Dolat Jis Ki Wazahat Na Ki Ja Sake
Amir Khakwani101
گزشتہ روز کے برطانوی اخبارات میں ایک دلچسپ سٹوری پڑھنے کو ملی، کاش ہمارا میڈیا اسے بھرپور کوریج دیتا کہ پاکستان جیسے ممالک میں ایسے واقعات کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ برطانیہ میں چند ماہ قبل (جنوری 2018) ایک قانون بنایا گیا جسے ان ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈر (unexplained wealth order)یعنی وہ دولت جس کی وضاحت نہ کی گئی ہو، کہا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت مشتبہ شخص کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی اس مہنگی جائیداد خریدنے کا ذریعہ بتائے، کہاں سے اس کے پاس اتنی دولت آئی کہ وہ ایسی پراپرٹی خریدنے کے قابل ہوسکا۔ عدالت کے حکم کے باوجود اگر وہ شخص وضاحت کرنے میں ناکام رہا تو پھر اس کی یہ جائیداد برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی ضبط کر سکے گی۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے ملک میں اربوں پائونڈز کی جائیدادیں کرپشن اور بلیک منی سے خریدی گئیں، لیکن ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمات چلانا، عدالتوں میں ثابت کرنا اور اثاثے ضبط کرنا ممکن نہیں۔ یہ قانون اسی لئے بنایا گیا، جس کے مطابق بجائے برطانوی اداروں کو ثبوت فراہم کرنے کے، مشتبہ شخص کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے یہ جائیداد اپنے جائز طریقے سے کمائے پیسوں سے خریدی ہے۔ اگر ثابت نہ کر پایا تو پھر برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی ہائی کورٹ کی مدد سے یہ اثاثے ضبط کر سکے گی۔ اس قانون کا پہلا ہدف آذربائیجان کی ایک خاتون بنی ہیں، جنہوں نے لندن کے مشہور مہنگے ترین سٹور ہیرڈز کے قریب ایک بڑا مہنگا عالی شان گھر خریدا۔ اس گھر کی مالیت ایک کروڑ پندرہ لاکھ پونڈبتائی گئی ہے، پاکستانی کرنسی میں یہ پونے دو ارب روپے کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ شروع میں اس خاتون کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا تھا۔ برطانوی میڈیا میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ عوام کو حقیقت جاننے کا حق حاصل ہے، اس خاتون نے عدالت کا سہارا لیا، مگر وہ کیس ہار گئی اور اب اس کا نام مشتہر کر دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق" مسز ضمیرہ حاجی ایوا"نامی یہ خاتون آذربائیجان کے ایک سابق اعلیٰ بینکر جہانگیر حاجی ایوا کی اہلیہ ہیں۔ مسٹر جہانگیر آذربائیجان کے انٹرنیشنل بینک کے سابق چیئرمین تھے اور ان پر کرپشن کے کئی الزامات عائد ہیں۔ دو سال پہلے انہیں مقامی عدالت سے پندرہ سال قید کی سزا اورانتالیس ملین ڈالر جرمانہ بھی ہوا۔ ان کی اہلیہ ضمیرہ حاجی ایوا نے نہ صرف ہیرڈز کے قریب واقع یہ مہنگا گھر خریدابلکہ ان کے بارے میں بتایا گیا کہ پچھلے دس برسوں کے دوران انہوں نے اس سٹور سے سولہ ملین پائونڈ کے قریب خریداری بھی کی ہے۔ یہ رقم یومیہ چار ہزار پائونڈ بنی ہے۔ خاتون اس قدر لالچی اور تُھڑی ہوئی تھیں کہ وہ آئے روز اس مہنگے سٹور جا کر ہزاروں لاکھوں پائونڈز لٹاتی رہیں۔ ایک دن ڈیڑھ لاکھ پائونڈ کی خطیر رقم مہنگے زیورات، پرفیوم وغیرہ پر لٹادی، کسی روز ہزاروں کی شراب خرید ڈالی، غرض مال مفت کو خوب بے رحمی سے لٹایا۔ اس مقصد کے لئے اپنے شوہر کے بینک کے پینتیس کریڈٹ کارڈ استعمال کر ڈالے۔ میڈیا کے مطابق اس نے ایک دوسرے علاقے میں مہنگا گالف کلب خریدا، جبکہ بیالیس ملین ڈالر کے جیٹ کے بھی مالکہ تھیں۔ یہ خاندان برطانیہ میں سرمایہ داروں کے لئے ایک خاص ویزا پروگرام کے تحت رہ رہا ہے۔ ضمیرہ حاجی ایوا نے عدالت میں ان تمام الزامات کو چیلنج کرنے اور اسے انسانی حقوق کا مسئلہ بنانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ اس نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت سے مداخلت کی اپیل بھی کی۔ برطانوی ہائی کورٹ کے سامنے یہ دلائل بھی دئیے کہ ان کے خاوند نے جائز طریقے سے یہ کمائے ہیں اور وہ بینکر ہونے سے پہلے ہی غیر معمولی امیر ہوچکے تھے۔ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے جواب میں عدالت کو آگاہ کیا کہ خاتون کے خاوند 1993 سے 2015ء تک ایک بینکر تھے اور صرف تنخواہ سے وہ یہ سب کچھ قطعی طور پر نہیں خرید سکتے۔ جہانگیر حاجی ایوا اور اس کی بیوی ضمیرہ حاجی ایوا اب عدالت میں الزامات کا سامنا کریں گی، اس کے قوی امکانات ہیں کہ ان کی کرپشن سے کمائی گئی جائیداد بحق سرکار ضبط ہوجائے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ایسے مزید کئی کیسز تیار پڑے ہیں جو عدالت کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ برطانیہ کا یہ ان ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈر بہت اہم اور غیر معمولی نوعیت کا قانون ہے۔ دنیا بھر میں کرپشن، بلیک منی اور منی لانڈرنگ کے خلاف لڑنے والے حلقے اس قسم کے قوانین کا مطالبہ برسوں سے کر رہے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں جنوبی ایشیا، سنٹرل ایشیائی ریاستوں، مڈل ایسٹ اور افریقی ممالک کے کرپٹ حکام یا اعلیٰ سطحی اہلکار اپنی لوٹ مار سے کمائی ہوئی دولت کے ذریعے بیرون ملک یہ جائیدادیں خریدتے ہیں۔ پہلے تو ایسے مطالبوں پر کوئی کان نہیں دھرتا تھا۔ خلیجی عرب ریاستیں ہوں یا امریکہ، برطانیہ، فرانس جیسے ممالک اس پر خوش تھے کہ چلیں دنیا بھر سے سرمایہ ان کے ہاں آ رہا ہے۔ دہشت گردی کے خوف نے البتہ سب کچھ بدل دیا ہے۔ اب دنیا بھر میں یہ بات طے ہوچکی ہے کہ منی لانڈرنگ (یعنی غیر قانونی طریقے سے پیسہ دوسرے ممالک میں بھیجنا)ہی دہشت گرد تنظیموں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ وہ بینکنگ کے قانونی طریقے سے تو پیسہ نہیں بھیج سکتے، منی لانڈرنگ کے مختلف طریقے استعمال کر کے پیسہ دہشت گرد نیٹ ورک کو بھیجا جاتا ہے۔ اسی لئے ہر جگہ قوانین سخت سے سخت تر ہوتے جا رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے ذریعے بنائی گئی جائیداوں کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ برطانوی میڈیا اور کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والے حلقے اس پہلے کیس کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں، انہیں توقع ہے کہ اب دوسرے لٹیروں کی بھی باری آئے گی۔ برطانیہ میں اس قانون پر کس حد تک عمل درآمد ہوپاتا ہے، کیا اس کی زد میں پاکستانی بھی آئیں گے یا ان کی طرف سے چشم پوشی کی جائے گی؟ ہمارے ادارے کوشش کر رہے ہیں کہ برطانیہ میں کرپشن اور لوٹ مار سے کمائی جائیدادوں کی نشاندہی کر کے ان لوگوں کو قانون کی گرفت میں لیا جائے۔ دیکھیں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟ میری دلچسپی البتہ اس میں ہے کہ اس طرح کا قانون ہمارے ہاں پوری قوت سے کیوں نافذ العمل نہیں ہوتا؟ ہمارے ہاں ایسی ہزاروں جائیدادیں موجود ہیں، جن کے خریدے جانے کا سورس ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ بے شمار بیوروکریٹ، بینکر، پولیس اہلکار اور دیگر بدعنوان لوگ مختلف بڑے شہروں میں کروڑوں کے گھروں اور نہایت مہنگے فارم ہائوسز وغیرہ کے مالک ہیں۔ کوئی ان سے یہ نہیں پوچھنے والا کہ تمہارے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ سرکاری تنخواہ سے تو ایک ہزار سی سی گاڑی ملنا بھی مشکل ہے تو اتنی جائیدادیں کیسے بن گئیں؟ ان میں سول اور نان سول سب شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے جو اثاثے سامنے آئے ہیں، وہ دو سو سال تک ملازمت کرتا رہتا، تب بھی نہیں خرید سکتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں کہ یہ کہاں سے آئے؟ ایسے اور بھی لوگ ہوں گے، جن کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نیب بنی توعدلیہ، فوج اور میڈیا کو اس کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا تھا۔ ان تینوں شعبوں میں احتساب کے لئے کوئی دوسرا سہی، مگرقابل اعتماد انتظام تو ہونا چاہیے۔ میڈیا کے نامی گرامی لوگوں کو بھی حساب دینا چاہیے کہ وہ دس بیس سال پہلے تک چند ہزار کی تنخواہ لیتے تھے، آج کروڑوں کی جائیدادوں کے مالک کیسے بن گئے؟ مجھے یاد ہے کہ جب بیس سال پہلے لاہور میں آیا، سمن آباد کے ایک جریدے میں ملازمت کرتا تھا، روزانہ ویگن میں بیٹھ کر وہاں جاتا، راستے میں ایک عالی شان کوٹھی نظر آتی، ایک روز پتہ چلا کہ فلاں ڈی ایس پی نے یہ شاندار گھر بنایا ہے۔ وہ اب ترقی کر کے اعلیٰ افسر لگ گیا ہو گا۔ اس سے پہلے کسی نے پوچھا، نہ اب پوچھے گا۔ ایسے بے شمار لوگ ہیں، جن کی ہر ایسی جائیداد ضبط کر لینی چاہیے، جس کی وضاحت دینا ممکن نہ ہو۔ پاکستان میں ایک حلقہ ناجائز طریقے سے کمانے والے سرمایہ کاروں کو کچھ نہ کہنے کی بات کرتا ہے، ان کے خیال میں کسی سرمایہ دار کو اگر پکڑا گیا تو سرمایہ ملک سے نکل جائے گا اور معیشت تباہ ہوجائے گی۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ برطانیہ جیسا سرمایہ داروں کی جنت میں بھی کرپشن اور لوٹ مار سے کمائی جائیدادوں کے لئے سخت قوانین بن گئے ہیں، ہمارے جیسے ممالک جہاں سے یہ سب لوٹا جا رہا ہے، وہ خاموشی سے تماشا دیکھتے رہیں؟ اصل میں یہ تھیوری ہی غلط ہے۔ جس نے لوٹ مار کی، اسے جواب دہ ہونا چاہیے۔ البتہ یہ کام سلیقے سے کیا جائے، میڈیا ٹرائل درست نہیں۔ شور شرابے کے بجائے ٹھوس ثبوت اکھٹے کر کے ہاتھ ڈالا اور پھر انہیں سخت سزائیں دے کر منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ یہی واحد حل ہے۔ عمران خان کی حکومت بلند وبانگ دعوئوں اور جرات مندانہ موقف کے ساتھ آئی ہے۔ اسے یہ سب کام کرنے ہوں گے۔ عمران خان کی مقبولیت اور ووٹ بینک کے پیچھے اس کے یہی وعدے ہیں۔ اگر یہ پورے نہ ہوئے تو پھر ہیرو سے زیرو ہوتے دیر نہیں لگے گی۔