Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hum Ghalat Thay

Hum Ghalat Thay

سیاسی موضوعات پر لکھنے والوں کو مختلف امور پر اپنی رائے بنانا اور اس کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ بعض سیاسی واقعات اورتاریخی نوعیت کے موڑ ایسے ہوتے ہیں جن پر پوزیشن لینا پڑتی ہے۔ واضح پوزیشن، حمایت یا مخالفت، اس کے سوا تیسری آپشن نہیں ہوتی۔

مسئلہ یہ ہے کہ سیاست تو حالات پر منحصر ہے۔ کبھی بہائو اس طرف جا نکلتا ہے جس کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔ دوسری جنگ عظیم میں وزیراعظم سر ونسٹن چرچل برطانوی عوام کا ہیرو تھا۔ اس نے حیران کن جرات، دلیری اور تدبر سے انگلش قوم کی قیادت کی اور ہٹلر کے طوفان سے بچایا۔ اس جنگ میں چرچل کی جگہ کوئی اور وزیراعظم ہوتا تو شائد جنگ کا نقشہ مختلف ہوتا۔ جنگ کے فوری بعد برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے۔ چرچل کا خیال تھا کہ اس کی قائدانہ صلاحیتوں کے پیش نظر جیت یقینی ہے۔ اسے اپ سیٹ شکست ہوئی اور لیبر پارٹی کے ایٹلی وزیراعظم بن گئے۔ چرچل یہ زخم باقی زندگی نہیں بھلا سکا۔

دور کیوں جائیں، پانچ سال پہلے ٹرمپ کے امریکی صدر بن جانے کے بارے میں کون کہہ سکتا تھا؟ امریکہ کے تمام ایگزٹ پولز اور سروے بری طرح ناکام ثابت ہوئے اور ہیلری کلنٹن ہار گئیں۔ یہی مگر سیاست ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ ایک ہنڈولا (جھولا)ہے، کبھی یہ اوپر جاتا ہے، کبھی نیچے۔ آج کے دور میں سیاست بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ کبھی یہ اوپر لے جاتا ہے، عروج کی بلندیوں پر، کبھی زوال کی گہرائیاں مقدر بنتی ہیں۔ شخصیات کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ان سے توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ کبھی وہ ان پر پورا اترتے اور تاریخ رقم کر جاتے ہیں۔ بعض اوقات نتیجہ الٹ نکلتا ہے۔ جس لیڈر سے امید ہوتی ہے کہ وہ اصلاحات لائے گا، تبدیلی کے ایجنڈے کو کامیاب کرے گا، وہ اس بری طرح ناکام ہوتا ہے کہ اس کا ووٹر بھونچکا رہ جائے۔ اس کی طلسماتی شخصیت کا مجسمہ وقت کے تھپیڑوں سے یوں اچھل کر گرتا اور چکنا چور ہوتا ہے کہ کوئی ٹکڑا سلامت نہیں رہتا۔

سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟ وہ اخبارنویس جن کا کام سیاست پر لکھنا ہے، جنہوں نے مختلف قرائن، اندازوں سے اس شخص کے کامیاب ہونے کی امید پالی تھی۔ اس کی سیاسی حمایت کی، انتخابی معرکہ آرائی میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ انہیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ اپنے چکنا چور سپنوں کو چپکے سے ہتھیلی میں چھپائے ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے پچھلے موقف پر قائم رہیں؟ وہی کچھ لکھتے رہیں جو اچھے دنوں میں، اچھی امید پر لکھا تھا۔ اس اندیشے سے وہی پرانا دہراتے رہیں کہ اگر موقف تبدیل کیا، اپنی غلطی کا اعتراف کیا تو مخالف کیمپ والے طنز کے تیر چلائیں گے۔ پھبتی کسیں اور مضحکہ اڑائیں گے، بعض ناتراش بالشتیے معافی مانگنے کا مطالبہ کریں گے۔

ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ لکھنے والا صاحب کشف نہیں ہوتا۔ وہ جنتری بیچنے کا کام بھی نہیں کرتا۔ لوگوں کے دلوں تک اس کی رسائی نہیں، نیتوں کا حال وہ نہیں جانتا۔ مستقبل سے امنڈنے والی آفات کی اسے خبر نہیں ہوتی۔ وہ تو سامنے موجود حالات، واقعات، قرائن کو دیکھ کر اندازہ لگاتا اور تجزیہ کرتا ہے۔ دستیاب معلومات کو کھنگالتا اور اپنی رائے بناتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس کا اندازہ غلط ہوجائے، تعبیر وتشریح میں خطا ہو۔ زندگی امکانات کا کھیل ہے۔ ہم اپنی سی کوشش ہی کر سکتے ہیں،۔

ہمارے نزدیک اہم ترین فیکٹر دیانت ہے۔ نیت صاف اور تجزیہ دیانت سے کیا گیا ہو تو رائے غلط ہونے پر" اجتہادی خطا " جیسا معاملہ ہونے کا امکان ہے۔ دوگنا اجر نہ سہی، خسارہ تو نہیں ہوگا۔ سوچ سمجھ کر دیانت داری سے رائے بنائی گئی، وقت نے وہ غلط ثابت کر دی تو اس غلطی کو مان لینا چاہیے۔ محترم استاد ہارون الرشید ایک فقرہ اکثر لکھا کرتے ہیں، غلطی سے نہیں، غلطی پر اصرار سے قومیں برباد ہوتی ہیں۔ فرد کا بھی یہی معاملہ ہے۔ رائے غلط نکلی تو اس سے رجوع کرنا چاہیے۔ اپنی غلطی اعلانیہ تسلیم کی جائے۔ اس سے سبق سیکھتے ہوئے غلطی دہرانے سے گریز کیا جائے۔ یہی دیانت داری اور سچائی ہے۔

تمہید طویل ہوگئی، مگر یہ ضروری تھا۔ کہنا صرف اتنا تھا کہ ہم نے پچھلے دس پندرہ سال عمران خان کی حمایت کی، اس سے توقع لگائی، یہ امید تھی کہ وہ تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرے گا۔ افسوس کہ ہم غلط نکلے۔ ہمارا تجزیہ خام، معلومات باطل اور رائے غلط نکلی۔ عمران خان صاحب کے بارے میں جیسی ہمارے رائے تھی، جو ہم سوچتے تھے، وقت نے اسے غلط ثابت کر دیا۔

دانا کہتے ہیں کہ کسی کو آزمانا ہو تو جب وہ کسی منصب پر پہنچے، تب اسے دیکھو۔ عمران خان طویل عرصہ ناکام سیاستدان کے طور پر خوار ہوتے رہے۔ دو ہزار گیارہ میں انہیں عوامی مقبولیت نصیب ہوئی، تیس اکتوبر کے تاریخی جلسے نے انہیں عوامی لیڈر بنایا۔ 2013ء کے انتخابات میں ان کی پارٹی نے ستر لاکھ ووٹ لئے، ایک صوبے میں حکومت اور باقی تینوں سمیت وفاق میں اپوزیشن ملی۔ پچھلے عام انتخابات میں وہ جیتے اور وزیراعظم بنے۔ انہیں تین سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے۔ کسی بھی لیڈر کوجانچنے کے لئے یہ کم عرصہ نہیں۔ ہر لیڈر کی ترجیحات کا ابتدائی چار چھ ماہ میں اندازہ ہوجاتا ہے۔ سال ڈیڑھ کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے کتنا سیکھ رہا ہے؟

عمران خان اب وزیراعظم ہیں، تین سالہ اقتدار وہ گزار چکے ہیں، ان کی طرز حکومت، گورننس اور قائدانہ صلاحیتیں پوری طرح ایکسپوز ہوچکی ہیں۔ ان کے میرٹ، ڈی میرٹ بھی سب کے سامنے ہیں۔ اب کچھ ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ رائے قائم کرنا، پہلے سے بنائی گئی کسی رائے میں ترمیم یا اسے بدلنا بھی آسان ہوگیا ہے۔ میرے جیسے لوگوں کے لئے، جن کے دامن میں سوائے دیانت داری کے دعوے کے کچھ نہیں، جن کے غیر معمولی تعلقات نہیں کہ خبر اڑ کر پہنچ جائے، نہ ایسی مومنانہ فراست کہ مستقبل کے بارے میں درست آگہی ہوجائے۔ ہم نے دیانت داری سے یہ رائے بنائی تھی کہ عمران خان کو موقعہ ملنا چاہیے، ان کے پاس تبدیلی لانے کا ایجنڈا ہے، وہ ریفارمز کے حامی ہیں اور اس سسٹم میں بامقصد، ٹھوس تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ ہمیں لگتا تھا کہ عمران خان جاگیردار ہے نہ صنعت کار طبقے کا حصہ، کسی بڑے طاقتور مافیا سے اس کے مفادات منسلک نہیں۔ وہ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی غیر معمولی عوامی شہرت اور عزت پا چکا ہے، زر سمیٹنا اور وسائل جمع کرنا بھی اس کی ترجیح نہیں۔ ایسا شخص سسٹم بدل سکتا ہے، سافٹ ریوولوشن لا سکتا ہے۔ ہماری یہ سوچ اور رائے غلط نکلی۔

مجھے ذاتی طور پر عمران خان کی طرز سیاست سے اختلاف تھا، جس انداز میں انہوں نے اسلام آباد کئی ماہ تک دھرنا دیا وہ غلط تھا۔ اس دھرنے میں جو غیر محتاط، جارحانہ زبان بولی، جوش میں آ کر بجلی کے بل پھاڑے اور سول نافرمانی کی اپیل تک کر ڈالی، یہ سب نامناسب تھا۔ ان کے مخالف رہنمائوں پر تند وتیز حملے، گاہے عامیانہ جگت بازی وغیرہ سب قابل تنقید تھا۔ ان امور پر تب بھی تنقید ی کالم لکھے۔ عمران خان کے دھرنوں کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ یہ حسن ظن البتہ تھا کہ خان صاحب بطور اپوزیشن لیڈرجذباتی ہو کر احتجاجی سیاست کر رہے ہیں۔ اقتدار میں آ کر رویہ اور طریقہ بدل جائے گا۔ ان کے کنٹینر پر جولوگ ایستادہ نظر آتے، وہ ناقابل رشک گروہ تھا۔ یہ امید پھر بھی تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد بہترین پروفیشنلز کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ رائٹ پرسن ایٹ رائٹ جاب والا فارمولا خان صاحب بار بار ذکر کرتے تھے۔ ہمیں توقع تھی کہ اس کا عملی مظاہر ہ ہوگا۔ ملک بھر سے چند ایک دیانت دار اہل مشیر ڈھونڈنا کون سا مشکل کام ہے؟ افسوس خان صاحب نے اسے ناممکن ٹاسک بنا دیا۔

پیگی نون معروف امریکی مصنفہ ہیں، انہوں نے صدر ریگن پر ایک کتاب لکھی، جس میں ایک دلچسپ ٹکڑا لکھا۔ وہ کہتی ہیں:" صدر (حکمران) میں کیریکٹر ہی سب سے اہم چیز ہے۔ اسے جینیس ہونے یا چالاک ہونے کی ضرورت نہیں، وہ چالاک ترین لوگ مشیر رکھ سکتا ہے۔ آپ عملیت پسند ہوشیار لوگ، پالیسی سازوں کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں، مگر جرات، شائستگی نہیں خریدی جا سکتی، آپ اخلاقی اقدار کرایے پر نہیں لے سکتے۔ حکمران کو یہ چیزیں اپنے ساتھ لازمی لانی چاہئیں۔ اس کے سامنے مستقبل کا ایسا ویژن ہو جو وہ تخلیق کرنا چاہتا ہے۔ یہ ویژن مگر حقیر ہوجاتا ہے، اگرحکمران وہ کیریکٹر نہیں رکھتا، وہ جرات اور دل جس سے وہ ڈیلیور کر دکھائے۔"

افسوس وزیراعظم عمران خان اپنے ساتھ سب کچھ وزیراعظم ہائوس لے آئے، اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ، عزم اور ارادہ ان کے پاس نہیں تھا، جو انہوں نے اپنے ووٹروں کو دکھایا۔ ایسے میں وقت اہم نہیں رہتا۔ تین سال گزرے ہیں، دو مزید گزر جائیں گے۔ اگلی مدت مل جائے تو وہ بھی آخر ہوا میں تحلیل ہوجائے گی۔ لیڈر کوملک میں تبدیلی لانے کے لئے کبھی خود کو بدلنا پڑتا ہے۔ ایسا نہ کر پائے تو سب کاوش ہیچ ہے، بیکار، بے فائدہ، لاحاصل۔ افسوس کہ ہم غلط تھے۔ وقت کے سفر نے ہمیں غلط ثابت کیا۔ افسوس، صد افسوس۔

(یہ تحریر ان شااللہ چند کالموں کی ایک سیریز کاابتدائیہ ہے، جس میں اس موضوع کی مختلف پرتوں اور سوالات کا جائزہ لیا جائے گا۔)