آج کل سپریم کورٹ میں جناب جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کا مقدمہ چل رہا ہے۔ جسٹس صاحب نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں ان کی ایک درخواست سپریم کورٹ میں چل رہی ہے کہ نظرثانی کیس کی سماعت لائیو نشرکرنے کی اجازت ہو۔ عدالت نے اس پر اپنا فیصلہ محفوظ کیا ہے، جلد ہی سنا دیا جائے گا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا میں بے حد احترام کرتا ہوں، قابل اعتماد شواہد کی بنیاد پر میری رائے ہے کہ وہ انتہائی دیانت دار اور بااصول جج ہیں۔ ایساجج جس کے لئے معروف انگریزی اصطلاح Dead Honest استعمال کی جا سکے، جسے خریدنا یا جس کے فیصلوں پر اثرانداز ہونا ممکن نہیں۔ جج صاحب کے حدیبیہ ملز کیس سے کئی قانون دان اختلاف کرتے ہیں، مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ فیصلہ قانونی اعتبار سے غلط ہے۔ افسوس کہ اس کیس کے دوران کئی بار جج صاحب کو اپنے وکیل کے بجائے خود بولنا پڑاہے، اس سے ان کے نیازمندان کو خوشی نہیں ہو رہی۔ عدالتوں میں غیر جذباتی، ٹو دی پوائنٹ دلائل دینا ہی مناسب رہتا ہے، پروفیشنل وکلا اس ہنر سے بخوبی واقف ہیں، انہیں ہی یہ فرض نبھانے کا موقعہ دینا چاہیے۔
گزشتہ روز کیس کی سماعت میں جسٹس فائز عیسیٰ نے حوالہ دیا کہ آئن بوتھم نے عمران خان پر بال ٹمپرنگ کا کیس کیا اور عمران خان نے جوابی طور پر کیس کر کے جیت لیا۔ سوشل میڈیا میں اس پر پوسٹیں ہوئیں تو اندازہ ہوا کہ بہت سے لوگوں کو کیس کی تفصیل سے آگہی نہیں۔ عمران خان بہت سے لوگوں کی طرح میرا بھی پسندیدہ کرکٹر رہا ہے، کرکٹ چھوڑنے کے بعد بھی ان سے متعلق خبریں ہم فالو کرتے رہے۔ یہ کیس بھی ان میں سے ایک ہے۔ کالم لکھنے سے پہلے دو تین گھنٹے نیٹ پر سرچ میں لگائے۔ وہ خبریں اور رپورٹیں مل گئیں جن میں کیس کا فیصلہ شائع ہوا تھا، ڈیلی موشن پر تین منٹ کی ویڈیو مل گئی، جس میں عمران خان جمائما خان کا ہاتھ پکڑے عدالت سے باہر آ رہے ہیں۔ انہوں نے رپورٹروں سے مختصر بات چیت کی اور اس کامیابی پر خدا کا شکر ادا کیا۔ جمائما کا گلنار چہرہ دیکھ کر اچھا لگا، بڑے والہانہ انداز سے خاوند کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ افسوس کہ یہ جوڑی ٹوٹ گئی۔
عمران خان پر کیس آئن بوتھم اور ایلن لیمب نے کیا تھا، عمران نے اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بوتھم مشہور برطانوی آل رائونڈر ہیں۔ ایک زمانے میں دنیا کے چار بڑے آل رائونڈرز کا تذکرہ ہوتا تھا، نیوزی لینڈ کے رچرڈ ہیڈلی، برطانیہ کے آئن بوتھم، پاکستان کے عمران خان اور بھارت کے کیپل دیو۔ بہت سے ماہرین کیپل دیو کو اس فہرست میں شامل نہیں کرتے تھے اور اصل مقابلہ پہلے تین آل رائونڈرز میں سمجھتے تھے۔ بطور فاسٹ بائولر عمران خان نے بعض حیران کن سپیل کرا رکھے ہیں، وہ جینوئن فاسٹ بائولر تھے اور ان کا اِن کٹر یا اِن شوٹر جسے رچی بینو اِن ڈیپر بھی کہتے تھے، کمال درجے کا تھا۔ گیند آف سٹمپ سے باہر پڑتی اور پھر سانپ کی طرح لہراتی ہوئی اندر داخل ہوتی تھی۔ سپیڈ کے ساتھ گیند کی کاٹ اتنی تیز اور گہری ہوتی کہ اچھے اچھے بلے بازوں کے لئے اسے سمجھنا ممکن نہیں تھا۔ یہ ریورس سوئنگ نہیں تھی، ریورس سوئنگ تو گیند کی ایک طرف سے چمک اتارنے کے بعد ممکن ہوپاتی ہے، عام طور سے تیس چالیس اوورز کے بعد۔ عمران خان نئی گیند سے بھی بہت عمدہ اِن کٹر کراتے تھے۔ ہیڈلی بطور بائولر شائد عمران سے تھوڑے سے بہتر ہوں، مگر وہ اوسط درجے کے بلے باز تھے۔ عمران خان اور بوتھم زیادہ بہتر بیٹسمین تھے۔ عمران خان کی تکنیک اپنے آخری برسوں میں بوتھم سے بہتر ہوگئی تھی۔
بوتھم اپنے مخصوص مزاج اور بے لگام تبصروں کی وہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کے لئے ناپسندیدہ رہے ہیں۔ فیصل آباد کی ڈیڈ سلو پچ پر بوتھم کو بائولنگ کرانا پڑتی تو پنجابی محاورے کے مطابق اسے موت پڑ گئی۔ بوتھم نے جلا کٹا تبصرہ کیا کہ پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں اپنی ساس کو اس کے تمام اخراجات اٹھا کر دو ہفتے کے لئے بھیجا جائے۔ بوتھم کا اشارہ یہ تھا کہ ساس صاحبہ پاکستان کے دورے سے جانبر نہیں ہو پائیں گی۔ بوتھم کو پاکستانیوں پر ایک غصہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے 1992ء ورلڈ کپ فائنل میں انگلینڈ کو شکست دی۔ بوتھم اس ٹیم کا حصہ تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ ورلڈ کپ جیت لیں گے۔ انگلینڈ کی ٹیم ان دنوں خاصی مضبوط تھی، گراہم گوچ، ایلن لیمب، بوتھم، ایلک سٹیورٹ، گریم ہک، نیل فیئر برادر جیسے بلے باز اس کی ٹیم میں شامل تھے جبکہ بائولنگ بھی اچھی تھی۔ پاکستان نے ورلڈ کپ فائنل جیت لیا۔ بوتھم کا خیال تھا کہ جن دو گیندوں پر وسیم نے ایلن لیمب اور کرس لیوس کو آئوٹ کیا، وہ بال ٹمپرنگ کے ذریعے ریورس سوئنگ کرائی گئی تھیں۔
بوتھم کے ان خیالات کو ظاہر ہے پاکستانیوں نے پسند نہیں کیا۔ تنازع تب بڑھا جب عمران خان نے اپنی آپ بیتی میں ایک واقعہ لکھا کہ کس طرح ایک کائونٹی میچ میں انہوں نے بوتل کے ڈھکنے سے بال کی سیم اکھاڑی اور پھر ریورس سوئنگ کر کے میچ جیتا۔ دراصل عمران خان کے مطابق بال ٹمپرنگ غیر قانونی نہیں اور ہمیشہ سے فاسٹ بائولرز گیند کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرتے آئے، یہ ان کا حق ہے۔ بوتھم اور لیمب وغیرہ نے اس پر پاکستانی بائولرز کو دھوکے باز (چیٹر)کہا۔ 1994ء میں عمران خان سے منسوب ایک انٹرویو مشہور بھارتی جریدے انڈیا ٹوڈے میں شائع ہوا۔ اس میں عمران خان نے کہا کہ سابق نامور برطانوی فاسٹ بائولر فریڈ ٹرومین، بوتھم اور ایلن لیمب وغیرہ دراصل کم پڑھے لکھے، بگڑے ہوئے بیک گرائونڈ کے کھلاڑی ہیں جو زیادہ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے نہیں، اس لئے ایسے اوٹ پٹانگ بیانات دیتے ہیں۔ آئن بوتھم کچھ عرصہ کے بعد کرکٹ سے ریٹائر ہوگیا، اس نے ایلن لیمب کے ساتھ مل کر عمران خان پر ہتک عزت کا کیس کر دیا۔
عمران خان نے انڈیا ٹوڈے کے انٹرویو کی تردید کی تھی۔ اس کیس سے بھی بچنے کی خاصی کوشش کی۔ بوتھم ان دونوں ہوائوں میں اڑ رہا تھا، اسے لگتا تھا کہ برطانوی عدالت سے وہ کیس جیت جائے گا۔ کیس 1996جولائی میں چلا، دو ہفتے تک یہ ہائی پروفائل کیس چلتا رہا۔ میڈیا نے اسے بڑی اہمیت دی۔ کئی معروف کرکٹرز نے کیس میں اپنی گواہی دی۔ عمران خان کی جانب سے مشہور برطانوی بلے باز جیف بائیکاٹ بھی پیش ہوئے۔ مجھے آج تک اخبار کی وہ تصویر یاد ہے، جس میں بائیکاٹ ہاتھ میں کھیلنے والے جوگرز پہنے عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے غالباً بوٹ کے ذریعے گیند کو ٹمپر کرنے کی مثالیں دیں۔ بوتھم کے ایک کپتان ڈیوڈ گاور اور تب برطانیہ کے کپتان مائیک اتھرٹن نے بھی شہادت دی۔ اتھرٹن نے بھی یہی کہا کہ بال ٹمپرنگ ہوتی رہتی ہے اور آئی سی سی کو اسے قانونی قرار دینا چاہیے۔ یکم اگست 96ء کو عدالت نے کیس کا فیصلہ عمران خان کے حق میں سنایا اور بوتھم، لیمب کو پانچ لاکھ پائونڈ (ساڑھے سات لاکھ ڈالر)ہرجانے کا حکم دیا۔ بوتھم، لیمب دونوں پر یہ فیصلہ بجلی بن کر گرا۔ اتنے بڑے ہرجانے نے دونوں کا ایک طرح سے دیوالیہ نکال دیا۔
عمران خان نے اپنی کتاب میں اس کیس کا ذکر کیا ہے اور اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان کیا۔ دراصل بوتھم عدالت میں جی بھر کر اپنے مخصوص انداز میں جملے بازی کرتا رہا تھا۔ اس کے فقروں پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونجتا رہا۔ جج کا رویہ بھی واضح طور پر جانبدارانہ تھا۔ عمران خان نے اپنی بائیوگرافی میں لکھا کہ ان کا وکیل بہت مایوس تھا، اس کا کہنا تھا کہ بوتھم برطانوی ہیرو ہے، اس لئے جیوری اس کے حق میں جائے گی۔ گورے وکیل کوگورے جج کی جانبداری پر بھی افسوس تھا۔ امریکہ، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک میں جج فیصلہ نہیں دیتا بلکہ اس کے لئے عوام میں سے چند افراد کی جیوری کو منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ جیوری عدالتی کارروائی سنتی رہتی ہے اور پھر آپس میں مشاورت کے ذریعے فیصلہ سناتی ہے۔ بارہ رکنی جیوری تھی۔ دس دو (10:2)کے تناسب سے فیصلہ عمران خان کے حق میں آیا۔
عمران نے اپنی کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ عمران خان لاہور کے ایک صاحب کشف بزرگ میاں بشیر کا بہت عقیدت مند تھا۔ عمران کو روحانیت کی طرف میاں بشیر مرحوم ہی لے آئے۔ کیس کی سماعت کے دوران عمران خان نے میاں بشیر کو دعا کا کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ جج اپنا ذہن تمہارے خلاف بنا چکا ہے، فیصلہ خلاف آنے کی توقع ہے۔ جیوری فیصلے سے پہلے مشاورت کے لئے الگ کمرے میں گئی اور اس میں پانچ گھنٹے لگ گئے، اس دوران عمران خان کا میاں بشیر سے رابطہ ہوا۔ حیران کن طور پر میاں صاحب نے واضح الفاظ میں کہا کہ اللہ نے جیوری کا ذہن بدل دیا ہے اور فیصلہ تمہارے حق میں آ رہا ہے۔ عمران خان کو شائد اس بات پر یقین نہ آیا ہو، مگر تھوڑی دیر بعد ایسا ہی ہوا۔ عمران خان مشکل وقت میں ایک ایسا کیس جیت گئے، جو اگر ان کے خلاف ہوتا تووہ دیوالیہ ہوجاتے۔ بوتھم اس فیصلے پر سخت مایوس ہوا۔ ایلن لیمب نے بعد میں اپنی بائیوگرافی میں لکھا کہ اس فیصلے نے اس کا کباڑا کر دیا۔