Intekhabi Nataij Qabil Feham Hain
Amir Khakwani122
ان الیکشن میں بطور صحافی غیر معمولی دلچسپی رہی، کئی ہفتے پہلوں سے مختلف حلقوں کے بارے میں معلومات لیتا رہا، فیلڈ پر موجود رپورٹروں سے تفصیلی ڈسکشن ہوتی رہی۔ ہمارے میگزین کے سینئر ساتھی احمد اعجاز نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے ایک ایک حلقے پر کام کیا، ان پر ہم ایڈیشن بھی شائع کرتے رہے۔ اس تمام تر ریسرچ کا فائدہ یہ ہوا کہ الیکشن نائٹ پر خاصی حد تک اندازہ ہوچکا تھا کہ کیا نتائج آئیں گے۔ ایک ٹی وی چینل پر الیکشن ٹرانسمیشن میں موجود تھا، خاتون اینکر نے آخر میں پوچھا کہ کیا اندازہ ہے پی ٹی آئی کتنی سیٹیں لے جائے گی، میرا بے ساختہ جواب تھا، ہنڈرڈ پلس، ایک سو پانچ سے ایک سو دس تک نشستیں نظر آ رہی ہیں۔ الیکشن کی شام دوبارہ ان ٹرانسمیشن میں آنا تھا، اینکرزشرارتاً کہنے لگے کہ دیکھیں الیکشن کے بعد آپ کے اندازے کا کیا بنتا ہے؟ اللہ کا شکر ہے کہ بھرم رہ گیا۔ دراصل پنجاب میں بڑی حد تک توقعات کے مطابق ہی نتائج آئے ہیں۔ جہاں جہاں پی ٹی آئی کے پاس مضبوط امیدوار تھے، انہوں نے اچھا گرائونڈ ورک کر رکھا تھا، انہیں اس کے نتائج ملے۔ مسلم لیگ ن اپنی مضبوط پاکٹس میں ناقابل شکست رہی، بڑی حد تک اس نے اپنی نشستوں کو بچایا۔ یہ تو ماننا پڑے گا کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف مجموعی طور پر بڑھا ہے۔ پچھلے انتخاب میں ان کا ن لیگ سے فرق بہت زیادہ تھا، متعدد حلقوں میں پچاس سے ساٹھ ستر ہزار ووٹوں سے وہ ہارے تھے، اس بار یہ فرق خاصا کم ہوا۔ اگر ہم پنجاب کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے دیکھیں تو بات جلدی سمجھ آ جائے گی۔ پنجاب کو عام طور پر تین حصوں میں تقسیم کر کے تجزیہ کیا جاتا ہے، سنٹرل پنجاب، ساوتھ پنجاب اور نارتھ پنجاب یعنی پوٹھوہار کا علاقہ۔ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف مضبوط تھی، وہاں پر انہیں اچھے الیکٹ ایبل مل گئے تھے، مسلم لیگ ن ہمیشہ سرائیکی علاقوں کو نظرانداز کرتی ہے اور پچھلی بار اس نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا، مگر بنایا نہیں۔ اس وعدہ خلافی اور عمران خان کی جانب سے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے وعدے نے بھی چند فیصدکا فرق ڈالا۔ بہاولپور ڈویژن کی پندرہ نشستیں ہیں، ان میں بہاولپور اور رحیم یار خان اکثریتی سرائیکی بولنے والے اضلاع ہیں، بہاولپور کی تحصیل منڈی یزمان البتہ استثنا ہے۔ بہاولپور میں ن لیگ نے نشستیں ہاری ہیں۔ بہاولپور شہر سے سابق وفاقی وزیر بلیغ الرحمن ہارے، وہاں سے فاروق ملک جیتے ہیں۔ ایک فرق یہ بھی تھا کہ پچھلی بار جماعت اسلامی کے ڈاکٹر وسیم اختر نے بلیغ الرحمن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی، وہ ایم پی اے بن گئے اور بلیغ الرحمن ایم این اے بنے، اس بار وسیم اختر خود ایم ایم اے کی ٹکٹ پر ایم این اے کا الیکشن لڑ رہے تھے۔ احمد پورشرقیہ میں ن کے پاس امیدوار ہی کوئی نہیں تھا۔ وہاں سے پی ٹی آئی کے مخدوم سمیع الحسن گیلانی جیتے، مقابلے میں نواب آف بہاولپور صلاح الدین عباسی کے بیٹے بہاول عباسی تھے، ن بھی ان کی حمایت کر رہی تھی۔ نواب صاحب کی تمام تر کمپین کے باوجود ان کا بیٹا ہار گیا۔ مسلم لیگ ن کے ریاض پیرزادہ البتہ اپنی خاندانی سیٹ جیت گئے، وہ الیکٹ ایبل ہیں، اگر پی ٹی آئی سے لڑتے تب بھی جیت جاتے۔ خانقاہ شریف، مبارک پور سے نجیب اویسی سیٹ جیتے گئے، یہ ان کا بھی موروثی سیاسی حلقہ ہے۔ ضلع رحیم یار خان سے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے مخدوم خسرو بختیار جیت گئے، لیاقت پور سے مخدوم احمد عالم انور کے صاحبزادے مبین عالم جیت گئے۔ جاوید اقبال وڑائچ نے بھی میدان مارا، ان تینوں نے پی ٹی آئی سے الیکشن لڑا تھا۔ مخدوم احمد محمود کے بیٹے مصطفی محمود نے اپنی مخصوص نشست لے لی، وہ پیپلزپارٹی کی ٹکٹ سے لڑ رہے تھے۔ ضلع بہاولنگر میں البتہ ن لیگ بڑی حد تک ناقابل شکست رہی۔ وہاں چشتیاں سے طاہر بشیر چیمہ کی صاحبزادی لڑ رہی تھیں، وہ بھی ہار گئیں۔ اعجاز الحق کے ساتھ پی ٹی آئی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی، مگر وہ بھی ہار گئے۔ ڈی جی خان اور راجن پور کے اضلاع سے ن لیگ کو بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈی جی خان شہر سے تحریک انصاف کی خاتون امیدوار زرتاج گل جیت گئیں۔ انہوں نے اویس لغاری کو ہرایا، دوست محمد کھوسہ بھی اس سیٹ پر تھے۔ ایک خاتون جن کا اپناتعلق یہاں سے نہیں، وہ یہاں بیاہی گئی ہیں، ان کا لغاری سرداروں کو ہرانا صرف عمران خان فیکٹر کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ساتھ والے حلقے سے میاں شہباز شریف محمد خان لغاری سے ہار گئے، جعفر لغاری نے شیر گورچانی کو ہرا دیا۔ تونسہ سے خواجہ شیراز جیت گئے۔ یہ سب سیٹیں تحریک انصاف کو ملیں۔ راجن پور سے سردار نصراللہ دریشک نے تحریک انصاف کی سیٹ سے حفیظ الرحمن دریشک کو ہرایا، جبکہ ساتھ والی سیٹ سے سردار ریاض مزاری بھی جیت گئے۔ ملتان شہر سے تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود قریشی، عامر ڈوگراور زین قریشی جیت گئے۔ لودھراں سے عبدالرحمن کانجو اپنی سیٹ بچا گئے۔ خانیوال سے البتہ ن لیگ نے سیٹیں جیت لیں۔ وہاں سے ہراج خاندان ہار گیا، سید فخر امام البتہ آزاد حیثیت سے جیت گئے۔ لیہ سے ایک سیٹ تحریک انصاف کو مل گئی۔ جنوبی پنجاب میں مجموعی طور پر مسلم لیگ ن کو نقصان اٹھانا پڑا۔ سنٹرل پنجاب میں بھی تحریک انصاف نے ن لیگ کے بعض قلعے مسمار کئے۔ فیصل آباد سے خاص طور پر نصف کے قریب نشستیں جیت لیں۔ عابد شیر علی کو ہرانا تو اپ سیٹ تھا۔ رانا ثنااللہ بھی بمشکل جیت پائے۔ جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بھی انہیں نشستیں ملیں۔ یاد رہے کہ 2013ء میں فیصل آباد میں ن لیگ ناقابل شکست رہی تھی۔ اسی طرح سرگودھا ڈویژن سے بھی تحریک انصاف نے کئی اہم سیٹیں لیں، سرگودھا، خوشاب سے انہیں کامیابیاں ملیں، میانوالی میں انہوں نے سوئپ کیا، جبکہ بھکر سے بھی ایک اہم نشست لے لی۔ ساہیوال ڈویژن میں ن لیگ کی گرفت خاصی مضبوط رہی۔ اوکاڑہ، پاکپتن وغیرہ میں پی ٹی آئی کو یہاں زیادہ اچھے امیدوار نہیں مل سکے تھے، جس کاانہیں نقصان ہوا۔ لاہور میں بھی توقعات کے مطابق ہی نتیجہ نکلا۔ ن لیگ نے زیادہ تر نشستیں جیتیں، پی ٹی آئی وہ چند حلقے ہی جیت پائی، جس کا الیکشن والے دن بھی اندازہ تھا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد ہار تو گئیں، مگر انہوں نے اپنے ووٹ دوگنے کر ڈالے۔ پی ٹی آئی ایک سیٹ اور نکال سکتی تھی، مگر افضل کھوکھر اپنے تجربے کی وجہ سے بچ نکلے۔ عمران خان نے خواجہ سعد رفیق سے مشکل حلقے میں مقابلہ کیا اور بہت تھوڑے مارجن سے جیت گئے۔ قصور میں مسلم لیگ ن کے غلبہ کا امکان تھا، وہی ہوا۔ شیخوپورہ میں رانا تنویر اور جاوید لطیف کی نشستیں مضبوط تھیں، وہ ن لیگ نے برقرار رکھیں، مریدکے میں البتہ مقامی سطح پر بہت اچھا پینل بنا، جس کافائدہ پی ٹی آئی کو پہنچا۔ گوجرانوالہ ن لیگ کا مضبوط مستقر رہا ہے، یہاں پر خرم دستگیر کی سیٹ ہارنے کا کوئی امکان نہیں تھا، وہی نتیجہ آیا۔ بیرسٹر عثمان ابراہیم بھی جیتے ہوئے امیدوار تھے، اظہر قیوم ناہرا نے البتہ محنت سے سیٹ نکالی۔ ڈاکٹر نثار چیمہ بھی جیت گئے، اگرچہ حامد ناصر چٹھہ کے فرزند احمد چٹھہ اچھے امیدوار تھے۔ گجرات میں مگر ق لیگ اور تحریک انصاف کی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کامیاب رہی اور ن لیگ کا صفایا ہوا۔ سیالکوٹ اور نارووال میں ن لیگ مضبوط تھی، انہیں کوئی نہیں ہلا پایا، خواجہ آصف البتہ بڑی مشکل سے بچ پائے۔ شمالی پنجاب میں مسلم لیگ کی پوزیشن کمزور تھی اور اس کا انہیں نقصان ہوا۔ پنڈی میں بھی اس کا صفایا ہوا۔ چودھری نثار اپنی دونوں نشستیں ہار بیٹھے، ان جیسے کمزور قوت فیصلہ والے شخص کے ساتھ یہی ہونا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کی شکست لمحہ فکریہ ہے۔ جہلم میں عمران خان کے جلسے پر بڑا شور مچا تھا، فواد چودھری نے وہاں سے دونوں سیٹیں اپنی پارٹی کو جتوا کر اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا۔ چکوال میں ق لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کافائدہ ہوا اور دونوں سیٹیں مل گئیں۔ اٹک سے میجر طاہر صادق کو عمران خان نے دونوں سیٹوں سے ٹکٹ دیا تو بڑی تنقید ہوئی، نتیجے نے مگر اس فیصلے کو درست ثابت کر دیا۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پنجاب میں نتیجہ قابل فہم اورمنطقی ہے۔ جنوبی پنجاب میں ن لیگ خاصے علاقوں سے ہاری، ما سوائے بہاولنگر اور خانیوال۔ شمالی پنجاب میں سے بہت بری شکست ہوئی۔ سنٹرل پنجاب میں اس کی قوت زیادہ تر قائم رہی اور اس کے بل بوتے پر پنجاب اسمبلی میں بھی وہ اچھی پوزیشن میں ہے اور قومی اسمبلی میں بھی مناسب نشستیں اسے ملی ہیں۔ عمران خان کے بارے میں اندازہ سو نشستوں کا لگایا جا رہا تھا، انہیں خیبر پختون خوا سے غیر معمولی پزیرائی ملی۔ اندازہ تھا کہ وہ بیس کے قریب نشستیں لے سکیں گے۔ تحریک انصاف نے وہاں پشاور کی پانچوں نشستیں جیت لیں، جنوبی اضلاع میں بھی ہاتھ خوب صاف کیا، مولانا فضل الرحمن پہلی بار ڈی آئی خان کی دونوں نشستوں سے ہا ر گئے، سوات میں امیر مقام کے جوڑ توڑ کام نہ آئے جبکہ ہزارہ سے ن لیگ کو خاصا نقصان پہنچا۔ پی ٹی آئی نے کے پی سے تیس نشستیں جیت لیں، یوں اسے دس اضافی نشستوں کا بونس ملا۔ دوسرا بڑا فائدہ اسے کراچی سے ملا۔ وہاں توقع تھی کہ اسے چارپانچ نشستیں مل جائیں گی۔ کراچی کا ٹرن آئوٹ اچھا رہا اور نوجوان ووٹر نے باہر نکل کر تحریک انصاف کو بھرپور مینڈیٹ دے ڈالا۔ یوں انہیں پانچ چھ سیٹیں اضافی مل گئیں۔ اس سے ان کی برتری فیصلہ کن ہوگئی اور وہ آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر سادہ اکثریت کی پوزیشن میں آ گئے۔ جو لوگ کہتے تھے کہ آصف زرداری کنگ میکر بنیں گے، وہ اپنے اندازے غلط ہونے پر گنگ ہوئے بیٹھے ہیں۔ جنہوں نے جیپ کے نشان کا پروپیگنڈہ کیا، ان کے پاس بھی بولنے کو کچھ نہیں کہ چودھری نثار ہی جب اڑ گئے تو پیچھے کیا رہ گیا؟