تاریخ اپنا فیصلہ لازمی سناتی ہے، مسئلہ ان جذباتی لوگوں کا ہے جو اتنا انتظار نہیں کر پاتے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ہم لوگ نظریات سے زیادہ شخصیات سے وابستہ رہتے اور گاہے اس پر فخر کرتے ہیں۔ ہر ا یک کا اپنا ہیرو اور ولن ہے، ان کے لئے تاریخ میں مقامات بھی اس نے ازخود طے کر رکھے ہیں۔ ہیرو ظاہر ہے سنہری الفاظ سے سجے جگمگاتے سنگھاسن پر براجمان ہوگا اور ولن کے مقدر میں ذلت کی اتھاہ گہرائیا ں ہی ہوں گی۔ تاریخ کا فیصلہ ذاتی خواہشات، پسند، ناپسند سے ماورا ہوتا ہے۔ تاریخ کا اعلان کردہ فیصلہ کسی ایک مورخ یا محقق نے نہیں سنانا، اس کی تشکیل میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ایک وقت مگر ایسا آتا ہے، جب اجتماعی انسانی دانش کسی ایک نتیجے پر پہنچ جاتی ہے اور جب وہ اپنا حکم سنا دے، تب اسے ہر ایک کو کسی نہ کسی سطح پر تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔
تاریخ کے ان فیصلوں سے جنگ کرنا ایک کارلاحاصل ہے۔ غالباًلیجنڈری چینی رہنما مائوزے تنگ نے انقلاب کے حوالے سے کسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے یہ مثال دی تھی کہ کسی ساحل پر ایک بڑھیا کی جھو نپڑ ی تھی، روزانہ پانی کی لہریں جھونپڑی میں در آتیں، بڑی بی جھاڑو اٹھا کر پانی باہر نکالتی رہتی، لوگوں نے مشورہ دیا کہ پانی تو آتا رہے گا، تم اپنی کٹیا اٹھا کر کسی اور جگہ لے جائو، بڑھیا نے طنطنے کے ساتھ جواب دیا، میں سمندر کی لہروں سے لڑتی رہوں اور کبھی ہتھیار نہیں ڈالوں گی۔
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بڑھیا کی جنگ کا کیا انجام ہوا ہوگا؟ تاریخ کے بعض فیصلے اٹل اور اپنے اندر ایسی قوت رکھتے ہیں کہ ان سے جنگ بے فائدہ اور بے ثمر ثابت ہوتی ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے اجتماعی انسانی شعور اور دانش نے ایک فیصلہ سنا رکھا ہے۔ پرامن انتقال اقتدار کا یہ اس وقت تک سامنے آنے والا سب سے بہتر اور مناسب طریقہ ہے۔ ہر طریقہ کار میں کچھ خامیاں رہ جاتی ہیں، اس میں بھی موجود ہیں، مگر جو دیگر انتقال اقتدار کے طریقہ کار سامنے موجود ہیں، وہ زیادہ برے اور ناقابل عمل ہیں۔
جمہوریت اس لئے اس وقت دنیا بھر میں ایک معقول، منطقی اور فطری سسٹم سمجھا جاتا ہے۔ اس کو چیلنج کیا گیا، مگر بتدریج وقت نے یہ ثابت کیا کہ جنہوں نے اسے للکارا تھا، ان کا نظام زیادہ برا اور نقائص سے بھرپور ثابت ہوا، بتدریج دوسرے سسٹم ناکام ہوئے اور جمہوریت ہی فاتح ثابت ہوئی۔ ہماری اسلامی تحریکوں نے جمہوریت اور جمہوری نظاموں کا بغور مشاہدہ کیا، اس کی خامیوں، مختلف ممالک میں اس کے تجربات، ردعمل کا جائزہ لیا اور انہیں جمہوریت کچھ خامیوں کے باوجود نسبتاً بہتر محسوس ہوئی۔
عالم اسلام کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون نے جمہوریت بلکہ پارلیمانی جمہوریت کی حمایت کی۔ سید حسن البنا شہید کی اس موضوع پر تقریریں موجود ہیں۔ چند سال پہلے مصر جانے اور اخوان کی اعلیٰ قیادت بشمول ان کے مرشد عام کاانٹرویو کرنے کا موقعہ ملا۔ اخوان کے قائدین جمہوریت کے حوالے سے یکسو اور واضح تھے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کسی بھی نوعیت کے فوجی یا خفیہ انقلاب کی نہ صرف شدید مخالفت کی، بلکہ یہ تک کہا کہ ہم انقلاب کی اصطلاح کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور ریفارمز کی بات کرتے ہیں۔
عرب سپرنگ کے بعد مصر کی فوجی حکومت نے اخوان پر کریک ڈائون کیا، ان پر بے پناہ ظلم وستم ہوئے، مگر اخوانی رہنما اور کارکن پرامن جمہوری جدوجہد کے راستے سے نہیں ہٹے۔ جماعت اسلامی بھی پاکستان اور دنیا کی اہم اسلامی تحریک ہے، سید موودی اس حوالے سے اس قدر واضح اور یکسو تھے کہ انہوں نے کہیں، کسی بھی مرحلے پر جمہوری، سیاسی جدوجہد کے علاوہ ہر دوسری آپشن کو مسترد کیا۔
جماعت اسلامی کی سب سے زیادہ شائع ہونے والی مطبوعات میں اس کا آئین بھی شامل ہے۔ اخوان المسلمون بہت دیر سے اس طرف آئی، کئی عشروں تک ان کے آئین اور پارٹی کے اندرونی نظام کے بارے میں باہر کم معلومات آتی تھیں۔ جماعت اسلامی نے اپنا آئین بھی ہمیشہ شائع کیا بلکہ پارٹی کے شوریٰ اجلاسوں کی روداد بھی چھاپتے رہے تاکہ کہیں کسی بھی قسم کا کنفیوژن پیدا نہ ہو۔ ترکی کے اسلامسٹوں کی اپنی خاص اہمیت ہے، نجم الدین اربکان سے لے کران کی پارٹی کے دیگر رہنمائوں تک ہر ایک نے جمہوری سیاسی جدوجہد کی۔
طیب اردوان تو ویسے بھی معتدل، نیشنلسٹ رہنما سمجھے جاتے ہیں، رائٹ آف سنٹر سمجھ لیجئے۔ اس تفصیل کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہماری اسلامی تحریکیں جوسامراج مخالف ہیں، جنہوں نے طاغوت کو للکارا، مغربی اقدار اورطرز زندگی پر ان کے تحفظات ہیں، یہ تنظیمیں اسلامی نظام قائم کرنے کی داعی ہیں، انہوں نے بھی جمہوریت کو رد کرنے اوراس سے ٹکریں مارنے کے بجائے اس کا جائزہ لے کر راستہ نکالا اور اس کے ساتھ چلے۔ قرارداد مقاصد کی اسی لئے اسلامی جماعتیں بھرپور حمایت اور دفاع کرتی آئی ہیں کہ اس سے پاکستان میں جمہوریت کے مضر اثرات بہت حد تک ختم ہوجاتے ہیں، یہ پارلیمنٹ کو غیر مشروط قانون سازی کا حق نہیں دیتی اور قرآن وسنت کو سپریم بنائے رکھتی ہے۔ جمہوریت کو چیلنج کرنے کا راستہ صرف شدت پسند مسلح تحریکوں نے اپنایا اور اس کے نتیجے میں انہیں شدید نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔ بہت سے مخلص نوجوان اسی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
القاعدہ، داعش، حزب التحریر اور اسی طرح کی شدت پسندانہ تنظیمیں جمہوریت کو چیلنج کرتی اور پورے ملکی نظام کو درہم برہم کرنے کی بات کرتی ہیں۔ ہمارے اہل دانش کا ایک بہت مختصر حلقہ بھی جمہوریت پر اعتراضات کرتا اور بعض لکھنے والے زیادہ کھل کر جمہوریت پر لعنت بھیج دیتے ہیں۔ ان میں سے کسی کے پاس متبادل نظام موجود نہیں اور نہ ہی جذباتی فقرے بازی اور جوشیلی شعلہ بیانی کے سوا ان کی تحریروں، تقریروں میں کچھ نظر آتا ہے۔ درحقیقت یہ وہی بڑھیا والی جھاڑو سے سمندر کی لہروں کو جھونپڑی سے باہر نکالنے والی جنگ ہے۔ بے مقصد، بے فائدہ، بے ثمر۔ تاریخ کا فیصلہ چونکہ جمہوریت کے حق میں ہے، اس لئے فطری طور پر اس کا جزوی فیصلہ فوجی آمروں کے خلاف آیا۔
فوجی آمرکی اصطلاح ہی آج کی دنیا میں ایک گالی بن چکی ہے۔ جدید انسانی سماج میں اس کی کوئی حیثیت نہیں اور ماضی کے کسی فوجی ڈکٹیٹر نے خواہ جس قدر اچھے کام کئے ہوں، اپنی ذاتی شخصیت کے اعتبار سے وہ خواہ کتنا ہی حلیم، سمجھدار، نیک یا دیانت دار ہو اس کی جگہ متعین ہوچکی ہے۔ تاریخ کا کوڑے دان ہی اس کی آخری آماجگاہ ہے۔ جنرل ایوب خان کے مداحین کی تعداد خاصی ہے، جن کے خیال میں ڈکٹیٹر نے بہت سے اچھے کام کئے، صنعتیں قائم کیں اور ملک کی ترقی کے راستے کھولے۔ کسی بحث سے بچنے کے لئے ہم ایوب خان کے تمام محاسن تسلیم کر لیں، تب بھی اس کا ڈکٹیٹر ہونا ان تمام پر بھاری ہوجاتا ہے۔ ویسے تو ایوب خان کی خوبیوں کے ساتھ ان کی خامیاں بھی بڑی تھیں اور پاکستان کے دو لخت ہونے میں ایوب راج کا بڑا اہم کردار تھا۔ یہی حال جنرل ضیاء الحق کا ہے۔
ضیاء الحق کے زمانے کے بیشتر ساتھی اور ان کے مصاحب اب ان سے منہ موڑ چکے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا، جنرل ضیاء کی اولاد سیاسی طور پر نااہل اور کمزور ثابت ہوئی۔ ان کا سیاسی ورثہ موجود ہے اور نہ ہی جنرل موصوف کی مدح کسی قسم کا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ ہمارے بعض قابل احترام سینئر بڑی دل گرفتگی سے اس پر اظہار افسوس کرتے ہیں، انہیں صدمہ پہنچتا ہے جب ناکردہ جرائم جنرل ضیاء الحق کے حصے میں ڈالے جائیں اور ان کے محاسن کو نظرانداز کیا جائے۔ جنرل ضیاء کے ساتھیوں کی خود غرضی اور احسان ناشناسی سے بھی ایسا ہوا، مگر ایک بڑا فیکٹر تاریخ کا فیصلہ بھی ہے، جو آخری سانسوں تک فوجی وردی میں ملبوس ڈکٹیٹر کے خلاف گیا۔ جنرل ضیاء کا دفاع اب ممکن نہیں رہا۔ تاریخ کے ابواب میں جو جگہ انہیں الاٹ ہوئی، وہ کچھ زیادہ خوشگوار نہیں۔ اس فیصلے کو مگر تسلیم کرنا پڑے گا۔ میاں نواز شریف واپس آ رہے ہیں۔
قوی امکان ہیں کہ میاں صاحب نے نیلسن منڈیلا کی خودنوشت لانگ واک ٹو فریڈم نہیں پڑھی ہوگی، اردو میں اس کے دو تین تراجم شائع ہوچکے ہیں، مگر نواز شریف صاحب کا کتابوں سے علاقہ کبھی نہیں رہا۔ ان کے مداحین انہیں نیلسن منڈیلا سے تشبیہہ دینا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ موازنہ جس قدر کچا، بچکانہ اور افسوسناک ہے، اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ نیلسن منڈیا نے ایک بڑے کاز کے لئے جدوجہد کی اور ستائیس سال تک اسیر رہے۔ ستائیس سال، نصف جس کے ساڑھے تیرہ سال بنتے ہیں۔ وہ جیل کا بلب رات کو جلائے رکھنے پر مچھروں کی شکایت نہیں کرتے تھے۔ ایک سال کے اندر ہی منڈیلا فوجی حکومت سے معاہدہ کرکے ملک سے بھاگ نہیں گئے تھے۔ میاں صاحب کے ایک ممدوح نے تاریخ انسانی کی عظیم شخصیات سے میاں نواز شریف کا موازنہ کیا ہے۔ زمانہ جدید میں بھی انہیں مولاناجوہر، آزاد اور قائداعظم جیسے بڑے لوگ یاد آئے۔
افسوس کہ ہم اپنی محبت اور عقیدت میں تاریخ کو مسخ کر دیتے ہیں۔ ہم اپنا فیصلہ تاریخ پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان آرا اور تجزیوں کی کچھ ہی عرصہ بعد کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ فیصلہ وہی چلتا ہے جو تاریخ اپنی پوری شان، قوت اور جلال سے صادر کرتی ہے۔ اس کی اہمیت ہے اور وہی زندہ رہتا ہے۔