Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hukumat Ko Apni Ghalatiyan Sudharna Hongi

Hukumat Ko Apni Ghalatiyan Sudharna Hongi

سیاست خاصا پیچیدہ معاملہ ہے، اس میں بہت بار آپ کسی حتمی رائے یا نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ چیزیں کنفیوز رہتی ہیں۔ عام کارکن یا سوشل میڈیا کا عام یوزر بعض اوقات جس طرح چیزوں کو بلیک اینڈ وائٹ میں دیکھتا ہے، ویسے وہ ہوتیں نہیں۔ سیاست میں حق وباطل کا معرکہ ہر بار نہیں ہوتا۔ اکثر بیشتر یہ اقتدار کی جنگ ہوتی ہے، پاور میں آنے کی جدوجہد۔

آج کے حالات میں مگر ایک بات بڑی واضح ہے کہ اس وقت عمران خان اور تحریک انصاف مظلوم فریق ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اور اہم جماعت آج کل حکومت کی نظروں میں بری طرح چبھ رہی ہے۔ اسے ڈس کریڈٹ، کمزور اور ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ آئے روز تحریک انصاف کے رہنما، کارکن گرفتار ہو رہے ہیں، پے در پے مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ حکومتی وزرا یوں تاثر دے رہے ہیں کہ ملک میں ہونے والی ہر خرابی، ہر مصیبت اور مشکل کا ذمہ دار عمران خان اور تحریک انصاف ہے۔

ان مقدمات کے حوالے سے عملی پوزیشن یہ ہے کہ عمران خان مخالف ایک خاص شدت پسند حلقے کے سوا کسی کو ان مقدمات کے درست ہونے کا یقین نہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اپوزیشن کو پھنسانے اور تنگ کرنے کے لئے مختلف شہروں میں ایسے ہی مقدمے درج کئے جاتے ہیں۔ یہ مقدمے اب عوامی سطح پر مذاق بن گئے ہیں۔ اگلے روز ملک کے کئی علاقوں میں زلزلہ آیا۔ بیشتر لوگ گھروں سے باہر آگئے۔ بہت سی جگہوں پر یہ سنا گیا کہ لوگوں نے طنزیہ تبصرہ کیا اس زلزلہ کی ذمہ داری بھی عمران خان پر ڈال کر ایک اور مقدمہ درج کرا دیا جائے۔

کہتے ہیں بھٹو صاحب کے دور میں ایسا ہوتا رہا۔ تب حبیب جالب جیسے عوامی شاعروں، چودھری ظہور الٰہی اور دیگر اپوزیشن رہنمائوں پر ایسے بے بنیاد اور مضحکہ خیز مقدمات کئے جاتے کہ عدالت میں کارروائی ہوتی تو عدالتی عملہ مسکرانے لگتا۔ وہ وقت گزر ہی گیا اور پھر خود بھٹو صاحب کو قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تاریخ کا بے رحم چکر ہے۔ آج صدیق جان جیسے صحافیوں کی بے بنیاد گرفتاری سے حکومت کی نیک نامی نہیں ہو رہی بلکہ ان کے جمہوری دعوے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ضمانتیں ہوجائیں گی، صحافیوں پر آیا کڑا وقت گزر جائے گا، مگر پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی پیپلزپارٹی پر بدنما داغ لگ رہے ہیں۔ مٹانے سے نہیں مٹیں گے۔

افسوسناک حقیقت ہے کہ ہر دور میں حکمران کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بڑی اپوزیشن جماعتوں پر کسی طرح قانونی پابندی لگا دی جائے۔ وہ الیکشن میں سرے سے اتر ہی نہ سکیں تاکہ ان کی عدم موجودگی میں حکومتی جماعت انتخاب جیت لے۔ نوے کے عشرے میں ن لیگ اپنی اپوزیشن پی پی پی کے بارے میں یہی سوچ رکھتی تھی، پھر پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو وہ مسلم لیگ کو ضیا باقیات قرار دے کر سیاست سے باہر کرنا چاہتی تھی۔ دونوں ہی ناکام رہے۔ عمران خان نے بھی یہ غلطی کی اور اپوزیشن رہنمائوں کو سزائیں دلوا کر نااہل کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ انہیں بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اب یہی بلنڈر حکومتی اتحاد کرنے کی باربار کوشش کر رہا ہے۔ ناکامی اس کا بھی مقدر ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اپنی ان غلطیوں کو سدھارنے کے بجائے الٹا تلملا رہی ہے، وہ اپنے غیر جمہوری موقف کی حمایت میں پارلیمنٹ کے کارڈ کو بلاوجہ استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ تحریک انصاف پر پابندی لگانا یا اسے دہشت گرد تنظیم قرار دینا قانونی طور پر ممکن نہیں۔ آئین کے مطابق تحلیل ہونے والی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے ہی پڑیں گے۔ آئینی قدغن اور ساتھ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ۔ التوا کا کوئی جواز نہیں۔ پارلیمنٹ چاہے جتنی قراردادیں منظور کر لے، آئین پر ان کا کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔

یہ بھی مغالطہ ہے کہ پارلیمنٹ ہر قسم کی آئینی ترمیم کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے تین باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ پہلی یہ کہ موجودہ پارلیمنٹ کوئی مضبوط، کریڈیبلٹی رکھنے والی پارلیمنٹ نہیں۔ اس میں اپوزیشن سرے سے ہے ہی نہیں۔ سو کے قریب تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے واپسی کی کوشش کی جو سپیکر قومی اسمبلی نے ناکام بنا دی۔ اپوزیشن سے عاری جماعت جس میں دو درجن کے قریب منحرف ارکان بھی موجود ہوں، اس کی کیا سیاسی اور قانونی ساکھ ہوسکتی ہے؟

ویسے بھی پاکستانی آئین میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات کی تقسیم ہے۔ دو تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیاں جنہیں ان کے وزرااعلیٰ نے عوام سے فریش مینڈیٹ حاصل کرنے کے لئے توڑا تھا، وہاں الیکشن نہ کرانے کے لئے قومی اسمبلی کی قرارداد کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے؟ صفر۔

لولی لنگڑی قومی اسمبلی آخر کس طرح دو صوبوں کے عوام کو اپنی منتخب اسمبلی چننے سے روک سکتی ہے؟ خاص کر جب الیکشن کی تاریخ اور شیڈول کا اعلان ہوچکا ہو، امیدواروں نے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرادئیے ہوں۔ تب الیکشن کے عمل کو روکنے کے لئے خوفناک قسم کی آئین شکنی اور نہایت ڈھٹائی کی حد تک" جرات" چاہیے۔

تیسری بات ہے کہ پارلیمنٹ بھی آئین میں وہ ترامیم نہیں کر سکتی جو آئین کی روح کے خلاف ہوں۔ ایسا ہونے پر عدلیہ کے پاس جوڈیشل ریویو کا حق موجود ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں ایسا ہوچکا ہے۔ وہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے آئینی ترامیم کو بھی رد کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر سکتی ہے مگر آئین کو برباد نہیں کر سکتی۔ " بیسک سٹرکچر ڈاکٹرائن" کی اصطلاح نے تب ہی جنم لیا تھا کہ آئین کا ایسا بنیادی ڈھانچہ ہے جسے عام پارلیمنٹ نہیں بدل سکتی۔ اس کے لئے دستور ساز اسمبلی چاہیے جو دستور بدلنے کے ایجنڈے پر عوام سے ووٹ لے کر آئے۔

ایک اور بات سمجھنا ہوگی کہ آج کے دور میں جب سوشل میڈیا اتنا فعال ہے، وہاں پر کسی بھی غیر جمہوری، غیر قانونی، غیر اخلاقی اقدام کے نتیجے میں عالمی دبائو آنا فطری ہے۔ زلمے خلیل زاد کے ٹوئٹ ان کے سی آئی سے تعلق کی بنا پر نہیں۔ سی آئی اے کو عمران خان سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟ اگر ہوتی تو وزیراعظم عمران کے خلاف سائفر کی نوبت نہ آتی۔

زلمے خلیل زاد ایک مصنف اور دانشور کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ وہ مختلف ایشوز پر اپنی رائے دیتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، کیا وہ ان سے یا کسی اور سے پوشیدہ ہے؟ ایک سابق وزیراعظم کو دہشت گرد بنانے کی حکومتیں کوششیں کس کو سمجھ نہیں آ رہیں؟ کون ہے جو نہیں جانتا کہ حکمران پی ڈی ایم اتحاد دراصل الیکشن میں بدترین شکست کے خوف سے مختلف حیلے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ یہ سب لوگ عوام کی رائے سے خوفزدہ ہیں۔ زلمے خلیل زاد ہوں یا کوئی امریکی سینیٹر، کانگریس مین یا مختلف یورپی ممالک کے ریٹائر ڈپلومیٹس اور موجودہ ارکان پارلیمنٹ، ان سب کا ردعمل لازمی آئے گا۔ بڑھتا جائے گا۔ انہیں تحریک انصاف سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ جس طرح پاکستانی حکومت اپنی اپوزیشن کو بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، اس کی عالمی سطح پر قبولیت ممکن ہی نہیں۔ یہی امریکی ارکان پارلیمنٹ اور دانشور بھارتی وزیراعظم مودی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، آخر کیوں؟ کیا وہاں بھی سی آئی اے مودی کی مخالف اور بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کی حامی ہے؟ نہیں۔ نیویارک ٹائمز جیسے موقر امریکی اخبار میں بھارتی وزیراعظم مودی اور ہندوشدت پسندی کے خلاف اداریے لکھے جاتے ہیں۔ غلط کو غلط ہی کہا جائے گاناں؟

حکومتی اتحاد کو اپنی غلطیاں سدھارنا ہوں گی ورنہ ان پر عالمی دبائو بڑھتا ہی جائے گا۔ حل بہت سادہ ہے۔ تحریک انصاف کا سیاسی میدان میں مقابلہ کریں۔ پولیس اور دیگر محکموں پر اثرانداز نہ ہوں۔ قانون کو اپنی فطری رفتار سے چلنے دیں، عدلیہ پر دبائو نہ ڈالیں۔ عدالتی فیصلوں کو تسلیم کریں اور اپنا تمام تر فوکس الیکشن پر لگائیں۔ عوام کو قائل کرنے کی کوشش کریں، حتمی فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔