Ghalat Simt Main Safar
Amir Khakwani99
برسوں پہلے ایک معروف موٹی ویشنل سپیکر(Motivational Speaker) کا" کامیابی کے راز معلوم کیجئے" ٹائپ سمینارمیں شریک ہوا۔ دنیا بھر میں اس طرح کے سپیکرز اور کامیابی پر لٹریچر کی بھرمار ہے، پاکستان میں بھی اب بے شمار کتابیں ترجمہ ہو چکی ہیں، ہماری مقامی مارکیٹ میں بعض موٹی ویشنل سپیکرز نے نام بھی کما لیا ہے۔ ان مقرریں کی تقریروں میں کچھ مبالغہ تو ہوتا ہے، لیکن اس کی بہرحال افادیت بھی ہے۔ کئی اہم نکتے بڑی عمدگی سے سمجھائے جاتے ہیں، جن پر اگر عمل کیا جائے تو انسان کی زندگی بدل جائے۔ خیر اس سمینار میں مقرر نے بورڈ پر ایک دلچسپ فقرہ لکھا کہ اگر آپ کے پاس Luck ہے تو آپ زندگی میں بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس بات پر سب چونکے، ہال میں منمناہٹ شروع ہوگئی کہ لَک یعنی قسمت کی بات کہاں سے آ گئی اور اگر کامیابی کے راز سکھانے والے بھی تقدیر، قسمت کی بھول بھلیوں میں الجھا دیں گے تو پھر کیا بنے گا؟ اتنے میں سپیکر جو ماحول کا اندازہ کر چکا تھا، وہ مسکرا کر بولا، حاضرین کرام، آپ غلط نہ سمجھیں میں قسمت کی بات نہیں بلکہLuck کی بات کر رہا ہوں یعنی Labor under correct Knowledge۔ مقرر نے پھر اس جملے پر آدھا گھنٹہ تقریر کی اور سمجھایا کہ درست نالج یا علم کے ساتھ محنت کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنے اہداف معلوم ہوں، اپنی کمزوریوں، طاقت کا اندازہ ہو، سب سے بڑھ کر آپ کا فوکس درست سمت میں ہو۔ جب ایسا ہو توکامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں ایسی نقش ہوئی کہ کبھی بھولی نہیں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران مختلف یونیورسٹیوں کے دو چار سیشن کو پڑھانے کا موقعہ ملا تو یہ سبق ضرور دیا کہ محنت تو ضرور کرو، مگر درست علم اور ادراک کے ساتھ زور لگائو، ورنہ اگر لاہور سے اسلام آباد جانے والی موٹر وے پر گاڑی ڈال دی تو پھر چاہے جس قدر تیز چلائو کراچی نہیں پہنچ سکو گے۔ جب بھی اس پر غور کیا، یہ اصول فرد کے علاوہ گروہ، تنظیم، اداروں اور حکومتوں کے لئے بھی ضروری نظر آیا۔ جس کسی نے اسے نظرانداز کیا، وہ انتشار کا شکار ہوا اور بے سمت سفر کے ذریعے اپنی تمام انرجی لٹا بیٹھا۔ افسوس کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت، خاص کر اس کے لیڈر عمران خان بھی اسی بحران کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی اپنے سفر کے آغاز ہی میں سمت کھو بیٹھے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ اس کا ادراک ہی نہیں کر پا رہے۔ عمران خان کو یہ اندازہ نہیں کہ ان کے پاس بہت زیادہ وقت نہیں۔ اس حکومت کو پانچ سال مکمل وقت ملنا بہت مشکل ہے۔ اپوزیشن پہلے دو ماہ میں متحد ہوچکی ہے، ہر گزرتا دن اسے ایک دوسرے کے مزید قریب لے آئے گا۔ سیاسی میدان میں تحریک انصاف بمقابلہ آل والی صورتحال بن چکی ہے۔ ممکن ہے اس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کے لئے خوشی کا کوئی پہلو پوشیدہ ہو، مگر سیاسی طور پر یہ اچھی مساوات (Equation)نہیں۔ تحریک انصاف اپنے تنظیمی ڈھانچے کے اعتبار سے اتنی مضبوط اور طاقتور جماعت نہیں ہے کہ وہ باقی سب کو ہر بار الیکشن میں شکست دے ڈالے گی۔ ضمنی انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں، گزشتہ روز تین مزید حلقوں میں الیکشن ہوئے، اس میں تحریک انصاف گورنر خیبر پختون خوا کی چھوڑی ہوئی سیٹ بھی ہار گئی۔ پشاور کے صوبائی حلقے میں وہی ہوا، جس کی طرف ان کالموں میں پہلے بھی نشاندہی کی جاچکی ہے کہ عام انتخابات میں ن لیگ، اے این پی، ایم ایم اے اور پیپلزپارٹی نے الگ الگ الیکشن لڑا اور بہت سے حلقوں میں ان سب کے ووٹ مجموعی طور پر تحریک انصاف سے بہت زیادہ تھے، لیکن منتشر ہونے کی وجہ سے یہ ہار گئے۔ اب اپوزیشن کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اگر الگ الگ لڑے تو ہارتے رہیں گے، اس لئے وہ اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحدہوئے ہیں۔ مستقبل کے انتخابی معرکوں میں اپوزیشن متحد رہی تو نتائج تحریک انصاف کے مخالف آئیں گے۔ اب اہم سوال یہی ہے کہ اس سیاسی مساوات کو کس طرح الٹا یا تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ دو طریقے ہیں۔ تحریک انصاف اپنے ووٹ بینک کو مستحکم رکھتے ہوئے اپنی سیاسی بیس وسیع کرے۔ اسے اپنے ووٹ بینک کو بڑھانا ہے، ورنہ خیبر پختون خوا میں اس کے لئے مشکلات بڑھیں گی۔ پنجاب میں تو ویسے بھی ن لیگ کو شکست دینا آسان نہیں، عام انتخابات میں بھی مضبوط لیگی پاکٹس کو تحریک انصاف توڑ نہیں پائی تھی۔ پنجاب میں اسے اپنے جیتے ہوئے علاقوں سے سیٹیں برقرار رکھنے اور سنٹرل پنجاب میں ن لیگی حصار توڑنے کی کوشش کرنا ہے۔ کراچی لگتا ہے سردست تحریک انصاف کی طرف مائل ہوگیا ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اہل کراچی کی سپورٹ اسے زبردست سیاسی ایڈوانٹیج دلا سکتی ہے، لیکن کراچی کے مسائل حل نہ کئے گئے تو یہ سب ریورس ہوجائے گا کیونکہ وہاں تحریک انصاف کے پاس تنظیم ہے نہ کوئی کام کا بندہ۔ وفاق کو اب کراچی کے لئے میگا پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے، جس سے وہاں کے مسائل میں کمی ا ٓ سکے۔ دوسرا طریقہ اپوزیشن کو توڑنا اور ان کے وسیع تر اتحاد میں نقب لگانا ہے۔ یہ کام تحریک انصاف کے بس کا بھی نہیں اور بیشتر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ تحریک انصاف کا براہ راست ٹکرائو ہے۔ جیسے ن لیگ، پیپلزپارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے وہ الیکشن جیتی ہے، اے این پی اور مولانا فضل الرحمن کو عمران خان مسلسل ہدف بناتے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ اتحاد یا صرف بات چیت بھی آسان نہیں۔ صرف جماعت اسلامی ایسی اپوزیشن جماعت ہے جو ایم ایم اے میں خوش نہیں اور اگر تحریک انصاف اسے اپنی طرف کھینچے تو وہ آ سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر مگر جماعت کے خلاف ایک طاقتور لابی ہے جو ایسا نہیں ہونے دے گی، ورنہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دونوں میں اصلاحات کا ایجنڈا اور کرپٹ عناصر کا احتساب دو اہم مشترک نکات ہیں۔ جب دوسری آپشن یعنی اپوزیشن کے اتحاد کو کمزور کرنا یا توڑنا ممکن نہیں تو پھر تمام تر انحصار پہلی آپشن پر کرنا پڑے گا۔ اپنے موجود ہ ووٹ بینک کو برقرار رکھنا اور اسے بتدریج وسیع کرنا۔ اس کے لئے عمران خان کو دانش مندی سے درست سمت میں قدم اٹھانے ہوں گے۔ جہاں ان کی پاور پاکٹس ہیں، وہاں ترجیحی بنیادوں پر فوکس کرنا۔ جن محروم علاقوں کے لوگوں نے دوسری تمام جماعتوں سے تنگ آ کر تحریک انصاف کا ساتھ دیا، ان کی مشکلات اب حل ہونا چاہئیں۔ خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع میں تحریک انصاف کو فائدہ پہنچا، ضمنی انتخابات میں ڈی آئی خان کی دونوں نشستیں جیت لی گئیں، لیکن اگر ڈیرہ، ٹانک وغیرہ کے مسائل خاص کر بجلی کا ایشو حل نہ ہوا تو پھر اگلی بار نقشہ الٹ بھی سکتا ہے۔ پشاور ویلی نے دوسری بار عمران کے ساتھ وفا کی، وہاں عام آدمی کو ریلیف ملنا چاہیے، سوات، دیر وغیرہ میں بھی توجہ دینا ہوگی۔ پنجاب میں صورتحال زیادہ واضح ہے۔ جنوبی پنجاب نے عمران خان کو اپنا مینڈیٹ دیا، جواب میں وہ کچھ توقع کر رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا خان صاحب نے وعدہ کیا تھا، سو دن میں اس حوالے سے پیش رفت ہونی چاہیے۔ صوبہ بنانے میں ابھی کچھ تکنیکی مسائل شائد آئیں، لیکن اس دوران سرائیکی وسیب میں لوگوں کی مشکلات تو کم ہونی چاہئیں۔ عمران خان کوعلم نہیں ہوگا کہ کسی تحصیل کو ضلع بنانے سے بھی مقامی سطح پرتبدیلی آ جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں کئی ایسی قدیم اور بڑی تحصیلیں ہیں کہ اگر وہ سنٹرل پنجاب میں ہوتیں تو بیس سال پہلے ضلع بن چکی ہوتیں۔ بہاولپور ڈویژن ہی کو دیکھ لیجئے، پچھلے ساٹھ برسوں سے اس کے تین ہی اضلاع ہیں، جبکہ اس دوران سنٹرل پنجاب میں حافظ آباد، ننکا نہ، قصور، منڈی بہائوالدین جیسی نسبتاً چھوٹی تحصیلیوں کو ضلع بنا دیا گیا۔ بہاولپور ڈویژن میں احمد پورشرقیہ، خان پور اور چشتیاں جیسی تحصیلوں کو اضلاع کا درجہ دینا چاہیے۔ اسی طرح تونسہ پنجاب کی پسماندہ ترین اور دورافتادہ تحصیل ہے۔ اس وقت خوش قسمتی سے وزیراعلیٰ کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ تونسہ کا حق بنتا ہے کہ اسے ضلع بنایا جائے۔ معلوم نہیں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کیوں اتنی ہچکچاہٹ سے کام لے رہے ہیں، ورنہ انہیں شروع کے دنوں میں تونسہ کو ضلع بنا دینا چاہیے تھا۔ یہ کام اب بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح شمالی پنجاب نے تحریک انصاف کا بھرپور ساتھ دیا۔ پنڈی، اٹک، جہلم، چکوال وغیر ہ نے حکمران جماعت اور ان کے اتحادیوں کو شاندار فتح دلوائی۔ پوٹھوہار کا علاقہ بہت پسماندہ اور مسائل کا شکار ہے۔ یہاں کے لئے خاص پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے۔ ملک بھر میں انقلاب برپا کرنے کا خواب اپنی جگہ، مگر جہاں جہاں فوری طور پر کچھ ہوسکتا ہے، وہ تو کیا جائے۔ وزیراعظم اور حکمران جماعت کو سمجھنا ہوگا کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں، اگلے سال ڈیڑھ سال کے اندر انتخابات کے معرکہ کا انہیں دوبارہ سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کی اسمبلیوں میں عددی اکثریت بھی اتنی کم ہے کہ کوئی ان ہائوس تبدیلی بھی خارج ازامکان نہیں۔ چہروں کی تبدیلی سے محکموں اور اداروں کی پالیسیاں بدل جاتی ہیں۔ تحریک انصاف سیاسی جماعت ہے، اس کی اصل قوت اس کا ووٹ بینک اور حامی ہیں۔ سیاست میں اپنے حامیوں کو ساتھ جوڑ کر رکھنا پڑتا ہے۔ خان صاحب کو اس کے لئے ابھی سے کوشش کرنا ہوگی۔