زمانہ طالب علمی میں فکشن کی کتابوں کے علاوہ جن نان فکشن کتب نے متاثر کیا، ان میں مولانا ابوالحسن علی ندوی مرحوم کی کتب کے علاوہ ڈاکٹر حمیداللہ کی کتاب خطبات بہاولپور سرفہرست تھی۔ یہ کہنا چاہیے کہ خطبات بہاولپور نے سحرزدہ کر دیا۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں یہ لیکچر دئیے تھے۔ طریقہ کار یہ ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب بغیر کسی نوٹس کے چند کاغذ کے چند ٹکڑوں کی مدد سے لیکچر دیتے اور پھر نماز کے وقفے کے بعد شرکا کے سوالوں کے جواب دئیے جاتے۔ کل بارہ لیکچر یا خطبات ہیں، "تاریخ قرآن مجید، تاریخ حدیث، تاریخ فقہ، تاریخ اصول فقہ واجتہاد، اسلامی قانون بین الممالک، دین (عقائد، عبادات، تصوف)۔" باقی چھ خطبے جناب رسالت مابﷺ کے دور میں رائج کئے جانے والے نظام کے مختلف پہلووں کے حوالے سے ہیں۔"عہد نبویﷺ میں مملکت اور نظم ونسق، عہد نبویﷺ میں نظام دفاع اور غزوات، عہد نبویﷺ میں نظام تعلیم، عہد نبوی ﷺ میں نظام تشریح وعدلیہ، عہد نبویﷺ میں نظام مالیہ و تقویم، عہد نبویﷺ میں تبلیغ اور غیرمسلموں سے سلوک۔"
ان تمام خطبات کی خاص بات عام شرکاکی جانب سے کئے جانے والے سوال جواب ہیں۔ ہم نے علما اور سکالرز کی جانب سے مختلف محفلوں میں سوالات کے جواب پڑھے، سنے اور دیکھے ہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ کا اپنا ہی خاص انداز ہے، اللہ ان پر اپنا خاص کرم فرمائے، علمی شائستگی، دلیل، انکسار اوربڑا فوکسڈ ٹودی پوائنٹ جواب دینا ان پر ختم تھا۔ مشکل سے مشکل اور گاہے تند وتیز سوالات کے جواب بڑے تحمل، بردباری اور کمال خوبصورتی سے دئیے۔ خطبات بہاولپور پڑھنا ایک شاندار تجربہ ہے۔ بعض کتابیں بار بار پڑھنے کے لائق ہوتی ہیں، یہ انہی میں سے ہے۔ آپ میں سے بہت سوں نے اسے پڑھا ہوگا۔ میرا مشورہ ہے کہ ہر دو چار سال بعد اسے پھر سے پڑھیں، لطف بڑھ جائے گا۔ جو لوگ تشکیک کا شکار ہیں، وہ جواب کے لئے دیگر کتب کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے خطبات بہاولپور سے ضرور استفادہ کر یں۔ لے۔ ان خطبات میں ڈاکٹر صاحب کی بعض آرا(یا تفردات)سے اہل علم نے اختلاف بھی کیا۔ بعض مضامین اور کتابیں بھی لکھی گئیں، ہمارے شہر احمد پورشرقیہ کے ممتاز عالم دین مولانا عبداللہ مرحوم نے بھی ایک رسالہ اس پر لکھا تھا، ڈاکٹر صاحب کی علمیت اور تقویٰ کا مگر مولانا عبداللہ نے بھی اعتراف کیا۔ بہ ایں ہمہ وہ دینی روایت سے جڑے ہوئے سکالر تھے۔ اپنی رائے پرکج بحثی نہ کرتے اور جب دلیل سے متاثر ہوتے تو رجوع کر لیتے۔ محترم مولانا زاہد الراشدی نے اپنے علمی جریدے الشریعہ میں ان کی وفات پر جو شذرہ لکھا، اس میں ڈاکٹر صاحب کے اس علمی رویے کا خصوصی تذکرہ کیا۔
سیرت ﷺپر ڈاکٹر حمیداللہ کی متعدد کتب اور بے شمار مقالہ جات ہیں۔ رسول اللہﷺ کی سیاسی زندگی، اسلام کا پہلا دستور وغیرہ بہت مشہور ہوئیں۔ احادیث کا سب سے قدیم مجموعہ ہمام ابن منبہ کی تلاش، تحقیق اور طباعت ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس سے منکرین حدیث کے اس اعتراض کا رد ہوا کہ احادیث کی تدوین صحابہ کرام ؓ کے دور میں نہیں ہوئی تھی۔ اس صحیفہ حدیث کے مرتب سیدنا ابوہریرہؓ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے قرآن پاک کا فرانسیسی میں ترجمہ بھی کیا، فرانسیسی میں سیرت پر بھی کئی کتابیں لکھیں۔ کہاجاتا ہے کہ اردو، انگریزی، عربی، فارسی اور فرانسیسی میں ڈاکٹر حمیداللہ پونے دو سو کے قریب کتب کے مصنف ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی اپنی زندگی بھی حیران کن تنظیم، سخت محنت، بے حدسادگی اور تقویٰ سے معمور رہی۔ وہ ہر اعتبار سے بڑے آدمی تھے۔ کھانے پینے اور سونے کے چند گھنٹوں کے علاوہ اپنے شب وروز کا ایک ایک منٹ احتیاط اور سلیقے کے ساتھ علمی تحقیق اور دین کی خدمت میں صرف کیا۔ بہت سادہ خوراک کھایا کرتے۔ زندگی کے آخری تیس چالیس برس پیرس، فرانس میں گزرے۔ اپنے اوپر خرچہ کم سے کم کرتے اور جو آمدنی ہوتی اسے دینی کتب کی اشاعت میں صرف کرتے۔ ایک ایسی سستی عمارت کی چوتھی منزل پر صرف ایک کمرہ کرایہ پر لیا ہوا تھا، جہاں لفٹ موجود نہیں تھی۔ چوراسی پچاسی سال کی عمر میں دن میں کئی بار 113 سیڑھیاں اترتے، چڑھتے رہتے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں اپنے لیکچرز (خطبات)کے بعد وائس چانسلر کی جانب سے ان کی خدمت میں اعزازیہ پیش کیا گیا تو اسی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیہ کو عطیہ کر دیا۔ جنرل ضیا کے دور میں انہیں سرکاری ایوارڈ دیا گیا، جس کے ساتھ دس لاکھ روپے بھی تھے۔ وہ رقم انہوں نے ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد کو عطیہ کر دیا۔ ظفر اسحاق انصاری راوی ہیں، ڈاکٹر حمیداللہ نے فرمایا:"اگر میں یہاں لے لیتا تو وہاں کیا ملتا؟ "رب کریم انہیں اجر عظیم عطا کرے۔ ایسے منورجگمگاتے لوگ آج کہاں میسر ہیں۔
ڈاکٹر حمیداللہ کے اس تذکرے کا سبب ایک اور مرد درویش، بلند پایہ سکالر جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بنے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ممتاز ماہراقبالیات، محقق، مولف، سفرنامہ نگار اور سکالر ہیں۔ وہ اورینٹیل کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر رہ چکے ہیں۔ اورینٹیل کالج میں شعبہ اردو کے سربراہ بھی رہے۔ اقبالیات اور اردو زبان وادب پر درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہیں دیکھ کر ڈاکٹر حمیداللہ کی یاد تازہ ہوتی ہے، وہی انکسار، علمی شائستگی، وضع داری اور غالباً ویسی دھان پان شخصیت۔ ڈاکٹر ہاشمی بھی اکیاسی بیاسی سال کی عمر میں متواتر علمی مشاغل میں مصروف ہیں۔ میں نے نیٹ پر ان کے حوالے سے سرچ کی تو معلوم ہوا کہ مشہور ادبی ویب سائٹ ریختہ (Rekhta.org)پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تصنیف کردہ پندرہ کتب موجو د ہیں جبکہ ان کی تالیف کردہ بارہ کتابیں بھی رکھی ہیں۔ یاد رہے کہ ریختہ ایک فری ویب سائٹ ہے جہاں سے اردو زبان وادب پر مختلف کتب مفت پڑھی جا سکتی ہیں۔
دو تین دن قبل ہمارے نوجوان دوست اور الخدمت کے پبلک ریلشننگ شعبہ سے وابستہ شعیب ہاشمی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو لے کر ہمارے دفتر آئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر ہاشمی شعیب کے پھوپھا اور ہمسایہ ہیں۔ شعیب ہاشمی بہت متحرک اور ان تھک محنتی شخص ہیں، ان کے شب وروز الخدمت کے لئے وقف ہیں۔ مجھے کچھ عرصہ قبل یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ شعیب نے پچھلے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو کورونا ویکسین کے ٹرائلز کے لئے پیش کیا تھا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنی مرتب کردہ تین کتابیں دیں۔ ان میں سے ایک" مکاتب ڈاکٹر حمیداللہ بنام محمد طفیل (پیرس)" ہے۔ محمد طفیل کانام آتے ہی ذہن میں مدیر نقوش طفیل صاحب یاد آجاتے ہیں۔ یہ طفیل صاحب مگر ایک سول سرونٹ تھے جو یونیسیکو میں برسوں ملازم رہے، پیرس میں مقیم رہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کے ساتھ ان کا گہرا دلی تعلق تھا۔ ڈاکٹر حمیداللہ کے ساتھ ان کی خط کتابت رہی۔ ان میں سے چھہتر خطوط اب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے شائع کئے ہیں۔ محمد طفیل صاحب کی رفیع ہاشمی صاحب سے بھی خط کتابت رہی۔ اس کتاب کے دوسرے حصے میں محمد طفیل (پیرس)کے چندخطوط بھی شامل کئے گئے۔
ڈاکٹر حمیداللہ کے خطوط ان کی مخصوص سادگی، اختصار پسندی اور نپے تلے جوابات کا مظہرہیں۔ ان کی نثر سلیس، شستہ اور دلکش ہے۔ خط لکھنے اور جواب دینے میں مستعد تھے، فوری جواب دیتے اگرچہ وہ مختصر ہوتا۔ ان کے خطوط کے بعض دیگر مجموعے بھی شائع ہوچکے۔ ڈاکٹر صاحب نے محمد طفیل صاحب کے نام اکثر خطوط کا آغاز بسم اللہ، باسمہ، باسمہ تعالیٰ حامدًومصلّیا، باسمہ تعالی شانہ سے کیا۔ اس کے بعد کبھی دعائیہ کلمات جیسے زاد مجد کم (آپ کے مقام و مرتبے میں اضافہ ہو)، کثراللہ فینا امثالکم (اللہ تعالیٰ ہم میں آپ جیسی مثالیں زیادہ کرے)، کان اللہ معکم(اللہ آپ کے ساتھ ہو)، متعنااللہ بطول حیاتکم(اللہ آپ کو طویل عمر عطا کرے)بھی لکھ دیتے۔ خطوط کے درمیان میں کہیں کہیں خوبصورت برمحل اشعار، عربی مقولہ یا حدیث بھی نقل کر دیتے۔
محمد طفیل کے نام خطوط زیادہ تر پیرس میں ڈاکٹر صاحب کی مصروفیات کے گرد گھومتے رہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ طفیل صاحب ڈاکٹر حمیداللہ کی کتابوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب انہیں جواباً اپنی مختلف کتب کے تراجم اور اشاعت وغیرہ کے حوالے سے بتاتے رہتے۔ چند خطوط میں ایک علمی بحث چھڑی۔ محمد طفیل کے خیال میں اسلام میں غلاموں اور غلامی کی ممانعت ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر حمیداللہ کا خیال برعکس تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آخر تک جائز رہی اور غلاموں سے اچھے سلوک اور انہیں آزادکرنے کی ترغیب کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام میں غلام بنانا حرام ہے۔ یہ بحث کئی خطوط میں چلی، ڈاکٹرحمیداللہ کا موقف دلچسپ ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں، " میں اسرائیل، جنوبی افریقہ اور اب روس کو بھی اس کا مستحق سمجھتا ہوں۔" جنوبی افریقہ کو شائد تب کی نسل پرست پالیسی کی وجہ سے اس صف دشمناں میں جگہ دی گئی۔ ایک اور جگہ ڈاکٹر صاحب نے توریت اور انجیل کے حوالے سے دلچسپ رائے دی ہے۔ ایک خط میں ڈاکٹر حمیداللہ نے بڑے کرب سے ذکر کیا کہ پیرس میں قادیانی سرگرم ہوگئے ہیں جبکہ فرانسیسی میں قادیانیت پر کوئی لٹریچر نہیں ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے بعد میں رد قادیانیت پر کتاب بھی تحریر کی۔
ڈاکٹر حمیداللہ کے خطوط واقعی معارف علمیہ کا خزانہ ہیں، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اردو کے قارئین کے لئے یہ علمی خدمت انجام دی۔ ڈاکٹرہاشمی کی دوسری کتاب"مجالس سید مودودی"کا تذکرہ رہ گیا، یہ بھی قابل مطالعہ کتاب ہے۔