پاکستانی سیاست کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں، یہاں کسی بھی وقت کچھ انہونا ہوسکتا ہے۔ ہموار طریقے سے جاری سفر اچانک جھٹکے سے رک جائے اور ہچکولے لینی والی گاڑی اچانک تیزرفتاری سے سفر شروع کر دے، یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ اس لئے سیاسی پیش گوئیاں کرنے والے ہمیشہ خطرے میں رہتے ہیں۔ کوئی پتہ نہیں وہ سو فی صد درست نکلے یا سرے سے غیر متعلق (Irrelevent)ثابت ہو۔
بہرحال اس وقت مختلف شکوک کے باوجود معاملات الیکشن کی طرف جا رہے ہیں۔ الیکشن کے التوا کی بظاہر کوئی علامت نظر نہیں آ رہی۔ صرف روحانی پیش گوئیاں ایسی ہیں جن کے مطابق الیکشن وقت پر نہیں ہوپائیں گے، معاملات کسی اور طرف نکل جائیں گے۔ بعض روحانی بزرگ تو تیقن کے ساتھ الیکشن کے التوا کی خبر سنا رہے ہیں۔
تجزیہ نگار مگر ظاہرہے روحانی شخصیات پر جتنا مرضی اعتقاد یا ان سے حسن ظن کریں، تجزیہ تو سامنے موجود واقعات اور ڈویلپمنٹ پر کیا جائے گا۔ اس لحاظ سے تو پچیس جولائی کے الیکشن والی تاریخ صرف چند ہفتے ہی دور ہے۔ نگران وزرااعلیٰ کا معاملہ بھی شکر ہے ایک کنارے کو لگ چکا۔ خیبر پختون خوا میں جسٹس ریٹائر دوست محمد کے نگران وزیراعلیٰ بننے پر حیرت ہوئی کہ انہیں ریٹائر ہوئے بمشکل دو ماہ ہوئے ہوں گے جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک کسی سیاسی منصب نہ سنبھالنے کی شرط موجود ہے۔
خدشہ تھا کہ شائد کوئی اسے چیلنج کر دے، اچھا ہوا کہ کسی نے ایسا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلوچستان میں ایک غیر معروف شخصیت کو یہ ذمہ داری سونپی گئی، فیصلہ وہاں کے الیکشن کمیشن نے کیا تو اسے بھی قبول کئے جانے کا امکان ہے۔ پنجاب کا معاملہ دلچسپ رہا۔ تحریک انصاف نے یکے بعد دیگر ے اپنے امیدوار تبدیل کئے، آخر میں ایاز امیر اور پروفیسر حسن عسکری رضوی پر اکتفا کیا۔
پارلیمانی کمیٹی میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کا اتفاق رائے نہیں ہوپایاتو فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا پڑا۔ قرعہ فال ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے نام نکلا۔ اس پر حیرت ہوئی کہ ن لیگ نے ان کی تقرری کی مخالفت کی ہے۔ شاہد خاقان عباسی سے لے کر شہباز شریف تک ڈاکٹر صاحب پر تنقید کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کی نکتہ چینی دلچسپ ہے۔
کہتے ہیں کہ رضوی صاحب ن لیگ پر اپنی تحریروں میں تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ جناب آپ دس سال اقتدار میں رہے ہیں، کون سا ایسا تجزیہ کار ہوگا جوکسی نہ کسی ایشو میں حکمران جماعت پرتنقید نہیں کرے گا؟ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا نگران وزیراعلیٰ بننا اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ طویل عرصے بعد کسی دانشور، استاد اور تجزیہ نگار کو یہ منصب سونپا گیا۔ ڈاکٹر صاحب پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں، مجھے ان سے پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا، مگر جو دوست ان کے شاگرد ہیں، سب ان کے علم وفضل، شرافت اور دیانت داری کے گن گاتے ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے بعض پروگراموں میں ان کے ساتھ بطور تجزیہ نگار شریک رہا ہوں، بعض ٹاک شوز میں بھی یہ موقعہ ملا۔ اس قدر ڈائون ٹو ارتھ شخص نہیں دیکھا۔ ہم جیسے طالب علموں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے رہتے۔ چند سال پہلے ایک اخبار کے لئے ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا تھا۔ ایک بار اپنے صحافی دوست کرامت بھٹی کے ساتھ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی سے وقت طے کیا اور بعض ایشوز کو سمجھنے کے لئے فیصل ٹائون میں ان کے گھر گیا۔ اب تو وہ کسی اور جگہ شفٹ ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نہایت سادہ مزاج آدمی ہیں، شادی نہیں کی، اکیلے رہتے ہیں، سادہ ڈرائنگ روم، میز پر کتابیں، علمی جریدے رکھے تھے۔ خود فریج سے کولڈ ڈرنکس نکال کر لائے اور بے تکلفی سے گپ شپ شروع کر دی۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی فکری اعتبار سے لبرل سوچ رکھتے ہیں، مگر ان میں کمال کا اعتدال پایا۔ سیکولرازم اور پاکستانی سیکولرسٹوں پر ہمارے بعض اعتراضات تھے، نہایت سکون سے بات سنی اور بڑے تحمل سے جوا ب دئیے۔ کئی غلطیوں کا اعتراف کیا اور خالص علمی انداز میں پاکستانی سیکولرازم کے علمبرداروں کا احتساب کیا۔
دیسی لبرلز میں مذہب اور اہل مذہب کی تضحیک، تحقیر کا جذبہ ابل ابل کر باہر آتا ہے، ڈاکٹر حسن عسکری ایسے کسی بھی عیب سے پاک معلوم ہوئی۔ انگریزی اخبارات میں وہ لکھتے رہے ہیں، بطور قاری ان کے ٹھوس تجزیے اوردیانت داری کا معترف رہا۔ یہ البتہ محسوس ہوا کہ بتدریج ان کے خیالات میں تبدیلی آئی اور وہ ایک نیشنلسٹ کے طور پرکھل کر لکھنے لگے ہیں۔ غیر ملکی این جی اوز کے ایجنڈوں پر کام کرنے والوں کو ہر وہ شخص ناقابل قبول ہے جو بطور پاکستانی سوچے، اسی لئے ان لوگوں نے ڈاکٹر رضوی کو پرو اسٹیبلشمنٹ کہنا شروع کیا۔
پرو پاکستان اور پرو اسٹیبلشمنٹ ہونے میں بڑا فرق ہے۔ وہ ایک دیانت دار، شریف معتدل شخص کی ساکھ رکھتے ہیں۔ جسے خریدا نہیں جا سکتا، ایمانداری کے ساتھ سونپی گئی ذمہ داری جو پوری کر سکے۔ ان کی کسی رائے یا مضمون سے ممکن ہے کوئی اختلاف کرے۔ تجزیہ کار مگر مختلف واقعات اور ایشوز پر لکھتے رہتے ہیں اور کسی جماعت یا شخصیت پر ان کی تنقید کواس کی مخالفت یا دشمنی نہیں سمجھنا چاہیے۔
مسلم لیگ ن کوا پنی الیکشن مہم پر توجہ دینی چاہیے۔ نگران وزیراعلیٰ کی مخالفت کر کے وہ خواہ مخواہ کا تنازع پیدا کر رہے ہیں، جس سے انہیں ہی نقصان پہنچے گا۔ تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے کنفیوز کرنے والے دن چل رہے ہیں۔ ریحام خان کی کتاب تو ابھی نہیں آئی، اس کا پہلے سے دبائو انہوں نے لے لیا ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ اب ٹکٹوں کا فیصلہ کر کے میدان میں اتر آئے۔ ایک بھرپور الیکشن مہم ہی اسے پنجاب جتوا سکتی ہے۔
پنجاب میں صرف ساٹھ ستر قومی اسمبلی کی نشستیں اہم نہیں، اگر تحریک انصاف پنجاب کی صوبائی حکومت جیتنا چاہتی ہے تو اسے پنجاب کی نوے پچانوے قومی اور دو سو کے قریب صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتنا ہوں گی۔ عمران خان کو ایسا کرنے کیلئے بھرپور انتخابی مہم چلانی پڑے گی۔ بنی گالہ میں بیٹھ کر وہ پنجاب کا معرکہ نہیں جیت سکتے۔ الیکشن میں وقت زیادہ نہیں رہا، عمران خان کو آنے والے خدشات کے ڈر سے نکل کر جارحانہ انداز اپنانا ہوگا۔ تحریک انصاف کے لئے ٹکٹوں کا اعلان بھی درد سر سے کم نہیں۔ اتنے زیادہ امیدوار آ چکے ہیں کہ کسی ایک کو ٹکٹ دینے کی صورت میں کسی نہ کسی امیدوار نے ناراض ہو کر احتجاج کرنا ہی ہے۔
عمران خان کے لئے پارٹی کے پرانے رہنما اور امیدوار بھی ایک مسئلہ بن چکے ہیں۔ مئی تیرہ کے انتخابات میں خان نے متعدد نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دئیے۔ الیکشن سائنس سے نابلد ہونے اور عوامی سیاست کا تجربہ نہ ہونے کے باعث ان میں سے بیشتر ضمانتیں ضبط کرا بیٹھے یا پندرہ بیس، پچیس ہزار ووٹ لے کر بری طرح شکست کھا گئے۔
یہ ووٹ بھی انہیں عمران خان کی سیاسی لہر کی بدولت ملے، ورنہ ان میں سے بہت سے اپنے طور پر کونسلر بھی نہیں بن سکتے۔ اس بار عمران خان کے پاس آپشن موجود نہیں۔ کسی کو اچھا لگے یا برا، پنجاب اور کے پی میں اسے اچھے اور مضبوط امیدواروں کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں خاص طور سے ن لیگ کی گہری جڑوں والے وسیع نیٹ ورک کو شکست دینے کیلئے مضبوط امیدوار چاہئیں۔ جنہیں الیکشن لڑنے کا تجربہ ہو اور وہ ن لیگ کے روایتی امیدواروں سے الیکشن بچا بھی رکھ سکیں۔
عمران خان کو مشکل فیصلے کرنے ہی پڑیں گے، مگر انہیں چاہیے کہ وہ اپنے پرانے کارکنوں اور ساتھیوں کو اعتماد میں لیں۔ اپنے نقطہ نظر کو ان پر واضح کریں اور ایسا بیانیہ تشکیل کریں، جو پرانی تحریک انصاف اور ووٹروں کے لئے قابل قبول ہوسکے۔ مسلم لیگ ن کے پاس امیدوار بھی موجود ہیں اور الیکشن لڑنے والی روایتی مشینری بھی، انہیں یہ دیکھنا ہے کہ کون سے ایسے امیدوار ہیں جو جیتنے کے بعد ان کے ساتھ وفادار رہ سکیں۔
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کے لئے الیکشن سے پہلے کا یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ درست فیصلے انہیں کامیابی سے ہم کنار کرا سکتے ہیں اور غلط اندازے اگلے پانچ برس حز ب اقتدار کی جگہ حزب اختلاف میں جگہ دلا دیں گے۔