سینٹ الیکشن پر ہر قسم کے تجزیے آ رہے ہیں، بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ اس میں مزید اضافہ کیا جائے؟ جتنی کوشش کی جائے، کہیں نہ کہیں تکرار اور یکسانیت آ ہی جائے گی۔ بیشتر تجزیوں، تحریروں میں اسے صرف نمبر گیم اور عام ہار جیت والا الیکشن ہی تصور کیا جا رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ معاملہ کچھ گہرائی والا ہے۔ چیزیں اتنی سادہ نہیں جتنی پہلی نظر میں لگ رہی ہیں۔ کسی ایک فرد کی ہار اور دوسرے کی جیت والی بات بھی نہیں۔
اس الیکشن میں سب سے بڑی شکست بیانیہ کی ہوئی ہے۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے پچھلے چند ماہ میں بڑی محنت اور عرق ریزی سے ایک سیاسی بیانیہ تخلیق کیا۔ اس بیانیہ کو پھیلانے کے لئے بہت سے جلسے کئے گئے، بے شمار ٹاک شوز میں ان کے لیڈروں نے بار بار وہ بیانیہ دہرایا۔ میڈیا میں اپوزیشن، خاص کر ن لیگ کے حامیوں نے اپنی تحریروں اور ٹاک شوز کا عنوان اس بیانیہ کو بنایا۔ اس کے تین چار اجزا تھے۔ پہلا یہ کہ حکومت غیر جمہوری اور ناجائز ہے، اسے اسٹیبلشمنٹ نے سلیکٹ کیا اور یہ دھاندلی کر کے یعنی الیکشن کو مینیج کر کے اقتدار میں پہنچی۔ بیانیہ کا دوسرامرکزی نکتہ تھا کہ اپوزیشن کے سیاستدان ہی حقیقی جمہوریت پسند، عوام کے نمائندہ اوراصول پسند ہیں جبکہ حکمران اتحاد بے اصول، غلط، ناجائز، نکما اور غیر اخلاقی قدروں کا حامل ہے، وغیرہ وغیرہ۔
سینٹ الیکشن میں پی ڈی ایم کا یہ بیانیہ دھجی دھجی ہو کر فضا میں بکھر گیا ہے۔ اپوزیشن کی تمام جماعتوں اور لیڈروں نے مل کر، پورے اہتمام کے ساتھ اپنے ہی بیانیہ کے پرخچے اڑا دئیے۔ پی ڈی ایم میں ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو آج سر اٹھا کر اخلاقیات اور اصولوں کی بات کر سکے۔ پیپلزپارٹی سب سے بڑی مجرم ہے، جناب زرداری جنہوں نے اس ملک میں کرپشن کے نت نئے طریقے ایجاد کئے اور اس اعتبار سے انہیں امام کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ جناب جاوید ہاشمی نے ایک بار کہا تھا، "زرداری صاحب کی سیاست پر پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے۔" ہاشمی صاحب اب اپنے اس بیان کوقبول نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ محض طنز تھا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو، مگر زرداری صاحب نے اپنی شبانہ روز محنت سے یہ درجہ ضرور پا لیا ہے کہ ان پر پی ایچ ڈی سے بھی زیادہ بڑھ کر ایک اعلیٰ درجے کا انسٹی ٹیوٹ بنایا جائے، جس میں کرپشن، اخلاقیات اور جمہوری اصولوں کو تہس نہس کرنے کے قدیم وجدید طریقے سکھائے جائیں۔ زرداری صاحب کے فرمودات، افعال اوران کی مختلف ادوار میں چلی جانے والی شاطرانہ چالوں سے اس انسٹی ٹیوٹ کا نصاب تشکیل پائے۔
یہ کھیل بنیادی طور پر پیپلزپارٹی کا تھا۔ سندھ میں بھی انہوں نے اپنے حق سے ایک سیٹ زیادہ حاصل کر لی۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کھیل سے آئوٹ تھی، اس لئے اس نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اسی وجہ سے پنجاب میں منصفانہ انداز میں سینیٹر بنائے جا سکے۔ اگر پیپلزپارٹی پنجاب میں بھی یہ کھیل کھیلتی تو عین ممکن تھا کہ تحریک انصاف یہاں ایک سیٹ کھو بیٹھتی۔ ن لیگ نے پنجاب میں یہ کھیل نہیں کھیلا، ممکن ہے ان کے لیڈروں کو اب اس پر ندامت ہو رہی ہو۔ انہیں پشیماں ہونے کی ضرورت نہیں، مرکز میں انہوں نے بڑی تندہی کے ساتھ پیپلزپارٹی کے کھیل میں حصہ لے کر اپنا" حق" ادا کر دیا۔ مریم نواز شریف مسلسل جمہوریت، اصولوں، اخلاقی برتری اور نجانے کون کون سے سنہرے الفاظ اپنی تقریروں میں استعمال کرتی رہی ہیں۔ ثابت ہوگیا کہ وہ سب ڈھونگ، دروغ گوئی اور عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش تھی۔ اصلاً ن لیگ اور زرداری صاحب کی پیپلزپارٹی میں کوئی فرق نہیں۔ جب مفادات تقاضا کریں، تب ہارس ٹریڈنگ بھی جائز ہے، ووٹ خریدنا، ضمیر خریدنا درست ہے۔ مریم نواز شریف نے عملاً قوم کو یہ بتایا ہے کہ اگر سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کے ووٹ توڑے جائیں تو وہ غلط، شرمناک اور غیر جمہوری ہے، تاہم اپوزیشن وہی کام تحریک انصاف کے ساتھ کرے تو بالکل جائز، اور اصولی بات ہے۔ آدمی یہ دیکھ کر سوچتا ہے کہ دوغلاپن اور تضاد پھر کس چیز کا نام ہے؟
مولانا فضل الرحمن جو ایک مذہبی رہنما اور عالم دین ہونے کے دعوے دار بھی ہیں۔ ان پر سیاسی تنقید کی جائے تو ان کے اندھے مقلد فوری احادیث سنانے لگتے ہیں جن میں علما دین کے خلاف طرز عمل اپنانے پر وعید سنائی گئی۔ انہی مولانا فضل الرحمن نے نہ صرف مزے سے یہ سب ہارس ٹریڈنگ کا تماشا دیکھا، بلکہ بڑھ چڑھ کر اسے سپورٹ کیا اور اپنے امیدوار کی غلط طریقے سے کامیابی پر داد وتحسین کے نعرے لگائے۔ یہی اے این پی اور بلوچ، پشتون قوم پرست جماعتوں کا رویہ رہا، یہی اہل حدیث رہنما ساجد میر کا طرزعمل تھا۔ پی ڈی ایم کا پورا اتحاد اس سیاسی معرکے میں کھیت رہا۔ جو باقی بچا وہ اس کا جسد عارضی ہے، روح سے عاری کھوکھلا ڈھانچہ۔
دوسری بڑی شکست ہمارے پورے سسٹم کو ہوئی۔ ہمارے ادارے جن کی ذمہ داری تھی کہ جمہوریت، آئین، سیاسی اخلاقیات کی حفاظت کی جائے، وہ بری طرح ناکام رہے۔ جن کا نام لیا جا سکتا ہے، وہ بھی اس میں شامل ہیں۔ جن کا نام نہیں لیا جاسکتا ہے وہ بھی اور جن کانام لینے پر توہین کی سزا کا خطرہ ہے، ان سب سے شکوہ ہے۔ افسوس کسی نے سیاسی نظام کا بھرم بچانے کی کوشش نہیں کی۔
الیکشن کمیشن کو بھی بدترین شکست ہوئی۔ اس ادارے کی ذمہ داری ہے کہ الیکشن کو شفاف، منصفانہ اور قابل اعتماد بنائے۔ وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ میری ذاتی رائے میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر ذمہ داران کو باقاعدہ قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ وہ اپنے کام میں ناکام ہوئے۔ ان کے پاس اس ناکامی، ایسی بری کارکردگی کا کوئی جواز نہیں۔ مہذب ممالک میں ایسی ناکامی پر استعفے کی روش ہے۔ چلیں عوامی معافی تو مانگ لیں۔
ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ پورے ملک کو معلوم تھا کہ کیا کھیل کھیلا جائے گا؟ معمولی سی سوجھ بوجھ رکھنے والا جانتا ہے کہ گیم کس نے شروع کی اور اس کا مقصد کیا ہے؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی صاحب کو ملتان سے اٹھا کر اسلام آباد میں ووٹ درج کرانے اور پھر سینٹ کا الیکشن لڑانے کا یوں نہیں کہا گیا۔ انہیں پوری یقین دہانی کرائی گئی کہ جیت لازمی ہے۔ ورنہ گیلانی صاحب کو کیا پڑی تھی کہ سینٹ کی ایک سیٹ کے لئے اتنا خجل خوار ہوتے۔ سب ادارے خاموشی سے بیٹھے یہ دیکھتے رہے۔ حکومت نے اضطراب میں اس پر خاصی بھاگ دوڑ کی۔ اوپن بیلٹنگ کی قانون سازی کی کوشش کی، مگر اپوزیشن نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ ان کے پاس دوسری آپشن سپریم کورٹ سے رہنمائی لینے کی تھی۔ وہ بھی استعمال کی گئی۔ سپریم کورٹ نے خود ذمہ داری لینے کے بجائے الیکشن کمیشن پر ڈال دیا کہ مجاز ادارہ ہی وہ ہے۔ الیکشن کمیشن کو ایک اشارہ دیا گیا کہ وہ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ووٹ کا تقدس بحال کر سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن اگر چاہتا تو اس ہونی کو روک سکتا تھا۔ انہیں چند سو بارکوڈ والے بیلٹ پیپر چھاپنے تھے، آسانی سے یہ کام ہوجاتا۔ اگر ضرورت پڑتی تو الیکشن چند دنوں یا ایک ہفتے کے لئے آگے کر دیا جاتا۔ سپریم کورٹ کی اخلاقی سپورٹ ان کے ساتھ تھی، کون اس پر مزاحم ہوتا؟ الیکشن کمیشن نے بدترین نااہلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے الیکشن میں دھاندلی ہونے دی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیشہ ایسے مواقع پر ایڈوانٹیج حکومت کو حاصل ہوتا ہے۔ ان کے پاس اراکین اسمبلی کو نوازنے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں، سیکرٹ فنڈز سے کیش ادائیگیاں، ترقیاتی فنڈز، ملازمتوں کا کوٹہ، من پسند ٹرانسفر پوسٹنگ وغیرہ۔ عام طور پر اپوزیشن کو یہ خوف ہوتا ہے کہ حکومت اپنی اس قوت کو استعمال کر کے ان کے ووٹ توڑ لے گی۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ حکومت خوفزدہ تھی کہ ان کے ووٹ ٹوٹ جائیں گے اور اپوزیشن ہارس ٹریڈنگ کر لے گی۔ ا س سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بعض کرپشن مافیاز حکومتوں سے بھی زیادہ طاقتور ہو سکتے ہیں۔ ان کے پاس اربوں کھربوں کی بلیک منی ہے جسے وہ بے دریغ لٹا کر اپنی مرضی کا نتیجہ لے سکتے ہیں۔ ان مافیاز کی جیت دراصل پورے سسٹم، اداروں، سیاسی کلچر کی شکست ہے۔
میں اس دلیل سے متاثر نہیں ہواکہ اراکین اسمبلی عمران خان سے ناراض تھے یا حفیظ شیخ مقبول امیدوار نہیں تھے۔ یہ بات درست نہیں۔ ووٹ بیچنے والوں نے بے ضمیری کسی اصولی اختلاف کی بنیاد پر نہیں کی بلکہ نوٹوں کی بوریاں لے کر کیں۔ علی حیدر گیلانی کی ویڈیو نے سب کچھ صاف بتا دیا کہ کیا ہوا۔ میرے خیال میں عمران خان کے ارکان اسمبلی سے نہ ملنے یا حفیظ شیخ کی عدم مقبولیت کی بات کہنا دراصل ووٹ بیچنے والے بے ضمیروں کی حمایت کرنا، ان کی تاویل اور انہیں تقویت پہنچانا ہے۔ انہوں نے نہایت بے شرمی اور بے ضمیری کا مظاہرہ کیا۔ ہمیں یہ بات کھل کر صاف صاف کہنی چاہیے۔ صاف بات تو یہ بھی ہے کہ علی حیدر گیلانی کی ویڈیو کے بعد یوسف رضا گیلانی کو الیکشن سے دستبردار ہوجانا چاہیے تھا۔ وہ ووٹوں کی خریداری سے سینیٹر بنے، کس طرح سر اٹھا کر سینٹ میں بیٹھیں گے؟