Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Harf e Tashakur

Harf e Tashakur

اگلے روز میرے منجھلے صاحبزادے نے ایک ایسا سوال پوچھاکہ پچھلے پچیس تیس سال کا پورا سفرآنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ بیٹے کی عمر چودہ سال ہے، میری مسلسل ترغیب پر اس کی کہانیوں، کتابوں میں دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ دو تین سال پہلے اس کے لئے اپنے بچپن میں پڑھا گیا داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا کی کہانیوں کا پورا سیٹ خریدا۔ مجھے یہ کہانیاں ازحد پسند تھیں۔ خواہش کی کہ بچے بھی پڑھیں۔ بڑے بیٹے کو مطالعے سے زیادہ دلچسپی نہیں، ا س کے لئے نِچلا بیٹھنا مشکل ہے۔ درمیان والے معزخاکوانی سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، یہ مطالعہ کرنے کے سحر میں گرفتار ہوا تو سب سے چھوٹے عبداللہ نے بھی ان شااللہ پیروی کرنی ہے۔ امیر حمزہ اور داستان طلسم ہوشربا پڑھانے کے لئے یہ طریقہ نکالا کہ ہر کہانی پڑھنے پر کچھ کیش انعام مقرر کیا۔ شرط صرف ایک کہ ایک کہانی پڑھنے کے بعد اس کا خلاصہ سنایا جائے، فوری نقد انعام وصول کرے اور پھر اگلی کہانی شروع کی جائے۔ ابتدا میں ممکن ہے مالی ترغیب نے اثر دکھایا ہو، مگر پھر کہانیوں کے اپنے جادو نے معز کو اسیر کر لیا اور دس دس کہانیوں کے دونوں سیٹ ختم کر کے ہی دم لیا۔ یہ شوق بڑھ رہا ہے اور اب وہ میری گھر میں بنائی لائبریری میں سے کوئی سی کتاب اٹھا کر پڑھتا رہتا ہے، پھر اپنی معلومات سے سب بہن بھائیوں کو حیران کرتا رہتا ہے۔ ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس کے سوالات بڑھ گئے ہیں۔ نت نئے سوالات اس کے ذہن میں آتے ہیں اور ہمیں ان کے جواب دینے پڑتے ہیں۔ عمرو عیار کا کردار اسے اچھا لگا۔ خاص کر اس کی زنبیل بھا گئی۔ ارطغرل ڈرامہ اس نے دیکھا اور اس کے سحر میں گرفتار ہے، تب سے اسے تاریخ اور جنگوں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ مجھے کہنے لگا کہ جنگوں پر کتابیں بتائیں۔ اس بار کتاب میلے سے ہیرالڈ لیم کی کتاب تاتاریوں کی یلغار خریدی تھی، وہ اس کے حوالے کی۔ اتفاق سے گزشتہ روز آفاق انسائیکلو پیڈیا کی ڈاک آئی۔ نصاب کی کتابوں کے حوالے سے آفاق مشہور نام ہے، انہوں نے قسط وار انسائیکلو پیڈیا کا سلسلہ شروع کیا ہے، ہر ماہ چاررنگین صفحات پر مشتمل چار الگ الگ سلسلوں کے پمفلٹ شائع ہوتے ہیں، کسی مشہور تاریخی شخصیت، ملک، جانور اور سائنس کے حوالے سے ان میں دلچسپ مواد ہوتا ہے۔ اس ماہ تاریخی شخصیت میں جلال الدین خوارزم شاہ کے کردار پر روشنی ڈالی گئی۔ وہ شاندار جنگجوجس نے ہلاکو خان کے منگول لشکریوں سے مقابلہ کی ٹھانی اور ہتھیار نہ پھینکے۔ ہمارے بچپن کے زمانے میں پی ٹی وی کا بہت مشہور تاریخی ڈرامہ آخری چٹان اسی مرکزی کردار کے گرد گھومتا رہا۔" آخری چٹان" ڈرامہ نیٹ پر دستیاب ہے، سی ڈیز میں بھی مل جاتا ہے۔ سوچا کہ سکول کے امتحانات کے بعد چھٹیوں میں وہ ڈرامہ بھی دکھانا چاہیے۔

بات سوال سے شروع ہوئی تھی، مگر پھر کسی اور جانب نکل گئی۔ بیٹے نے سوال کیا تھا کہ آپ بطور ٹین ایجر زندگی میں کیا بننے کا خواب دیکھتے تھے اور وہ کس حد تک پورا ہوا؟ اسے فوری جواب تو نہ دیا، مگر اس پر سوچتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف خواب دیکھتا ہے، کبھی کوئی سپنا یکساں بھی رہتا ہے، مگر عام طور پر لڑکپن اور نوجوانی کے آئیڈیلز بدل جاتے ہیں۔ مڈل ایج کے اپنے مسائل ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے جب نظر آجاتا ہے کہ اب آگے بڑھنے کا نہیں بلکہ واپسی کا سفر شروع ہوگیا، تب چیزیں سمیٹنے اور اگلے سفر کا توشہ جمع کرنے میں زیادہ دلچسپی محسوس ہوتی ہے۔ میرے ساتھ البتہ یہ ہوا کہ لڑکپن سے لے کر زندگی کے باقی مراحل تک ایک ہی بات سوچی اور وہ رب کریم نے پوری کی۔ سکول کے زمانے سے پہلے کہانیاں، پھر کتابیں پڑھنے کی ایسی لت لگی کہ اسی کے نشے میں سرشار رہتے۔ اخبارپڑھنے کا بھی چسکا لگ گیا۔ کالم شوق سے پڑھا کرتا بلکہ جو اخبار گھر نہیں آتے تھے، انہیں بھی ڈھونڈ ڈھانڈ کر پڑھ لیتا۔ کالج گئے تو لائبریری میں تین چار اردو کے اخبار رکھے ہوتے، فری پیریڈ میں وہاں سے کالم ڈھونڈ کر پڑھتا۔ اس وقت یہی سوچتا کہ کاش مجھے بھی کبھی کالم نگاری کا موقعہ ملے۔ میرے ماموں امین ترین انگریزی صحافت کا معتبر نام تھے۔ وہ تحریک پاکستان کے کارکن تھے اور پہلی آل انڈیا ایم ایس ایف کے سیکرٹری رہے، حمید نظامی جس کے صدر تھے۔ صحافت اس لئے ہمارے گھر میں کوئی اجنبی چیز نہیں تھی، اس کے باوجود مشکل نظر آتا تھا کہ اپنی اگلی زندگی میں صحافت کو بطور پیشہ اختیار کر پائوں گا۔ والد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل تھے اور ان کی خواہش تھی کہ لاء کر کے ہائر کورٹس کی وکالت کروں۔ بعد میں حالات نے کچھ یوں رخ بدلا کہ صحافت میں آ گیا۔ ریگولر کالم لکھنے کا موقعہ بھی مل گیا۔

ٹھیک سات دن پہلے مجھے صحافت میں چوبیس سال مکمل ہوگئے، پچیسواں سال شروع ہوگیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ چھ فروری 1996ء کو اردو ڈائجسٹ میں ملازمت کا پہلا دن تھا۔ بائیس تیئس سال عمر تھی، گھر سے پہلی بار نکلا، لاہور بھی پہلی بار آنے اور رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس وقت یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ سفر اتنا بھرپور، دلچسپ اور نتیجہ خیز نکلے گا۔ پنجاب کے صدر مقام لاہور سے کئی سو کلومیٹر دور ایک پسماندہ تحصیل سے تعلق رکھنے والے نوجوان کو جسے لاہور میں کوئی نہیں جانتا تھا، کسی بھی قسم کا ریفرنس، تعلق یا رشتہ موجود نہیں تھا۔ اس پردیسی سرائیکی لڑکے کولاہور شہر اور اہل صحافت نے جس کھلے دل سے خیرمقدم کیا، اپنا حصہ بنایا، اس پر رواں رواں ممنون ہے۔ پچھلے دو عشروں کے دوران آنے والے تین بڑے قومی اخبارات کی بانی ٹیم کا حصہ رہا، تینوں میں میگزین سیکشن کی ابتدا کی۔ آخری دونوں اخبارات کے پہلے روز کے کالم نگاروں میں میرا نام بھی شامل تھا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت اور کرم کے باعث ہی ممکن ہوپایا۔ کسی زمانے میں چینی فلسفی کنفیوشس کا قول پڑھا تھا کہ خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا شوق اس کا پیشہ بن جائے۔ ایسے ہی شاد، خوش بخت لوگوں میں میرا بھی شمار ہوتا ہے۔ زندگی میں بہت سے کٹھن دن آئے۔ شدید تنائو اور ڈپریشن کے دنوں میں بھی جب اخبار کے دفتر پہنچ کر اپنی جگہ پر بیٹھتا اور کچھ لکھنے کے لئے انگلیاں کی بورڈ پر رکھتا ہوں، یکا یک وہ سب تنائو، فرسٹریشن، ڈپریشن ہوا ہوجاتا۔ ایک الگ دنیا، الگ ماحول کا حصہ بن جاتا ہوں۔ ہمیشہ دفتر سے گھر واپسی پر ہی خیال آتا کہ فلاں پریشانی دامن گیر تھی، مگر کام کے دوران اس کا خیال تک نہیں آیا۔

کالم لکھنے کے لئے صحافت کی وادی پرخار میں آیا تھا۔ پچھلے سولہ برسوں سے وہی کر رہا ہوں۔ ہفتہ میں تین کالم لکھنااور پھر سوشل میڈیا میں ایکٹو ہونے کے بعد ایک دو کالم جتنی طویل تحریریں فیس بک پر لکھ ڈالنا معمول ہے۔ انہی کالموں کی وجہ سے شناخت بنی اور بہت سے محبت کرنے والے لوگوں سے تعلق جڑا۔ کالم لکھتے ہوئے ابتدا ہی میں تین چاراصول طے کر لئے تھے۔ پہلا یہ کہ توازن اور اعتدال کے ساتھ لکھا جائے، تنقیدکرتے ہوئے بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ دیانت داری کو اپنی شناخت بنائی جائے۔ اخبارنویس کا یہ فرض ہے کہ وہ حکمرانوں، دربار کی طرف سے منہ پھیر کر عوام کی طرف رخ کرے، ان کی آواز سنے، اسے ہی لکھے اور استقامت سے کھڑا رہے۔ یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ انقلابی بننے کے بجائے سسٹم میں رہ کر تعمیر کا کام کیا جائے کہ حکومتیں گرانا، لے آنااخبارنویس کا کام نہیں۔ سماج میں مثبت لہریں داخل کرنا، علم وادب کو فروغ دینا، کتاب دوستی پھیلانا اوراہل خیرکو تقویت پہنچانا زیادہ اہم اور بڑا کام ہے۔ تیسرا یہ کہ اردو کالم نگاری میں جذباتیت کی بھرمار ہے، یہاں پر دلیل کے ساتھ بات کرنے اور قاری کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ چوتھا اصول یہ بنایا کہ مایوسی پھیلانے کے بجائے امید، جینوئن امید تلاش کرنے اورپڑھنے والے کو فرسٹریٹ کر نے کے بجائے لائحہ عمل سجھانے کا کام کرنا چاہیے۔ اپنی استعداد اور حوصلے کے مطابق یہ کام کرنے کی کوشش کی۔ فطری تعصبات، پسند ناپسند، جذبات ظاہر ہے کبھی غالب آجاتے ہوں گے، ان سے اوپر اٹھنے کی سعی ہمیشہ رہی۔

اپنے کالموں کا پہلا انتخاب" زنگار"شائع کیا تو یہی سوچا کہ مثبت، تعمیری اور سدابہار قسم کی تحریریں شامل کی جائیں۔ خیال تھا کہ برسوں بعد کسی طالب علم کو فٹ پاتھ کی پرانی کتابوں میں میری کتاب ملے تو اسے پڑھ کر اسے خوشگوار حیرت ہو کہ یہ کالم توآج بھی تروتازہ اور Relevent ہیں۔ چند دن پہلے میری دوسری کتاب "زنگارنامہ" سید قاسم علی شاہ فائونڈیشن نے شائع کی ہے۔"زنگار نامہ" کے انتخاب میں بھی وہی اصول کارفرما تھے۔ سیاست، کرنٹ افیئرز سے ہٹ کر صرف وہی تحریریں شامل کیں جن کے رنگ وقت گزرنے کے ساتھ ماند نہ پڑیں۔ کتاب میلہ میں اس کتاب کی پزیرائی پر دل شاد ہوا۔ رب کریم کا شکرگزار ہوا، جس نے دورافتادہ علاقے کے اس گمنام نوجوان کو اتنی عزت، توقیر بخشی۔

سچ تو یہ ہے کہ سب توفیق اسی رب نے دی، اس کا کرم نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوپاتا۔ بھرم اسی ذات پاک نے بنایا، اسے قائم بھی وہی رکھے گا، اسی ذات کی طرف دیکھتے ہیں اور اسی سے تمام امیدیں وابستہ ہیں۔