Faisla, Hungama, Muahida. Kis Ne Kya Hasil Kya?
Amir Khakwani104
پچھلے پانچ دنوں میں بہت کچھ ہو گیا اور خدا کا شکر ہے کہ بہت کچھ جو ہوسکتا تھا، نہ ہوا۔ ایک وقت آیا، جب یہ لگ رہا تھا کہ شائد ہمیں ایک اور لال مسجد، جامعہ حفصہ ٹائپ خونی آپریشن دیکھنے کو ملے۔ شکر ہے یہ نوبت نہیں آئی۔ معاہدہ ہوگیا، جس کے بعد فوری طور پر ٹکرائو کا خطرہ ٹل گیا۔ مستقبل میں کیا ہوتا ہے، کیا نہیں، وہ الگ ایشو ہے۔ سردست تو ملک بھونچال سے باہر آگیا۔ اب ہمارے پاس وقت ہے کہ آنے والے خطرات کو ٹالنے کے لئے پہلے سے سوچ سکیں۔ اس کے لئے مگر ضروری ہے کہ حالیہ واقعات کا جائزہ لیا جائے اور ضروری سبق سیکھے جائیں۔ یہ مشورہ ہرفریق کے لئے ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس واقعہ میں خاصا کچھ گنوایا ہے، مگر ان کی خوش قسمتی کہ آخری تجزیے میں وہ مکمل شکست خوردہ (Looser)انسان نہیں بنے۔ ان کا ایک دبنگ، نڈر اور کچھ بھی کر سکنے والے شخص کا تاثر بعض حلقوں نے بنا رکھا تھا، وہ امیج اب تھوڑا بہت دھندلا ضرور گیا ہے۔ احتجاج شروع ہوتے ہی خان صاحب ترنت ٹی وی پر آئے، قوم سے خطاب کیا اور مظاہرین سے اپیل کے ساتھ انہیں مضبوط الفاظ میں دھمکی بھی دی۔ ان کی ا س جارحانہ تقریر نے بہت سوں کو حیران بھی کر دیا۔ ہمارے سیکولر حلقوں نے تو عمران خان نے نجانے کیا کیا امیدیں وابستہ کر لیں۔ یہ اور بات کہ وزیراعظم کو جلد اندازہ ہوگیا کہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر بڑھکیں مارنا اور معاملہ ہے جبکہ حکومت میں آ کر عملی اقدام کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا، سمجھنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات اورسیاسی، مذہبی نزاکتوں کا اب عمران خان کو بخوبی ادراک ہوچکا ہوگا۔ اپنی دبنگ تقریر کے بعد انہیں غیر متوقع طور پربیک فٹ پر جانا پڑا۔ ایسا دفاعی کھیل خان صاحب کی فطرت نہیں، مگر یہ حالات کا تقاضا تھا، اسے نبھایا۔ ان کے اندر کا جارحانہ فاسٹ بائولر اس پر ضرور تلملا رہا ہوگا، مگر یہ پچ فاسٹ بائولنگ اور بائونسرز کے لئے نہیں تھی۔ زوردار تقریر اور دعوئوں کے باوجود ان کی حکومت کو پیچھے ہٹ کر مظاہرین سے معاہدہ کرنا پڑا۔ بظاہر اس میں ان کی کسی قدر سبکی کا عنصر ہے، لیکن اسکے علاوہ دوسری آپشن ہی نہیں تھی۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ جس احتجاجی انداز سیاست کو انہوں نے بام عروج پر پہنچایا تھا، اس کا اب خود نشانہ بن گئے۔ وہ جب دھرنے میں شعلہ بار تقریریں اور عوام سے سول نافرمانی جیسی انتہائی آپشنز کی اپیلیں کر رہے تھے، اس وقت تجزیہ کاروں نے کہا کہ اگر اقتدار انہیں ملا تو یہی سب کچھ ان کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ حالیہ احتجاج کے بعد وزیراعظم عمران خان کو اس پیش گوئی کی صداقت کا اندازہ ہوا ہوگا۔ انہیں سمجھ آ گئی ہوگی کہ ٹکرائو کا راستہ دکھانے کے کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کو عمران اور ان کے اتحادی ڈاکٹر طاہرالقادری بخوبی استعمال کرتے رہے۔ ویسا سانحہ نہ سہی، اس جیسے کسی اور المناک واقعے کا خوف کسی بھی حکومت کو بے بس کر سکتا ہے۔ یہ سبق تو عمران خان اور تحریک انصاف کو مل گیا ہوگا۔ حکومتی اور اتنظامی کمزوریاں بھی ان پر پوری طرح آشکار ہوچکیں۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے پنجاب میں کوئی حکومت یا وزیراعلیٰ ہے ہی نہیں۔ ایک کمزور، نمائشی وزیراعلیٰ بنانے اور اپنے اس غلط فیصلے پر سٹینڈ لینے کے بجائے اب خان صاحب کو حقائق کا سامنا کرتے ہوئے ٹیم لیڈر بدلنا چاہیے۔ آپریشن نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سول انتظامیہ میں یہ سب کرنے اور پھر اس کے مضمرات برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں تھی۔ اس حکومت کے ابتدائی دنوں سے یہ پتہ چل گیا تھا کہ انہیں اپنی میڈیا ٹیم بدلنا پڑے گی اورصرف منتخب وزیروں ہی کو بیانات جاری کرنے کی اجازت دینا پڑے گی، اس اس پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی۔ ان چند پریشان کن دنوں میں بھی حکومتی ترجمان وزیروں کی جانب سے غلطیاں بلکہ بلنڈر کئے جاتے رہے۔ خوش قسمتی سے ان کی بچکانہ حرکتوں کے باوجود آگ نہ بھڑک سکی، حالانکہ کوشش بھرپور تھی۔ یہ بحران شروع ہوا تو ایک صحافی دوست نے تبصرہ کیا کہ ن لیگی حلقے اس پر خوش ہیں کہ ان کے چار اہم ترین دشمن متنازع اور کمزور ہوگئے ہیں (براہ کرم مجھ سے چار نام لکھنے کی فرمائش نہ کیجئے گا، کچھ کام قاری کو بھی کر لینے چاہئیں )۔ اس وقت واقعی ایسا ہی لگ رہا تھا۔ بحران ختم ہونے کے بعد البتہ صورتحال بدل گئی ہے۔ عمران خان اور ان کی حکومت دبائو سے نکل آئی ہے۔ ایک حلقہ تنقید کر رہا ہے کہ جیسے حکومت نے توڑ پھوڑ اور املاک کو نقصان پہنچانے والے مظاہرین کو کچلنے کے بجائے ان سے دب کر معاہدہ کر لیا۔ یہ بتانے کے لئے کوئی تیار نہیں کہ دوسری آپشن کیا تھی؟ آپریشن میں اموات کا ہونا لازمی تھا۔ خونی آپریشن سے بچ کر مفاہمت کا راستہ ڈھونڈنا اور ایک طرح سے کچھ مہلت حاصل کرلینا ہر اعتبار سے درست فیصلہ ہے۔ اگر خدانخواستہ آپریشن ہوجاتا تو پھر اس کے نتیجے میں جو طوفان امنڈتا، تحریک انصاف کی حکومت اس کے سامنے نہ ٹھیر پاتی۔ معاہدے سے حکومت کو اخلاقی فتح حاصل ہوئی اور اب ان کے پاس وقت ہے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کاسدباب سوچ سکیں۔ مولانا خادم رضوی اس بحران کے بعد پہلے سے زیادہ طاقتور شخصیت بن کر ابھرے ہیں۔ وہ ایک متنازع شخص ہیں، ان کے بعض بیانات، خاص کر جارحانہ انداز میں کئی گئی دشنام طرازی نے ان کے بے شمار مخالف پیدا کئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پرمسلسل مخالفانہ تحریک چلنے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ان کے ساتھ کمیٹیدکارکنوں کا ایک حلقہ موجود ہے۔ حالیہ الیکشن میں انہوں نے اپنی ووٹ پاور ثابت کی، سٹریٹ پاور بھی ان کے پاس موجود ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت میں ختم نبوت کے حوالے سے چلائی گئی تحریک اور حالیہ احتجاج کے دوران یہ ثابت ہوگیا کہ وہ نہایت مختصر نوٹس پر اہم شہروں سمیت ملک بھر کو مفلوج کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ان کے تین چار منفی نکات بھی واضح ہوئے۔ ان کے کارکن توڑپھوڑ اور تشدد کے ذریعے ماحول کشیدہ اور غیر محفوظ تو بنا سکتے ہیں، پرامن موثر احتجاجی تحریک چلانا ان کے بس کی بات نہیں۔ خادم رضوی صاحب جذباتی انداز میں گفتگو اور دلائل دے کر کے ایک مخصوص حلقے پر اثرانداز تو ہوسکتے ہیں، ملک کے پڑھے لکھے فعال طبقات، اہل دانش اور میڈیا کو وہ قائل نہیں کر سکتے۔ ایسا علمی بیانیہ ہی نہیں جو پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں کو اپیل کر سکے۔ خادم رضوی کے بعض ساتھی رہنما عاقبت نااندیش اور ناسمجھ ہیں، جلسوں میں آگ برساتی تقریریں کرنا الگ بات، سرخ لائن کراس کر کے اہم ترین حلقوں کو ہدف بنانا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے جو ان سب کو جلا سکتی ہے۔ خود رضوی صاحب کے بارے میں یہ تاثر مستحکم ہوا کہ وہ ایک بے لچک، سخت گیراورغیر ضروری طور پر اَڑ جانے والے شخص ہیں۔ عربی محاورے کے مطابق "ایسی تیز دھار ہندی تلوار جو خود اپنی نیام کو کھا جاتی ہے۔" سٹریٹ پاور رکھنے والے ایسے کسی متلون مزاج، سرپھرے لیڈر کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ اور نظامِ حکومت رضوی صاحب جیسے لیڈروں کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ انہیں سسٹم کا حصہ بننا یا پھر اس سے خارج ہونا پڑے گا۔ رضوی صاحب کے حامی خوش ہوں گے کہ ہم نے اپنی قوت تسلیم کرائی۔ انہیں معلوم نہیں کہ اب "کٹ ٹو سائز "کی آزمائش سے واسطہ پڑے گا۔ ختم نبوت کے معاملے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کے منظرنامے میں پوری مذہبی قیادت ان کی پیروی کرنے پر مجبور ہوگئی۔ مولانا فضل الرحمن نے فوری احتجاجی تحریک کا اعلان کیا، جماعت اسلامی کے امیرکو اپنی ویڈیو سٹیٹمنٹ فوری جاری کرنا پڑی، دینی مدارس کے ایک بڑے نیٹ ورک کے اہم لیڈر کی مبینہ لیک آڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی، جس میں وہ خادم رضوی کی مقبولیت سے خائف لگے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں اور مذہبی تھنک ٹینکس کو اس حوالے سے خاصی سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے لئے نئی راہیں، نئے میدان تلاش کرنے ہوں گے۔ خادم رضوی کے معتقدین کی پامال زمینوں پر شعر کہنا ان بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائرہوچکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ قانونی روایات کے مطابق وہی بنچ کیس سنتا اور وہی وکیل دلائل دیتا ہے۔ ماہرین قوانین کے مطابق نظرثانی میں فیصلہ تبدیل ہونے کے امکانات ایک دو فیصد سے زیادہ نہیں ہوتے۔ فیصلے میں کسی قانونی سقم کی نشاندہی کرنے پر ہی تبدیلی کا امکان ہوتا ہے۔ ہمارے مذہبی حلقے پچھلے آٹھ نو برس تک آرام سے سوئے رہے اور پھر اچانک فیصلہ سنتے ہی ہڑبڑا کر بیدار ہوگئے۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ یہ قانونی اعتبار سے آخری موقعہ ہے۔ اپنے تمام وسائل اور ذہنی قوتیں یکجا کر کے بہترین طریقے سے کیس کے آخری مرحلے کو لڑیں اور یہ یاد رکھیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس لئے نہیں مانا جاتا کہ وہ بہترین ہوتا ہے بلکہ اس لئے کہ وہ آخری ہوتا ہے۔ آخر میں ایک وکیل دوست کا دلچسپ تبصرہ۔ کہنے لگے، " مشہور عدالتی قول ہے کہ انصاف کرو، چاہے آسمان ٹوٹ پڑے(Let justice be done though the heavens fall)۔ اس کا مطلب یہ کبھی کسی نے نہیں لیا تھا کہ سچ مچ آسمان ہی گرا دیا جائے۔ اگر ایسا کرنا ہی تھا تو پھر کچھ تیاری ہی کر لی جاتی۔"