Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hukumat Ko Kuch Karna To Parega

Hukumat Ko Kuch Karna To Parega

تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی پر نہ چاہتے ہوئے بھی بات کرنا پڑ جاتی ہے۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو وقت ملنا چاہیے، شروع کے چند ماہ تو بہرحال ان کا حق بنتا ہے۔ کوئی بھی پالیسی بنائی جائے، اس کے اثرات سال بھر سے پہلے سامنے نہیں آتے۔ اس سوچ کے باوجود خاموش نہیں رہا جاتا کہ جو ایشو آج پیدا ہوا، اس پر دو مہینے تاخیر سے کیسے بات کی جائے؟ آج کل جو مسائل درپیش ہیں، ان پر ظاہر ہے فوری بات کرنا پڑتی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے اب تک کی کارکردگی کی بات ہو تو سب سے اہم اور غالب تاثر ہیجان کا ملے گا۔ یوں لگتا ہے جیسے حکومت شدید ہیجان کا شکار ہے۔ اسے سمجھ کچھ نہیں آ رہا کہ کیا کرنا ہے؟ جیسے عجلت میں، سوچے سمجھے بغیر ٹامک ٹوئیاں ماری جا رہی ہوں۔ عجیب وغریب سا انتشار ہے۔ ہر وزیر نمبر ٹانکنے کے چکر میں ہے۔ وزیرمملکت برائے امور داخلہ تھانوں میں چھاپے مارتے پھر رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ یہ ان کا کام ہے کیا؟ شائد انہیں لگتا ہے کہ اس طریقے سے ہیرو بننا ممکن ہوگا۔ کبھی جیل خانہ جات کا وزیر رات گئے جیل میں گھس کر خطرناک قیدیوں کو بیرک سے باہر نکال لیتا ہے، نجانے کون سا احتساب وہ کرنے کے درپے تھے؟ بعض بچے ہائپر مزاج کے ہوتے ہیں، ان میں اتنا تجسس، جوش وجذبہ اور انرجی ہوتی ہے کہ وہ نِچلے نہیں بیٹھ سکتے۔ معمولی سی چھوٹ ملے اور کلانچیں بھرتے ملیں گے، کبھی ادھر بھاگ، کبھی دوسری طرف، کوئی نہ کوئی چیز ان سے ٹکرا کر تباہ ہوجاتی ہے۔۔

جس گھر میں جائیں، وہاں میزبان غریب رحم طلب نظروں سے بچوں کے والدین کو دیکھتے ہیں کہ پلیز انہیں قابو میں رکھیں۔ یہی کام تحریک انصاف کے وزراء نے کر ڈالا ہے۔ ادھروزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ابھی تک اپنا امیج نہیں بنا پائے۔ ان کے بیانات تو اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، لیکن لگ یہی رہا ہے کہ صوبہ بغیر کسی وزیراعلیٰ کے چل رہا ہے۔ ممکن ہے چند ماہ بعد معاملات ان کی گرفت میں مکمل طور پر آ جائیں۔ بزدار صاحب نے بھی ہسپتالوں وغیرہ پر چھاپے مارنے شروع کئے، مقبولیت کا کارڈ شائد وہ اسے ہی سمجھتے ہیں۔ یہ بات بھول گئے کہ شہباز شریف صاحب دس سال یہی کرتے رہے اور نتیجے میں بے پناہ تنقید سمیٹی۔

شہباز شریف کے ناکام گورننس ماڈل کو آخر کیوں کاپی کیا جا ئے؟ وزرا کے بیانات میں اس قدر تضاد بھی سمجھ سے باہر ہے۔ میاں نواز شریف صاحب کا سٹائل تھا کہ کئی کئی مہینے کابینہ کا اجلاس تک نہیں بلاتے تھے، قریبی حلقے میں فیصلے ہوجاتے اور وزرا بھی ان کے پس منظر وغیرہ سے بے خبر ہوتے۔ خان صاحب تو ہر ہفتے اجلاس بلا رہے ہیں، وزرا کا آپس میں بہت زیادہ انٹرایکشن ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ وزیراعظم کیا چاہتے ہیں؟ اس کے باوجود ہر وزیر اپنی اپنی ڈفلی بجاتا ملتا ہے۔ اہم ترین معاشی معاملات پر بھی متضاد قسم کے بیانات سننے کو ملتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ سادہ سا اصول ہے کہ کسی ایک وزیر یا مشیرکی ذمہ داری لگائی جائے کہ معیشت کے حوالے سے صرف اسی نے بات کرنا ہے، باقی وزرا کو سختی سے روک دیا جائے۔

سی پیک پر خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ن لیگ کے دور کے ایک وزیر سی پیک کے متعلق معلومات وغیرہ پرمورچہ بنا کر بیٹھ گئے تھے، ارکان اسمبلی تو کیا، وزرا تک کو کچھ علم نہیں تھا۔ اس پر بہت تنقید ہوئی کہ چیزیں اتنا چھپا کیوں رکھی ہیں۔ سی پیک پر جوتماشے آ ج ہو رہے ہیں، ان کا بھی کوئی جواز نہیں۔ حکومتی پالیسیوں میں سب سے بھرپور اور درست تجاوزات کے خلاف آپریشن لگا۔ اس کی شدید ضرورت تھی۔ لاہور تو خیر بڑھتی آبادی کے باعث بہت گنجان ہوگیا ہے، چھوٹے شہر بھی تجاوزات کی زد میں آ چکے ہیں۔ اس آپریشن کوبہت سی جگہوں پر کامیابی ملی ہے۔ آپریشن کا کریڈٹ البتہ حکومت نہیں لے پائی۔ ناجائز قبضے چھڑانے اور قبضہ مافیا کو کمزور کرنے سے عوام کو ریلیف ملتا ہے۔ ہربار آپریشن میں دو تین زاویوں سے منفی خبریں آتی ہیں۔ آپریشن سے عام مزدور، ریڑھی والے وغیرہ متاثرہوتے ہیں۔

حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کے لئے متبادل انتظام کرے ورنہ غریب آدمی پس کر رہ جائے گا۔ کچی آبادیوں میں آپریشن بھی ہمیشہ سے متنازع امر رہا ہے۔ یہ کچی آبادیاں ہر حکومت میں بن جاتی ہیں۔ ایک باربن جانے کے بعد انہیں اکھاڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک تیسرا مسئلہ ان مکانات کا ہے جو جائز طریقے سے خریدے گئے، لینے والے نے کوئی گڑ بڑ نہیں کی، مگر اسے کسی نالے کے ساتھ یا کسی اور تکنیکی مسئلے والی جگہ میں پلاٹ ملا، جو قانون کے مطابق تجاوزات میں شمار ہوتا ہے۔ ایسے معاملات کو احتیاط اور حکمت سے سلجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی حکومت مزدوروں، محنت کشوں پر ظلم نہیں کرنا چاہے گی۔ کچی آبادیوں اور دیگر رہائشی علاقوں کو مسمار کرنے سے پہلے اس پر جامع پالیسی بنانی چاہیے۔ اس بار بھی ماضی والی غلطی دہرائی گئی اور پھر یو ٹرن لینا پڑا۔ پہلے ریڑھی والے بھی رگڑے گئے، پھر ان کے لئے ریلیف کا اعلان ہوا۔ اب وزیربلدیات نے بھی اعلان کیا ہے کہ کسی کچی آبادی کو نہ چھیڑا جائے۔

یہ سب باتیں پہلے سے اچھی طرح طے کر کے آپریشن شروع کرنا چاہیے تھا۔ ایک معاملہ سب سڈیز کے خاتمے کا ہے۔ اصولی طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اربوں روپے فضول سبسڈی میں ضائع نہیں کر سکتی اور حالیہ معاشی بحران کی وجہ سے تو ہم ڈوبتے قومی اداروں کو بچانے اورمختلف سبسڈیز پر اربوں کی رقم نہیں اڑا سکتے۔ میٹرو بس پر سب سڈی حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے، یہی اورنج ٹرین اور پنجاب سپیڈ کی فیڈر بسوں کے ساتھ کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے محض سیاسی مقبولیت کی خاطر اتنی بڑی رقم سب سڈی میں ضائع کرنے کی غلط پالیسی بنائی۔ اس پر نظرثانی ہونی چاہیے، مگر یہ کام مرحلہ وار ہو تو بہتر ہے۔ سب سڈی سے عوام ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں، یک لخت واپس لے لیں گے تو تنگ بھی وہ ہوں گے۔ اسی طرح معیشت کو معمولی سا جاننے والے کے علم میں ہے کہ گیس اور بجلی کے ٹیرف بڑھانے پڑنے تھے۔ اس کے باوجود جس فراخدلی سے گیس مہنگی کی گئی، بجلی کے یونٹ خوفناک حد تک بڑھائے جا رہے ہیں، مختلف چیزوں پر ایکسائیز ڈیوٹی بڑھانے کا اشارہ دیا گیا ہے، یہ مناسب نہیں۔

عام آدمی کو معیشت کی باریکیوں سے کوئی غرض نہیں۔ وہ تو ہر طرف سے مشکلات اور مسائل میں گھرا ہے۔ اسے حکومت سے ریلیف چاہیے۔ حکومت بھی وہ، جو پہلے سنہری خواب دکھاتی رہی اور بلند وبالا دعوئوں کے ساتھ حکومت میں آئی ہے۔ بجلی مہنگی ہونے کا مطلب ہر چیز کا مہنگا ہوجانا ہے۔ پٹرول کے نرخ بڑھانے کا بھی وزیرخزانہ کرچکے ہیں۔ پٹرول مہنگا ہونے سے بھی مارکیٹ کی بیشتر اشیا مہنگی ہوجاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عام آدمی کا کیا بنے گا؟ اس کا کیا قصور ہے؟ اس کی زندگی میں کب تاریکیاں چھٹیں گی اور روشنی کی کرن جھانکے گی؟ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر چیز کا ٹیرف بڑھانے کا آسان حل ڈھونڈنے کے بجائے مختلف ماہرین کو جمع کر کے مناسب حل نکالے۔ جس سے عام آدمی بھی نہ پسے اور معاشی دبائو بھی کم ہوجائے۔ پس نوشت: سابق وائس چانسلرز اور یونیورسٹیوں کے انتظامی ذمہ داران کو ہتھکڑیاں لگا کر پیش کرنے پر تنقید کرنا درست ہے۔ یہ نہایت احمقانہ کام تھا۔ جس پولیس اہلکار نے یہ کیا، اس کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کی کوئی تک ہی نہیں تھی۔ تاہم یہ بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ کہیں کسی نے دانستہ تو ایسا کرنے کا نہیں کہا۔

ہتھکڑیاں لگانے کے ناروا کام سے ان ملزمان پر عائد کرپشن الزامات سے ہر ایک کی توجہ ہٹ گئی اور یہ ہیرو بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس پر بروقت نوٹس لے کر سخت تنبیہہ کی ہے، اب یہ معاملہ ختم ہوگیا۔ اب فوکس اس پرہونا چاہیے کہ کیا واقعی یہ سابق وائس چانسلر صاحبان اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ نہایت سنگین معاملہ ہے۔ تعلیمی اداروں اور استاد کی پھر کیا توقیر رہ گئی؟ نیب کو پروپیگنڈے اور میڈیا ٹرائل کے بجائے اپنی تمام تر توجہ ثبوت اکٹھے کرنے اور پھر الزامات ثابت کرنے پر لگانی چاہیے۔ سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وی سی پر سنگین الزامات عائد کئے گئے، انہیں محض انتظامی غفلت کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا۔ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت غیر ضروری پرائیویٹ سب کیمپسز کی اجازت دی گئی، ان پرائیویٹ سب کیمپس والوں نے جی بھر کر لوٹ مار کی، کروڑوں، اربوں روپے کمائے اور ہزاروں طلبہ کی ڈگریاں خطرے میں ڈال دیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پر بھی نہایت سنگین الزامات ہیں۔ کئی سنجیدہ حلقے الزام لگاتے ہیں کہ موصوف نے یونیورسٹی کو سیاست، اقرباپروری اور سازشوں کا گڑھ بنا دیا تھا۔ اپنے مخالف اساتذہ کے خلاف ناجائز انکوائریاں، انہیں تنگ کرنا اور اپنے جتھے کو نوازنا ان کے پسندیدہ حربے تھے، میڈیا میں بہت سوں کو نوازا، نتیجے میں غیرمعمولی کوریج ملتی رہی۔ عدالت اگر اپنے فیصلے کے ذریعے انہیں نہ ہٹاتی تو شائد ابھی تک مسلط ہوتے۔ ان سب کو دیکھنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیب الزامات کو ثابت کرے اور احتساب کے اس عمل کو قابل اعتماد بنائے۔