم ٹھیک کرنے کا مشورہ دیا، دروغ برگردن راوی جواب یہی ملا کہ میں اربوں روپے مٹی میں نہیں دبا سکتا۔ لاہور میں پانی کی نکاسی کا نظام ٹھیک ہوجائے، پانی کے زیرزمین پائپ نئے پڑ جائیں تو آلودہ پانی سے لاکھوں لوگ جس طرح بیمار پڑ جاتے ہیں، وہ مسئلہ ختم ہوجائے۔ ایسا مگر کون کرے؟ جب ترجیح جگمگاتے پندرہ بیس فٹ بلند پراجیکٹ ہوں تاکہ ووٹروں کو الو بنایا جا سکے، تب شہر کے اصل مسائل ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب لاہور سے باہر کے لوگ یہاں کی ترقی کی بات کرتے ہیں۔ بھائی تیس سال پہلے جس طرح کی پولیس تھی، آج بھی ویسی ظالمانہ، سفاک اور کرپٹ ہے۔
سرکاری سکول سسٹم پہلے گوارا تھا، اب بالکل ختم ہوچکا۔ سرکاری ہسپتال میں غریب پہلے بھی ذلیل ہوتا ہے، آج زیادہ ذلت اور خواری اس کا مقدر بنتی ہے۔ شہر پہلے خوبصورت اور درختوں سے سجا تھا، وہ شہر بے مثال نجانے کہاں کھو گیا، کوئی اس کا جواب نہیں دیتا۔ بات نیب عدالت کے فیصلے سے شروع ہوئی تھی۔ اس فیصلے پر مسلم لیگ ن کے سیاسی اور انتخابی مستقبل کا انحصار ہے۔ میاں نواز شریف دوراہا پر کھڑے ہیں، انہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کس راستے پر قدم بڑھائوں۔ اسی طرح میاں شہباز شریف بھی دو راہے پر کھڑے ہیں۔ انہیں بھی طے کرنا ہوگا کہ اپنے لئے کوئی آپشن پیدا کروں یا پھر جس انداز کی سیاست اب تک کرتا آیا، وہی کرتا رہوں۔