فٹ بال ورلڈ کپ کا سحر آج کل ہر جگہ نظر آ رہا ہے۔ روس میں اس بار میلہ سجا ہے اور ہر روزدلچسپ میچز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ فٹ بال کے حوالے سے میرا شروع سے یہ طریقہ رہا ہے کہ لیگ میچز میں دلچسپی نہیں لیتا۔ چار سال کے بعد ہونے والے ورلڈ کپ میں البتہ دلچسپی بچپن ہی سے رہی ہے۔ ہر بار ورلڈ کپ شروع ہوتے ہی میچز کا شیڈول سنبھال کر رکھ لیا، اہم میچز پر نشان لگائے اور روزانہ کی بنیاد پر گروپس کے حاصل کردہ پوائنٹس کو مانیٹر کرنا شروع کر دیا۔
آج کل تو اتنا وقت میسر نہیں، زمانہ طالب علمی میں گروپ میچ دیکھ کر اندازہ لگاتا کہ ہر گروپ سے کون سی دو ٹیمیں آگے جائیں گی، پھر شیڈول دیکھ کر یہ دیکھا جاتا کہ ان کا ممکنہ مقابلہ کس گروپ کی اے یا بی ٹیم سے ہوگا، یوں ایک رف سا سکیچ بنا لیتا کہ فلاں فلاں ٹیمیں کوارٹر فائنل اور کون سی چار سیمی فائنل میں پہنچیں گی۔ ہمارے سکول کے زمانے کا ہیرو میرا ڈونا تھا۔ سچ تو یہ کہ پاکستانیوں کو فٹ بال کے سحر اور ولولے سے متعارف بھی میراڈونا ہی نے کرایا۔
پاکستانی میڈیا نے بھی اسے خوب کوریج دی۔ ہر کوئی میرا ڈونا کی حیران کن ڈربلنگ اور گول کرنے کی صلاحیت دیکھ کر سحرزدہ ہوجاتا۔ 1986ء ورلڈ کپ میں کون ہوگا جو ارجنٹائن کے بہترین سٹرائیکر ڈیگو میرا ڈونا کے کھیل کو دیکھ کر متاثرنہ ہوا ہو۔ اگلے ورلڈ کپ میں ارجنٹائن فائنل پہنچا تھا، مگر اب میراڈونا کا سحر ماند پڑ چکا تھا، اختتامی منٹوں میں جرمنی کو پنلٹی کک دے دی گئی، وہ چیمپین بن گیا، آج بھی مجھے لگتا ہے کہ ارجنٹائن کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ وہ جرمن ٹیم بھی کلاس کی تھی۔ اس کے بعض کھلاڑی آج کل کوچ بن چکے ہیں۔
اس کے بعد کے ورلڈ کپ مقابلوں میں نت نئے سٹارز آتے رہے، ہر ایک نے اپنے انداز میں جادو جگایا۔ چند سال بعدآنے والا اٹلی کا رابرٹو بیگئیو یا بیجئیو، وہ ان دنوں دنیا کا مہنگا ترین کھلاڑی سمجھا جاتا تھا۔ اس نے پورے ٹورنامنٹ میں اپنے کھیل سے ٹیم کو ورلڈ کپ فائنل تک پہنچایا۔ ہر میچ میں فیصلہ کن گول اس کا تھا۔ اگر بیگیو نہ ہوتا تو اٹلی کبھی اتنا آگے نہ جاپاتی۔ فائنل میں پنالٹی ککس پر معاملہ گیا اور فیصلہ کن آخری کک مارنے بیگیئو خود آیا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ بیگئیو اپنی کک باہر پھینک دے گا، مگر یہی ہوا۔
سپرسٹار ہیرو جو اچانک ایک لمحے میں زیرو ہوگیا۔ معلوم نہیں وہ رات اس نے کیسے گزاری ہوگی؟ فرانس کا زیدان بھی غیر معمولی کھلاڑی تھا۔ اس نے اپنی ٹیم کو اعزازات دلوائے، مگر ایک ورلڈ کپ کے فائنل میں ایک لمحاتی غلطی اس سے ہوئی، مخالف کھلاڑی نے اسے مشتعل کیا اور وہ ٹریپ ہوگیا، اسے ٹکر ماری اور ریڈ کارڈ مل جانے کے بعد میچ سے باہر ہوگیا، فرانس ہار گیا، ورنہ ممکن ہے میچ کا نتیجہ مختلف ہوتا۔
کیمرون کا راجر ملا بڑے فٹ بالروں میرا ڈونا، بیگئیو، زیدان وغیرہ کی سطح کا تو ہرگز نہیں تھا، مگر اس نے ایک تھرل پیدا کر دی تھی۔ گمنام افریقی ملک کیمرون کی ٹیم نے ورلڈ کپ کے کوارٹرفائنل میں پہنچ کر بہت سوں کو حیران کر دیا، بلکہ ورلڈ کپ میں اپنے براعظم کے لئے ٹیموں کا مختص کوٹہ بھی بڑھوا لیا۔ برازیل پاکستانیوں کی ہمیشہ سے فیورٹ ٹیم رہی ہے۔ برازیلین ٹیم کا کھیل ایسا جارحانہ، اوپن اور مثبت ہوتا ہے کہ اسے دیکھنے کا جی چاہتا ہے۔ اتنے اوپن انداز میں شائد دنیا کی کوئی اور ٹیم نہیں کھیلتی۔
برازیل کے رونالڈ، رونالڈینو، رابرٹو کارلوس وغیرہ ایک زمانے میں بہت مشہور ہوئے تھے۔ رونالڈو نے ایک ورلڈ کپ جتوایا بھی تھا۔ کارلوس کی کک بڑی مشہور تھی۔ اس بار برازیل پہلے جیسی ٹیم نہیں لگ رہی، ممکن ہے اگلے رائونڈ ز میں جا کر وہ ردھم میں آ جائے، پچھلی بار نیمار کا جادو نہیں چلا تھا، اس بار تو وہ پوری طرح فٹ بھی نہیں۔ آج کل تو ویسے ارجنٹائن کے میسی اور پرتگال کے کرسٹیانو رونالڈو کا دور ہے۔ ایسے غیر معمولی کھلاڑی شائد جدید فٹ بال تاریخ میں پہلے نہیں آئے۔
یہ کالم لکھنے سے پہلے یوٹیوب پر کرسٹیانو رونالڈ و اور میسی کے مشہور گولز کی ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ رونالڈو نے تو گول کرنے کے عجب عجب طریقے ایجاد کئے ہیں، کم وبیش یہی حال میسی کا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ میر اور غالب کا موازنہ والا معاملہ ہے، کم کوئی بھی نہیں۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ ورلڈ کپ میں دونوں کبھی جادو نہیں دکھاسکے۔ اس بار ورلڈ کپ میں کئی اپ سیٹ لگ رہے ہیں۔ ارجنٹائن کی ٹیم کروشیا سے بری طرح ہار گئی اور اگر وہ نائیجیریا سے ہار گئی یا برابر بھی کھیل گئی تو شائد طویل عرصے بعد دوسرے رائونڈ میں نہیں پہنچ پائے گی۔
جرمنی جیسا شاندار ماضی رکھنے والی ٹیم بھی اس بار آف کلر ہے۔ یہ کالم لکھنے کے دو تین گھنٹوں بعد جرمنی بھی اپنا اہم ترین میچ کھیلے گی، اگر وہ ہار گئی تو اس کا بھی آگے جانا مشکوک ہوجائے گا۔ رونالڈو نے گول تو کئے ہیں مگر پرتگال سیمی فائنل تک پہنچنے والی ٹیم لگ نہیں رہی۔ روس اس بار فارم میں ہے، بلجیم نے بھی تیونس کے خلاف خاصے گول کئے۔ یوراگوئے بھی آسانی سے آگے چلی گئی۔ فرانس، کروشیا اور ڈنمارک بھی اچھا کھیل رہی ہیں، میکسیکو تو کوریا کو ہرا کر دوسرے رائونڈ میں پہنچ گئی، جاپان بھی شائد دوسرے رائونڈ میں پہنچ جائے۔ مسلم ٹیمیں حسب روایت فوری طور پر فارغ ہوگئیں۔
مصر کے بہترین سٹرائیکر صالح نے ایک گول کر کے اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلایا۔ ایران کی ٹیم البتہ پہلا میچ سپین سے بہت اچھا کھیلی اور ہارنے کے باوجود دیکھنے والوں کی تکریم حاصل کی۔ فٹ بال ورلڈ کپ دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ ہماری فٹ بال کو کس کی نظر کھا گئی؟ ہماری قومی ٹیم تو خیر کبھی ورلڈ کپ کوالیفائنگ رائونڈ میں جیتنے والی نہیں رہی، مگر ایک زمانے میں فٹ بال ہمارے ہاں بہت مقبول تھی۔ چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات میں روزانہ گرائونڈ اور کھلے میدانوں میں لڑکے فٹ بال کھیلتے تھے۔ یہ سستا کھیل بھی تھا، صرف ایک فٹ بال کی ضرورت پڑتی۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے شہر احمد پورشرقیہ میں فٹ بال کی دو تین ٹیمیں تھیں اور باقاعدگی سے روزانہ فٹ بال کھیلی جاتی۔ ٹورنامنٹ ہوتے اور لوگ نہایت دلچسپی سے میچز دیکھنے آتے۔ میرے بہنوئی ابوذر خان خاکوانی شہر کے نامور فٹ بالر تھے، انہوں نے السلطان کے نام سے ایک نیا کلب بنایا اور مقامی فٹ بال میں سنسنی پیدا کر دی۔ دوسری ٹیموں سے مسابقت ہوئی، السلطان کے نوجوان اور پرجوش کھلاڑیوں نے اپنے کھیل سے بہت سوں کو متاثر کیا۔
میرے بڑے بھائی طاہر ہاشم خاکوانی السلطان کے مڈ فیلڈرز میں سے ایک تھے، ٹیم کا ایک سٹرائیکر میرا دوست عامرافغانی تھا، اس کی ڈربلنگ کمال تھی، حیران کن انداز میں وہ گیند کو گھماتا رہتا، بعد میں اس کی شادی میری بھانجی سے ہوئی، آج کل قطر میں مقیم ہے، جہاں اگلا فٹ بال ورلڈ کپ کھیلا جائے گا۔ تھوڑی بہت فٹ بال اس خاکسار نے بھی کھیلی، اگرچہ وہ محلے کی سطح کی تھی۔
آج کل میرے جثے کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا، مگر ہم بھی ایک زمانے میں کرکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ فٹ بالربھی رہے ہیں۔ روایتی شرفا کی طرح ہم دوڑ اورتیز دوڑنے کو" ناپسند "فرماتے اور ناگوار نظروں سے دیکھا کرتے تھے، اس لئے اپنے لئے فل بیک کا عہدہ پسند فرمایا۔ ایک اصول وضع کر لیا کہ مخالف ٹیم کا بندہ گزر کر جائے گا یا بال جائے گی۔ اگر کوئی سوختہ بخت ہمیں ڈاج دے کر نکلنے کی کوشش کرتا تو اسے کمال شان بے نیازی سے کندھا مار کر نیچے پٹخ دیا جاتا۔ کسی کی گستاخی زیادہ بری لگتی تو بہانے سے اس پر گر پڑتا۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس غریب کے چراغوں، لالٹینوں، سورج، چاند سب کی روشنی یکایک کیسے ماند پڑ جاتی ہوگی؟
ویسے کوشش یہی ہوتی کہ گیند کو فوراًکک مار کرا ڑا دیا جائے اور اس کوشش میں مخالف فاروڑ کا ناک منہ بھی چھلنی ہوجائے تو کیا ہی بات ہے۔ ننگے پیر گھاس پر کھیلا کرتے اور پنڈلیوں پر کئی چوٹیں لگیں، جو ہر سردی میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ یہ اطمینان البتہ ہے کہ ایسا ہی "خیال "ہماری ٹیم کے کئی کھلاڑیوں کو بھی آتا ہوگا، جنہیں ہماری فل بیک شپ سے واسطہ پڑا۔ خیر یہ تو ازراہ تفنن لکھا، مگر یہ حقیقت ہے کہ فٹ بال ہمارے ہاں بہت مقبول تھی، افسوس کہ کرکٹ اس عوامی کھیل کو بالکل کھا گئی۔
میڈیا نے فٹ بال کو مقبول کرنے کی معمولی سی کوشش بھی کی ہوتی تو شائد قومی سطح پر ہم فٹ بال ورلڈ کپ نہ سہی، اچھے طریقے سے کوالیفائنگ رائونڈ ہی کھیل رہے ہوتے۔