Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Electables Se Kaise Jaan Churai Ja Sakti Hai?

Electables Se Kaise Jaan Churai Ja Sakti Hai?

الیکشن کا مرحلہ خاصا آگے جا چکا ہے، اگرچہ مختلف وجوہات کی بنا پر انتخابی مہم میں روایتی گرماگرمی نہیں پیدا ہوئی اور میری زندگی کے یہ سب سے پھیکے اور بے رنگ الیکشن لگ رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا، اگلے بدھ کو ان شااللہ پاکستانی عوام ووٹ ڈال کر اپنے نئے نمائندوں کا انتخاب کر رہے ہوں گے۔ ایسے میں اصل بحث اب ووٹوں اور الیکشن ٹرینڈز کی ہونی چاہیے کہ کہاں کون جیت رہا ہے اوراس کی وجوہات کیا ہیں؟ پارٹیوں کے ٹکٹ دینے کا ایشو اب پرانا ہوگیا، کن لوگوں کو ٹکٹ ملنا چاہیے تھے، کیسے الیکٹ ایبلز نے انہیں چاروں شانے چت کر کے عین وقت پر ٹکٹ اڑا لیا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب پرانی باتیں ہوگئیں، الیکشن سر پر آجانے کے بعد اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں، لیکن اس بار جو کھیل کھیلا گیا، اس کے آفٹر شاکس ابھی تک چل رہے ہیں۔ تجزیہ کار اس شاک یا ذہنی اذئیت کہہ لیں، اس سے باہر نہیں آئے۔ اگلے روز ہمارے محترم ومکرم اظہارالحق صاحب نے اس پر قلم اٹھایا، ان کی فسوں خیز نثر اورندرت خیال کے لاتعداد مداحین میں یہ اخبارنویس بھی شامل ہے۔ گزشتہ روز برادرم آصف محمود نے اپنے مخصوص جذباتی انداز میں اس پر پورا کالم لکھا اور پی ٹی آئی کے کئی ٹکٹ ہولڈرز کے نام گنواڈالے۔ اگر ان کے کالم میں گنجائش ہوتی تو شائد وہ ملک بھر کا جائزہ لے کر ایک مبسوط مقالہ نمافہرست مرتب کر ڈالتے۔ ان کی تحریر خلوص اور دردمندی سے معمور تھی، مجھے امید ہے کہ تحریک انصاف والے اسے مثبت تنقید کے زمرے میں لیں گے۔ الیکٹ ایبلز سے تحریک انصاف نے جس والہانہ" محبت "کا مظاہر ہ کیا، اس نے ہر ایک کو حیران کر دیا۔ میرے جیسے لوگ جو مختلف وجوہات کی بنا پر تحریک انصاف کے لئے قدرے نرم گوشہ رکھتے ہیں، وہ بھی دم بخود رہ گئے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف پر تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟ حل کیا ہے؟ تحریک انصاف یا کسی بھی سیاسی جماعت پر الیکٹ ایبلز یا مضبوط امیدوار وں کو ٹکٹ دینے پر تنقید اس وقت ادھوری اور تشنہ ہوجاتی ہے، جب ہم کوئی متبادل خاکہ فراہم نہ کر سکیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ پاور پالیٹکس ہے، لڈو کا کھیل نہیں کہ ہار جیت کا کوئی پروا نہ کرے۔ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی بڑی جماعت سیاسی میدان کے اصول وضوابط نظرانداز کر کے کھیلنا شروع کر دے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو اسی انداز میں کھیلنا پڑتا ہے، کوئی ٹیم اگر ٹیسٹ میچ کے انداز میں کھیلے گی تو بدترین شکست سے دوچار ہوگی۔ اس لئے ٹیسٹ کرکٹ کے حامی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کم کر کے ٹیسٹ میچز زیادہ سے زیادہ کھیلے جائیں۔ وہ جانتے ہیں کلاسیکل کرکٹ سٹائل کو بچانے کا یہی طریقہ ہے۔ ہم بھی اگر اپنے انتخابی نظام کو خالص اور خامیوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں تونئے قوانین وضوابط بنانے ہوں گے۔ محض اخلاقی بھاشن دینے سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ مسلم لیگ ن پرمیرے جیسے لوگوں کی اصل تنقید ہے ہی یہی کہ اس نے کھیلنے کے اصول ہی بدل ڈالے ہیں۔ سیاسی کلچر کو اتنا میلا، گند ا اور غیر نظریاتی کر دیا کہ اب صرف نظریاتی بنیاد پر سیاست کرنا اور جیتنا ممکن ہی نہیں رہا۔ الیکشن کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا، برادریوں، مقامی انتظامیہ، پولیس وغیرہ کا عمل دخل بڑھا، مڈل کلاس سیاسی کارکن پارلیمنٹ کے انتخابات تو درکنا ر بلدیاتی انتخابات سے بھی آئوٹ کر دیا گیا… یہ سب چیزیں پنجاب میں پچھلے دس برسوں کے ن لیگی دور حکومت میں عروج پر پہنچی ہیں، سندھ میں یہی کام پیپلزپارٹی نے کیا۔ ایک سینئر اور نہایت باخبر صحافی نے کچھ عرصہ پہلے بتایا تھا کہ پچھلی بار سندھ کے اہم سیاسی خانوادے کے سربراہ کو "مرد حر"نے بلایا اور کہا کہ ہماری پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑو، ایک قومی اور دو صوبائی کی سیٹیں ہم تمہیں دیتے ہیں اور ساتھ تیس کروڑ کیش بھی ملے گا۔ اس سندھی وڈیرے نے بعد میں اپنے دوستوں کو بتایا کہ ہمیں اور کیا چاہیے تھا؟ صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کا ٹکٹ، الیکشن کا کھلا خرچہ اور جیتنے کے بعد وزارت۔ یہی کام مسلم لیگ ن نے کیا، سنٹرل پنجاب کے کئی حلقوں میں ایسا ہوا۔ مثالیں دی جا سکتی ہیں، مگر کالم طویل ہوجائے گا۔ عرض یہ کرنا تھا کہ سیاسی کلچر اور الیکشن لڑنے کے اصول ہی بدل دئیے گئے، اسی لئے تاکہ دوسری پارٹیوں کو آئوٹ کیا جا سکے۔ جدید سائنسی سرویز نے کام مزید آسان کر دیا۔ مئی تیرہ کے الیکشن سے پہلے ان سرویز سے ن لیگ کو علم ہوا کہ پی ٹی آئی میں موجودچند الیکٹ ایبلز آسانی سے سیٹ جیت سکتے ہیں، فوراً ان سے رابطہ کر کے پرکشش ترغیبات کے ذریعے انہیں توڑا گیا اور یوں اویس لغاری، سکندر بوسن اور جہانیاں گردیزی جیسے لوگ ن لیگ کے ٹکٹ سے رکن اسمبلی بن گئے۔ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے کے مصداق تحریک انصاف نے بھی اس بار وہی حکمت عملی اپنائی۔ انہیں جہاں کہیں سے الیکٹ ایبل دستیاب ہوا، اسے فوری طور پر مفلر پہنا کر ٹکٹ تھما دی۔ یہ ظاہر ہے آئیڈیل ازم نہیں، اس کے پریکٹیکل ہونے سے مگر کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ الیکشن تو اب جیسے تیسے ہو ہی جائیں گے، سنجیدہ، سوچنے سمجھنے والے حلقوں کو چاہیے کہ وہ اس کے بعد انتخابی نظام میں وسیع تر جامع تبدیلیاں لانے کے لئے آواز اٹھائیں۔ کام قطعی طور پر آسان نہیں، لیکن اگر لکھنے، بولنے والے تجزیہ کار اور معاشرے کے فعال طبقات یکسو ہوں تو رائے عامہ کا دبائو بنایا جا سکتاہے۔ کالم کے شروع میں عرض کیا تھا کہ جب تنقید کی جائے تو حل ضرور تجویز کریں۔ اس مشورے پر خود عمل کرتے ہوئے چند ایک تجاویز دینا چاہتا ہوں۔ 1:لوٹا سیاست نے اس بار ہر ایک کومایوس کیا۔ بہت سے لوگوں نے پانچ سال ایک پارٹی کے ساتھ گزار کر عین وقت پر دوسری پارٹی کا ٹکٹ لے لیا۔ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں اگر ایسی ترمیم ہوجائے کہ کوئی بھی شخص کسی پارٹی کے ٹکٹ پر صرف اسی صورت الیکشن لڑ سکے گاجب اس نے کم از کم ایک سال پہلے اسے اعلانیہ جوائن کیا ہو۔ ایسی صورت میں عین وقت پر پارٹیاں بدلنے والوں کی بلیک میلنگ ختم ہوجائے گی۔ اسی طرح آزاد الیکشن لڑنے والے کے لئے بھی یہ لازم ہو کہ وہ پچھلے ایک سال سے کسی بھی پارٹی کا ممبر نہ ہو۔ اس طرح پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد کھڑے ہوجانے کی آپشن ختم ہوجائے گی۔ ان ترامیم میں سب جماعتوں کو فائدہ ہے کہ وہ اپنے طاقتور امیدواروں کی بلیک میلنگ سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہوجائیں گی۔ 2: اس تجویز کا عام انتخابات سے تعلق نہیں، اس کے لئے ایکٹ کے بجائے آئینی ترمیم کرنی پڑے گی، تاہم سینٹ میں انتخابات کا طریقہ کار بدل کر خواتین کی مخصوص نشستوں کی طرح کر دیا جائے تو ہر تین سال بعد کروڑوں، اربوں روپے کی خریداری کا جو بدبو دار، گھنائونا میلہ لگتا ہے، وہ بند ہوجائے گا۔ ہر تین سال بعد پارٹیاں اپنی فہرست دے دیں اور ان کے ارکان صوبائی اسمبلی کی تعداد کے مطابق ان کو سینٹکی نشستیں مل جائیں۔ ایم پی ایز کی بلیک میلنگ سے بھی جان چھٹ جائے گی، کوئی رکن صوبائی اسمبلی ناراض ہے، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سیاسی جماعتیں اگر چاہیں تو نظریاتی کارکنوں اور اچھے پروفیشنل لوگوں کو بلاخوف وخطر سینیٹر بنوا سکیں گی۔ 3: انتخابی اخراجات میں کمی لانا بہت اہم ہے۔ اس کے لئے دوتین طریقے ہیں، یا تو اخراجات کی حد کو سختی سے نافذ کیا جائے اورشروع میں ایک دو بار الیکشن کے بعد زیادہ اخراجات کرنے پر پچاس ساٹھ یا اس سے زیادہ ارکان اسمبلی نااہل کرنے پڑیں تب بھی کر دئیے جائیں۔ آئندہ سے ہر کوئی احتیاط کرے گا۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر متناسب نمائندگی کا نظام لایا جائے، جس میں شخصیات کے بجائے لوگ پارٹی کو ووٹ ڈالیں۔ اس سسٹم میں بہت سی خوبیاں اوراکا دکا خامیاں ہیں، ہم اپنے حالات کے مطابق اس میں تبدیلیاں کر سکتے ہیں۔ متناسب نمائندگی کے مختلف پیٹرن دنیا میں موجود ہیں، مصر سے ترکی اور جرمنی تک بہت ممالک میں یہ نظام چل رہا ہے۔ تیسرا طریقہ ترکی والا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ریاست کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کے لئے رقم دی جائے۔ یاد رہے کہ صرف اس جماعت کو پیسے ملتے ہیں، جس کی پہلے پارلیمنٹ میں نشستیں موجود ہوں، ہر ایری غیری جماعت پر قومی سرمایہ ضائع نہیں کیا جاتا۔ 4: سب سے آخر میں یہ کہ ووٹر پر بھی کوئی پابندی لگائی جائے۔ یہ امیدوار کی ڈیوٹی نہیں کہ اسے گھر سے سواری پر بٹھا کر ووٹ ڈالنے لے آئے اور قیمہ والے نان یا بریانی کھلائے۔ ووٹ ڈالناہر ووٹر کی لازمی ذمہ داری ہے۔ ترکی سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں ووٹ نہ ڈالنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی کسی بیماری یا ایسے کسی معقول عذر کے علاوہ ووٹ نہ ڈالنے والے پر پانچ ہزار جرمانہ عائد کیا جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہر بار ٹرن آئوٹ نوے فیصد سے زیادہ ہوگا۔ تب امیدواروں کے اخراجات میں ازخود کمی ہوجائے گی۔ ماہرین سے رائے لی جائے تو یقیناً اور بہت سی کارآمد تجاویز مل سکتی ہیں، اصلاح کی نیت ہونا البتہ لازم ہے۔