Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Electables Ko Ticket Kion Milte Hain

Electables Ko Ticket Kion Milte Hain

آج کے کالم میں سوال، جواب کا ایک سیشن چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری بیٹی لائبہ خاکوانی کی ٹیچر ڈاکٹر ماہ نور نے اگلے روز ایک سوال ٹیکسٹ کیا کہ آپ کے خیال میں عمران خان کو پارٹی میں نئے آنے والوں کو ٹکٹ کیوں دینے پڑے ہیں؟ ، ہمارا اخبار پڑھنے والی فیصل آباد کی دو بچیوں نے اس سے ملتے جلتے سوال پوچھے، ایک نے تو کمال معصومیت سے یہ کہہ دیا کہ پہلے یہ بتائیں الیکٹ ایبلز سے مراد کیا ہے؟ الیکٹ ایبلز سے مراد مقامی سطح پر اثرورسوخ اور عوامی تائید رکھنے والا وہ مضبوط امیدوار ہے، جو محض اپنی کوشش سے نشست جیت لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اس میں وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو سیٹ نہ بھی جیت سکیں، لیکن بیس پچیس، تیس ہزار ووٹ وہ اپنے خاندان، برادری، سوشل ورک یا دیگر کوششوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ جنہیں الیکشن لڑنے کا تجربہ ہو، ان کے پاس پولنگ ایجنٹ کھڑے کرنے کے لئے افرادی قوت اور ووٹر کو گھر سے نکال کر پولنگ بوتھ تک پہنچانے کا نیٹ ورک موجود ہو۔ ہمارے ہاں حقیقی معنوں میں الیکٹ ایبلز زیادہ نہیں، چند ایک ہی ایسے تگڑے امیدوار ہوں گے جو بغیر کسی جماعت کی حمایت کے الیکشن جیت سکیں۔ زیادہ تر کو پارٹی کے ووٹ بینک کی ضرورت پڑتی ہے، اس لئے وہ کسی ایسی پارٹی کا انتخاب کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں پچیس تیس سے چالیس پچاس ہزار ووٹ تک مل سکیں (ہر حلقے کا اپنا حساب کتاب ہے، کہیں زیادہ ووٹ پڑتے ہیں تو کہیں کم)۔

یہ کم دیکھنے کو ملے گا کہ کسی اچھے الیکٹ ایبل نے پنجاب میں جے یوآئی ف یا جماعت اسلامی یا کسی ایسی چھوٹی پارٹی کا انتخاب کر لیا۔ الیکٹ ایبلز میں ہر قسم کے لوگ ملیں گے۔ اچھے، بہت اچھے، گوارا، ناپسندیدہ، کرپٹ اور کچھ تو مقامی سطح پر بدنام بھی ہوں گے۔ یہ یاد رہے کہ الیکٹ ایبلز سے مراد کرپٹ، لٹیرا یا استحصالی شخص نہیں۔ ان میں سے چند ایک جو وفاقی یا صوبائی سطح پر وزیر رہے، انہیں کرپشن کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا موقعہ مل سکتا ہے اور ایسے کئی مل جائیں گے جنہوں نے جی بھر کر بدنامی کمائی۔ بہت سے صرف ایم این اے یا ایم پی اے ہی رہتے ہیں اور وہ چاہیں بھی تو صرف اپنے حلقے کے ترقیاتی فنڈز میں کچھ خورد برد کے مزید کرپشن کرنا ان کے لئے آسان نہیں ہوتا۔ اچھے اور صاف ستھرے لوگ بھی موجود ہیں، جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ موجود نہیں اور جنہوں نے تمام زندگی صاف ستھرے طریقے سے سیاست کی۔

سیاسی اخلاقیات کے حوالے سے البتہ ان پر تنقید کی جا سکتی ہے کہ ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹیاں بدلتے رہے۔ الیکٹ ایبلز کو مختلف کیٹیگریز میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے جو دو تین نسلوں سے سیاست میں ہیں۔ ان کے دادا، پردادا قیام پاکستان سے پہلے سیاست کرتے تھے، والد ایوب خان کی بی ڈی اسمبلی کے ممبر رہے، سترکی پارلیمنٹ میں بھی ان کے خاندان کے افراد موجود تھے، یہ سلسلہ آج بھی چل رہا ہے۔ ایک بڑا حلقہ1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد وجود میں آیا۔

سیاسی جماعتوں کا بائیکاٹ تھا، اس خلاسے فائدہ اٹھا کر نئے لوگ داخل ہوئے، انہوں نے پیسہ خرچ کیا، ذات برادری کی طاقت کو استعمال کیا اور ارکان اسمبلی بن گئے۔ جنرل ضیاء نے یکے بعد دیگر تین بلدیاتی انتخابات کرائے، نچلی سطح پراس سے نئی سیاسی قیادت ابھری، جس نے بعد میں صوبائی اور قومی سطح پر بھی جگہ بنائی۔ اب تو خیر اس حلقے کی بھی دوسری نسل سیاست میں آ چکی ہے۔ الیکٹ ایبلز کی کچھ مجبوریاں بھی ساتھ چلتی ہیں۔ مقامی سطح پر ان کے خاندان مختلف وجوہات(زمین داری، روحانی گدیوں کی سجادہ نشینی، فیکٹریوں، اعلیٰ سول ملٹری ملازمت، سماجی خدمت، برادری)کی بنا پر معزز اور نمایاں ہیں۔ سیاست میں ایک بار آئے تو پھر باہر رہنا مشکل ہوگیا۔

کراچی اور لاہور، اسلام آباد کی شہری نسل پنجاب اور سندھی کی دیہی، قصباتی سیاست کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتی۔ وہاں انسانی جسم کا سب سے نمایاں عضو" ناک" ہے۔ بہت سے کام ناک اونچی رکھنے یعنی انا کی خاطر ہوتے ہیں۔ لوگ اپنی پگڑی اونچی رکھنے کی خاطر سب کچھ دائو پر لگا دیتے ہیں۔ الیکشن لڑنے والے گھرانوں کا ساتھ دینے والے ایک باقاعدہ سیاسی دھڑا بن جاتے ہیں، ایک دوسرے کا ساتھ دینا پھر مجبوری بن جاتی ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی سیاسی گھرانے کے رکن اسمبلی کی موت کے بعد اس کے اہل خانہ کو مجبوراً سیاست میں آنا پڑا۔ بیوہ یا بچوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی الیکشن لڑنا پڑا کہ اتنے لوگ ساتھ جڑے ہوئے تھے کہ ان سب سے منہ موڑنا ممکن نہیں تھا۔

سیاست ان گھرانوں کو مقامی سطح پر عزت، شہرت، اختیار اور طاقت دلاتی ہے، ایک فیکٹر پیسے کا بھی ہوگا، اس سے انکار نہیں مگر ہر الیکشن صرف پیسہ کمانے کی خاطر نہیں لڑا جاتا۔ پنجاب میں خاص طور سے دھڑے کی سیاست کا بہت اہم کردار ہے۔ ایک دھڑا اگر مسلم لیگ سے وابستہ ہوا تو دوسرا پیپلزپارٹی میں چلا گیا۔ دونوں کا اکٹھا رہنا مشکل بلکہ بہت سے کیسز میں ناممکن ہوجاتا۔ پچھلے چالیس برسوں سے پنجاب میں مسلم لیگ، پی پی پی سیاسی دھڑے بازی چلتی رہی ہے۔ پچھلے انتخابات سے اس نے ن لیگ بمقابلہ تحریک انصاف کی دھڑے بازی کی شکل اختیار کر لی۔ سیاسی جماعتوں کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں الیکشن صرف لڑنا نہیں بلکہ جیتنا پڑتا ہے، اس کے بغیر اقتدار میں آنا ممکن نہیں۔ ہر جماعت اپنے ساتھ ایک نظریہ لاتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگایا اور غریب طبقات کو آگے بڑھنے کا رومانس دکھایا۔

1988ء میں میاں نواز شریف نے پیپلزپارٹی بچائو نعرہ لگا کر تمام اینٹی بھٹو ووٹ کو اکٹھا کیا۔ نوے کے عشرے میں یہ دونوں آپس میں گتھم گتھا رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد سبق سیکھا اور ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت کی ٹھانی۔ ن لیگ نے اب اپنے ترقیاتی پراجیکٹس کو نعروں میں استعمال کرنا شروع کیا، فلائی اوورز، سڑکیں، میٹرو بس وغیرہ۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ مفاہمت کے ڈرامے میں اوور ایکٹنگ ہونے لگی تو لوگ بور ہونے لگے۔ عمران خان نے اس خلا کو تبدیلی کے نعرے سے پر کیا اور اپنی جگہ بنائی۔

عمران کا بڑا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے ان پڑھے لکھے طبقات میں دوبارہ سے سیاسی شعور اور دلچسپی پیدا کر دی، جو سیاست پر تین حرف بھیج چکے تھے۔ عمران نے کرپشن کو نیشنل ایجنڈا بنا دیا اور الیکشن دھاندلی کو بھی نمایاں کر دیا۔ ان تینوں جماعتوں نے اپنے اپنے انداز میں نظریہ کی قوت کو استعمال کر کے کارکنوں کا حلقہ تیار کیا، انٹیلی جنشیا، تاجر، صنعت کار، میڈیا وغیرہ میں اپنا اثرورسوخ پیدا کیا اور اسے الیکشن میں استعمال کیا۔ یہ مسالہ چلا اور خوب چلا، مگر اس کی ایک لمٹ(حد) بھی تھی۔ دیہی اور نیم دیہی، قصباتی سیاست میں کچھ پاکٹس ایسے آئے جہاں صرف کارکنوں کا خلوص، جذبہ اور کمٹمنٹ کام نہیں آسکا۔ وہاں پر مقامی سطح کی مضبوط شخصیات زیادہ کارآمد نظر آئیں، آزاد حیثیت میں یہ جیت جاتے، اس لئے انہیں ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی۔

بھٹو صاحب نے بھی اقتدار میں آنے کے بعد یہی کیا تھا۔ ستر کے الیکشن میں ان کے پاس آپشنز کم تھیں، طاقتور امیدواروں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ پیپلزپارٹی میدان مار لے گی۔ جب علم ہوگیا تو وہ شامل ہونے لگے۔ اب کون ہوگا جو اپنی پارٹی میں آنے والے مقامی سطح کے تجربہ کار، مضبوط سیاستدانوں کو شامل ہونے سے منع کرے؟ یہی کام بے نظیر بھٹو نے بھی کیا اور اسے عروج پر میاں نواز شریف نے پہنچا دیا۔ اب یہی کام عمران خان نے کیا ہے۔

مئی تیرہ کے انتخاب کے بعد تحریک انصاف دوسری بڑی جماعت بن گئی، اب اسے امیدواروں کا مسئلہ درپیش نہیں رہا۔ الیکشن جیتنے کے لئے مگر خالی امیدوار کافی نہیں، مضبوط ترین امیدوار منتخب کئے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی اور ن لیگ کے حامی ہی زیادہ تنقید کر رہے ہیں۔ اب بندہ ان سے پوچھے کہ آپ اپنی پارٹی کے امیدواروں پر نظر رکھو، پی ٹی آئی نے اگر فیصلے غلط کئے تو آپ کو خوش ہونا چاہیے، اچھے کئے تو آپ کو اس کا فائدہ پہنچنا نہیں۔

ایک نوجوان انجینئر یاسر چیمہ نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کی لسٹ پر تفصیل سے کام کر کے دلچسپ اعدادوشمار بھیجے ہیں۔ جس کے مطابق پی ٹی آئی نے ایک سو اٹھہتر میں سے104پرانے لوگوں (یعنی 2016، پانامہ کیس سے پہلے شامل ہونے والوں )کو ٹکٹ دئیے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے بیتس میں سے اکیس پرانے لوگ ہیں۔ شمالی پنجاب کے اکیس میں سے پندرہ تحریک انصاف کے پرانے ساتھی ہیں۔ سائوتھ پنجاب کے پینتیس میں سے آدھے یعنی سترہ پرانے، سنٹرل پنجاب کے اکتالیس میں سے انتیس اور مغربی پنجاب کے بائیس میں سے بارہ پرانے لوگ ہیں۔ زیادہ تروہاں (فیصل آباد، سرگودھا، سیالکوٹ، اٹک، جنوبی پنجاب)نئے لوگوں کو ٹکٹ دئیے گئے، جہاں پچھلی بار تحریک انصاف کو بڑے مارجن سے شکست ہوئی اور ان کے پاس تجربہ کار، مضبوط امیدوار نہیں تھے۔

نوٹ:میرے خیال میں سیاست کو الیکٹ ایبلز سے پاک ہوناچاہیے، لیکن اس کے لئے اصلاحات لانی ہوں گی۔ اگر الیکٹ ایبلز پر تنقید کرنے والے سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں الیکشن نظام تبدیل کرنے پر زور دینا چاہیے۔ یہ تبدیلی کیسے ممکن ہے، اس پر الگ نشست میں بات کریں گے)