Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hum Kion Haar Rahe Hain?

Hum Kion Haar Rahe Hain?

سوال سادہ اور آسان ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم ایشیا کپ میں اس قدر برے طریقے سے کیوں ہار رہی ہے، اتوار کو بھارت کے خلاف کھیلے جانے والے میچ میں شکست کو صرف افسوسناک کہنا کافی نہیں، اسے شرمناک اور ذلت آمیز کہنا چاہیے۔ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، دنیا کی بہترین ٹیمیں بھی کئی بار ہار جاتی ہیں، مگر جو شکست لڑے بغیر قبول کی جائے، مزاحمت کی ہلکی سی جھلک بھی محسوس نہ ہو، وہ قابل تشویش امر ہے۔ ویسے سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کرکٹ میچ میں شکست ایسا موضوع ہے، جس پر کالم لکھا جائے؟ میرے نزدیک اس کا جواب اثبات میں ہے۔ پاکستان میں کرکٹ نہایت مقبول کھیل ہے، درحقیقت اب ہاکی کی جگہ کرکٹ کو قومی کھیل قرار دینا چاہیے۔ اس میں ہار جیت پوری قوم کے مورال پر اثر انداز ہوتی ہے۔ خاص کر مقابلہ جب بھارت جیسے روایتی حریف سے ہو تو یہ صرف ایک کھیل نہیں رہتا، اس میں لاکھوں، کروڑوں لوگوں کے جذبات، تمنائیں اور خواب بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ اس لئے پاک بھارت کرکٹ میچ یا پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی تجزیے کی مستحق ہے۔ چرچل نے ایک بار کہا تھا کہ جنگ اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ یہ صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہم پاکستانیوں کے لئے کرکٹ بھی ایسا سنجیدہ اور جذباتی معاملہ ہے کہ ہم اس پر تجزیے کے لئے صرف چند متعصب سپورٹس تجزیہ نگاروں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ ایک نجی سپورٹس چینل پر بیٹھے، وہ صرف علاقائی بنیاد پرتنقید یا تحسین کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کرکٹ سے محبت کرنے والے ایک عام شائق کی حیثیت سے ہمارے نزدیک صرف کرکٹ اور اچھا کھلاڑی ہونا اہم ہے۔ ایسا کھلاڑی جو پاکستان کو جتوائے، ملک وقوم کو سرخرو کرائے، وہ اہم اور قابل تکریم ہے۔ پاکستانی ٹیم کے میچ ہارنے کی کئی وجوہات ہیں، ایک میچ پر کسی بھی ٹیم یا کپتان کی تقدیر کا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ ہمارا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ دنیا کی ہر اچھی ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل ملتا ہے۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ کوئی ٹیم ایک ٹورنامنٹ غیر معمولی کھیل کر جیت جائے اور دوسرے میں بری طرح ہار جائے۔ اچانک دنیا کی نمبر ون ٹیم بن جائے اور چند ہی ماہ میں وہ چھٹے ساتویں نمبر پرآجائے۔ اگر کہیں پر ایسا ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے خاصا کچھ گڑبڑہے، جسے فوری طور پر ٹھیک کرنا چاہیے۔ پاکستان کی ٹیم کے ساتھ ایسا ہی چل رہا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کو درپیش مسائل دو نوعیت کے ہیں۔ ایک کا تعلق طویل المدت پالیسی سے ہے۔ دنیا بھر میں اچھے ڈومیسٹک سٹرکچر کے بغیر مضبوط ٹیم بنانا اور پھر اس کوالٹی کو برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ جب گراس روٹ لیول پر کرکٹ ختم ہوجائے گی، کلب کرکٹ کا وجود ہی نہ رہے، کھیلنے کے لئے گرائونڈز دستیاب نہ ہوں، پھر نیا اور بہترین ٹیلنٹ کہاں سے آئے گا؟ پھر جو برا بھلا ٹیلنٹ مل رہا ہے، اسے ڈومیسٹک سسٹم کے ذریعے کس حد تک پالش کیا جا رہا ہے؟ ہمارا ڈومیسٹک سسٹم نہایت کمزور ہے۔ مردہ پچوں اور دلچسپی سے عاری میچز کی وجہ سے کھلاڑی جان نہیں مارتے۔ سسٹم بدلنے کی ضرورت ہے، اگر ڈیپارٹمنٹ برقرار رکھے جائیں، تب بھی خاصا کچھ اوورہال کرنا پڑے گا۔ یہ کام کرکٹ بورڈ کے کرنے کا ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت احسان مانی بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ ضرورت ہے کہ سی ای او کے منصب کے لئے ماجد خان جیسے بڑے کرکٹر کو لایا جائے، جن کے پاس ڈومیسٹک کرکٹ کو ٹھیک کرنے کے لئے جامع پلان موجود ہے۔ دو تین سال پہلے اپنے ایک انٹرویو میں تفصیل سے ماجد خان نے اپنا پلان شیئر کیا۔ انہیں اگر یہ ذمہ داری دی جائے، سپورٹ کیا جائے اور دو تین برسوں تک انتظار کیا جائے تو قوی امید ہے کہ گراس روٹ لیول پر کرکٹ میں ڈرامائی تبدیلی آجائے۔ شارٹ ٹرم پلان بھی سادہ ہے کہ دستیاب کھلاڑیوں میں سے بہترین ٹیم منتخب کی جائے، ایسا کھلاڑی کپتان بنایا جائے جو ٹیم پر بوجھ نہ ہو۔ اس وقت پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد بدقسمتی سے ٹیم پر بوجھ ہیں۔ وہ اپنے کھیل کی وجہ سے ٹیم کے لئے آٹو میٹک چوائس نہیں بنتے۔ یہ حقیقت ہے کہ سرفرازپاکستان کے بہترین وکٹ کیپر نہیں، ان سے بہتر آپشنز موجود ہیں، وہ ایک اچھے سپیشلسٹ بلے باز بھی نہیں۔ سرفرازبڑی ہٹ نہیں لگا سکتے، تسلسل سے رنز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، وہ اوسط درجے کے بلے باز ہیں۔ کون ہے جو سرفراز احمد سے کسی میچ میں سنچری بنانے یا اپنے طور پر میچ جتوانے کی توقع رکھتا ہے؟ کوئی نہیں۔ دنیا کی کسی بڑی ٹیم میں سرفراز کی سطح کا مڈل آرڈر سپیشلسٹ بلے باز کھیل رہا ہے؟ پچھلے ورلڈ کپ میں وقار یونس کوچ تھے، سرفراز کی ٹیم میں جگہ بننا مشکل لگ رہا تھا، ان کے حامی مسلسل دبائو ڈال رہے تھے کہ سرفراز کو بطور اوپنر کھلایا جائے۔ وقار یونس غریب بار بار کہتے رہے کہ سرفراز کی تکنیک اوپنرز والی نہیں ہے، اسے کس طرح کھلایا جائے۔ ٹیم چونکہ ہار رہی تھی، تنقید بہت ہوئی، عوامی دبائو پر وقار نے سرفراز کو اوپنر کھلایا، ایک آدھ میچ اس نے جتوا بھی دیا۔ سرفراز مگر جینوئن اوپنر نہیں تھا، ٹاپ آرڈر میں نئی گیند سے کھیلنے کی استعداد نہیں تھی، اس لئے اب وہ پچھلے ڈیڑھ سال سے کپتان ہے، مگر کبھی کپتان تو کیا نمبر تین پر کھیلنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ تنقید ہونے پر اب مجبوراً وہ نمبر چار پر گئے ہیں، مگر وہاں بھی انہیں جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ انہیں چونکہ کپتان بنا دیا ہے، اس لئے ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ ٹیم میں کھلانا بھی مجبوری ہے۔ ٹیسٹ میں سرفراز کو کھلانے کا تو کوئی جواز نہیں۔ وہ کیچ چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی کمزور تکنیک کی وجہ سے لمبی اننگز نہیں کھیل پاتے۔ اپنی اس کمزوری کا غصہ وہ کھلاڑیوں پر چلانے اور گالیاں دینے سے نکالتے ہیں۔ ماڈرن کرکٹ میں یہ بڑی عجیب بات ہے۔ سرفراز دنیا کا واحد کپتان ہے جو اپنے کھلاڑیوں پر چیختا، چلاتا نظر آئے گا۔ بھارت کے ویرات کوہلی سے برطانوی کپتان جو روٹ اورنیوزی لینڈ کے کین ولیمسن سے بنگلہ دیشی مشرفی مرتضیٰ اور سری لنکا کے چندیمل، جنوبی افریقہ کے فاف ڈوپلیسی تک کون ایسا کرتا ہے؟ دھونی تو نہایت ٹھنڈا کپتان تھا، بغیر شور مچائے اس نے اپنے ملک کے لئے بے شمارفتوحات حاصل کیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سرفراز کو غیر ضروری سپورٹ نہ کیا جائے، ٹیم میں رہنے کے لئے اسے رنز کرنے پڑیں گے۔ بہتر تو ہوگا کہ کم از کم ورلڈ کپ تک کے لئے شعیب ملک کو کپتان بنا دیا جائے۔ موجودہ ٹیم میں دوسری بڑی خامی دفاعی حکمت عملی اور جلد دبائو میں آ جانے کی نظر آ رہی ہے۔ کھلاڑی یوں ڈرے ہوئے ہیں کہ اگر شاٹ لگانے کے چکر میں آئوٹ ہوگئے تو نجانے کیا قیامت آ جائے گی؟ حد تو یہ ہے کہ فخر زماں جیسا بلے بازآئوٹ ہونے کے بعد ریویو لیتے ہوئے ڈرتا ہے کہ کہیں ڈریسنگ روم میں گالیاں نہ پڑیں کہ ریویو ضائع کرا دیا۔ غیر ملکی کوچ کا یہ فائدہ تو ہے کہ وہ لوکل گروپنگ اور سازشوں کا حصہ نہیں بنتا، مگر باہر والا آدمی زیادہ سٹینڈ بھی نہیں لیتا۔ وہ کپتان اور چیف سلیکٹر کے ساتھ معاملات ٹھیک رکھتا ہے تاکہ اس کا کنٹریکٹ چلتا رہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ دوسری ٹیمیں ایشیا کپ میں تین تین، چار چار سپنر کے ساتھ شامل ہوئی ہیں اور ہم نے صرف ایک سپنر شاداب اور ایک پارٹ ٹائم سپنر نواز پر بھروسہ کیا۔ کوچ نے مزاحمت کی زحمت نہیں کی۔ اس کا نقصان ٹیم کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ امارات کے گرم موسم اور سلو پچز پر اتنے زیادہ فاسٹ بائولرز کے بجائے بلال آصف جیسے سپن آل رائونڈر یا محمد اصغر کو لے جانا چاہیے تھا۔ ویسے تو یاسرشاہ جیسے میچ وننگ سپنر کو ون ڈے میں بھرپور مواقع ملنے چاہئیں۔ زمبابوے کے خلاف اسے پوری سیریز کھلا کر دیکھ لیتے۔ جنوبی افریقہ نے عمران طاہر کومسلسل مواقع دے کر ورلڈ کلاس سپنر بنا دیا۔ ایک بڑی خامی ٹیم، خاص کر مڈل آرڈر میں کسی ورلڈ کلاس بلے باز کی عدم موجودگی بھی ہے۔ انضمام، یوسف، یونس اور بعد میں مصباح کے بعد ہمیں مڈل آرڈر میں اچھا، قابل اعتماد بلے باز نظر ہی نہیں آتا۔ جس مڈل آرڈر میں سرفراز کو نمبر چار پر کھیلنا پڑے اور پھر چھٹے نمبر پر ایک ٹلے باز آصف کو کھلانا پڑے تو پھر وہ بیٹنگ لائن کبھی قابل اعتماد نہیں ہوسکتی۔ آصف اچھا ہٹر ہے، مگراس میں موقعہ محل دیکھ کر کھیلنے کی صلاحیت نہیں، فٹ ورک ندارد ہے اور سپنرز کوہینڈل نہیں کر پاتا۔ زیادہ سے زیادہ وہ ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں رہ سکتا ہے جہاں دس پندرہ گیندوں پر پچیس تیس رنز بنا کر کام چل جاتا ہے۔ ون ڈے میں تو موقعہ دیکھ کر وکٹ پر ٹھہرنا بھی پڑتا ہے اور دو چار ہٹیں کافی نہیں، یہاں پر پچاس، ساٹھ ستر رنز بنانے پڑتے ہیں۔ ایشیا کپ میں ہمارے پاس چانس ابھی باقی ہے۔ بنگلہ دیش سے جیت کر فائنل میں پہنچ سکتے ہیں، وہاں پھر بھارت سے ٹاکرا ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو ٹیم کے لئے ایک اور آزمائش کا مرحلہ ہوگا۔ اصل مسئلہ ہمیں اپنی خامیاں دور کرنا اور مستقل بنیادوں پر حل ڈھونڈنا ہے۔ ایک آدھ کھلاڑی کی غیر معمولی کارکردگی سے کوئی ٹورنامنٹ جیت کر جشن منانا دراصل خود کو دھوکا دینے کے برابر ہے۔ ہم اس لئے ہار رہے ہیں کہ ہماری ٹیم بیلنس، مضبوط اور دوسروں سے بہتر نہیں۔