Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kabul Kahani (1)

Kabul Kahani (1)

پچھلے پانچ روز کابل، افغانستان میں گزرے۔ میرا افغانستان کا یہ تیسرا سفر تھا۔ پچھلے دونوں سفر چند سال قبل حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں کئے۔ طالبان کے افغانستان میں پہلی بار جانا ہوا۔ طالبان کے حوالے سے ماضی میں بہت کچھ لکھتا رہا، امریکہ کے افغانستان سے نکلنے اور طالبان حکومت قائم ہونے پر بھی لکھا۔ ابتدائی دنوں میں وہاں جانے کا موقعہ بنا، مگر کسی ذاتی مصروفیت کی وجہ سے نہیں جا سکا۔ اب چونکہ پندرہ اگست کو طالبان حکومت کاایک سال مکمل ہوگیا، اس لئے ایک سال کے بعد یہ کہاں کھڑے ہیں، کیا حالات ہیں، مخالفین کی کیا پوزیشن ہے اور افغان میڈیا خاص طور سے کیا سوچ رہا ہے، وہاں خواتین کے حوالے سے کیا صورتحال ہے، ان سب چیزوں کو دیکھنے، سمجھنے کے لئے یہ سفر کیا۔

پاک افغان یوتھ فورم ایک بہت متحرک پلیٹ فارم ہے۔ اس میں افغان بھی شامل ہیں جبکہ پاکستانی سائیڈ سے ایک نہایت متحرک اور اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والے نوجوان سلمان جاوید اس کے روح رواں ہیں۔ سلمان صاحب مطالعہ اور تیز نظر رکھنے والے نوجوان ہیں، پاک افغان مسائل اور ایشو ز پر ان کی گہری نظر ہے۔ ان کے ساتھ پولیٹیکل سائنس کا ایک طالب علم شاہد خان بھی تھا۔ شاہد خان کی ایک خصوصیت تیزی سے پشتو سے اردو میں ترجمہ کرنے کی صلاحیت ہے، جس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا۔ ورنہ یہ محسوس کیا کہ نہ صرف طالبان لیڈر بلکہ دیگر افغان رہنما بھی اردو اچھی جاننے کے باوجود دانستہ پشتو یا دری میں انٹرویو دینا پسند کرتے ہیں۔ وہ اردو میں سوال اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں مگر جواب میں اردو بولنے کے بجائے پشتو بولتے اور اگر ترجمہ کرنے والا کہیں کوئی غلطی کر جاتا توترنت اس کی اصلاح بھی کر دیتے، جس سے اندازہ ہوتا کہ اردو پر بھی ان کی مضبوط گرفت ہے، مگر بوجوہ وہ اپنی قومی زبان کو ترجیح دے رہے ہیں۔

لاہور اور اسلام آباد کے آٹھ نو صحافی شریک سفر تھے۔ "ترکی اردو" کے حافظ حسان کے علاوہ معاصر اخبارات اور میڈیا ہائوسز کے ماجد نظامی، طارق حبیب، وقاص شاہ، محترمہ بتول، پی ٹی وی کے اصغر گردیزی، صحافی دوست اور لاہور پریس کلب کے سیکرٹری جنرل عبدالمجید ساجد اورایک عالمی نشریاتی ادارہ کے سینئر صحافی ایازگل وفد میں شامل تھے۔ پاک افغان یوتھ فورم کی جانب سے امجد خان، زاکر اللہ خادم اور انعام خان کی مستعدی اور ہمہ وقت موجودگی باعث تقویت بنی رہی۔

افغانستان حکومت کی جانب سے معروف طالبان رہنما مفتی انعام اللہ سمنگانی نے وفد کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ گھنٹوں گفتگو اور بریفنگ کے لئے وقت نکالا۔ مفتی انعام اللہ کا تعلق افغانستان کے شمالی صوبے سمنگان سے ہے، اسی مناسبت سے وہ سمنگانی کہلاتے ہیں۔ وہ سمنگان کے ملٹری کمیشن میں ذمہ دار رہے اور طالبان کی جانب سے شیڈو گورنر کی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے وہ میڈیا کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، ذبیح اللہ مجاہد کے نائب بھی رہے، آج کل کابل میں اہم ترین حکومتی میڈیا سنٹر کے سربراہ ہیں۔ مفتی انعام اللہ سمنگانی عالم دین ہیں، جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک سے انہوں نے تخصص کیا، اسی لئے نام کے ساتھ مفتی لگتا ہے۔ ان کے والد بھی افغانستان کے ممتاز عالم دین اور شیخ الحدیث ہیں، طالبان صفوں اور افغان دینی حلقوں میں ان کا بہت احترام کیا جا تا ہے۔ سمنگان میں نہایت عمدہ کاغذی بادام اور دیگر میوہ جات کے ساتھ کوئلے کے ذخائر بھی ہیں، پاکستان میں آج کل سمنگان اور مزار شریف وغیرہ سے کوئلہ آ رہا ہے۔

ہماری خوش قسمتی کہ سمنگانی صاحب بہت اچھی اردو بولتے ہیں بلکہ وہ اردو پڑھتے بھی رہے۔ مجھے خوش گوار حیرت ہوئی جب ملتے ہی انہوں نے کہا کہ خاکوانی صاحب آپ کا میں دیرینہ قاری ہوں، برسوں سے کالم پڑھ رہا ہوں۔ یہ بات انہوں نے ہر ملاقات میں دہرائی۔ پہلی بار تو میں نے اسے ان کی خوش اخلاقی اور وضع داری تصور کیاکہ دل رکھنے کے لئے کہہ دیا ہوگا، مگر اگلی ملاقات میں انہو ں نے بتایا کہ آپ زنگار کے نام سے کالم لکھا کرتے ہیں اور فلاں فلاں اخبار میں بھی لکھتے رہے۔ تب دلی خوشی ہوئی۔ اردو پڑھنے کا یہ فائدہ سمنگانی صاحب کو ہوا کہ وہ پاکستانی مزاج، سوچ اور رائے عامہ سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔

چند دن کسی ملک کو جاننے کے لئے بہت کم ہیں، ہمارے وقت کچھ وقت ہوتا تو شمالی افغانستان خاص کر مزار شریف (بلخ)اور فیض آباد(بدخشاں)کا سفر کرتے، سنٹرل افغانستان میں بامیان بھی دیکھنے کے قابل جگہ ہے، ہزارہ قبائل کا یہ گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ مجھے ایرانی سرحد سے قریب واقع تاریخی علمی ثقافتی مرکز ہرات شہر کو دیکھنے میں دلچسپی تھی۔ سردست تو کابل ہی کا وزٹ کر پائے۔ وہاں چند مفید اہم ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ طالبان وزیرخارجہ امیر متقی سے ملاقات طے تھی مگر قندھار میں کسی اہم اجلاس کے باعث کئی ممتاز طالبان رہنما وہاں چلے گئے۔ کابل میں البتہ امارات اسلامیہ افغانستان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد سے تفصیلی ملاقات ہوئی، انہوں نے ہمیں تین چار گھنٹے دئیے۔ ہر سوال کا جواب دیا اور پھر ازراہ تلطف افغان میڈیا کے درجن بھر نمائندہ سینئر صحافیوں کو بھی میڈیا سنٹر میں مدعو کر کے ہمارے ساتھ انٹرایکشن سیشن کرایا۔ ہم نے ایک بڑے افغان چینل شمشاد کا وزٹ بھی کیااور افغان انٹرنیشنل جرنلسٹ ایسوسی ایشن سے بھی مفید سیشن رہا۔

مجاہد صاحب کے علاوہ بعض دیگر اہم ذمہ داران سے بھی ملے۔ افغان سرکاری چینل آر ٹی کے سربراہ سے ملاقات ہوئی، افغان سرکاری اخبارات کے سربراہ اور میڈیا ریگولیٹری باڈی (ایک طرح کا پاکستان پیمرا) کے ہیڈ سے بھی ڈسکشن ہوئی، مجاہد صاحب کے دونوں نائب بلال کریمی اور یوسف صاحب بھی گفتگو اور محفلوں میں شریک رہے۔ ایک اہم ملاقات ممتاز افغان لیڈر اور سابق جنگجو کمانڈر گلبدین حکمت یار سے ہوئی۔ حکمت یار سے تفصیلی انٹرویو بھی لیا اور ان کی لائبریری اور کتب کی تفصیل سے بھی آگہی ملی۔ ملاقات میں محترم ہارون الرشید صاحب کا ذکر آیا تو حکمت یار کِھل اٹھے، فوری کہا کہ انہیں میری طرف سے سلام پہنچائیے گا۔

واپسی کا سفر ہم نے دانستہ براستہ سڑک کیا۔ کابل سے ننگرہار صوبہ اور اس کا دارالحکومت جلال آباد سے ہوتے ہوئے تین گھنٹوں میں طورخم پہنچے مگر طورخم کراسنگ سے گزرنا زندگی کے بدترین اور تلخ تجربات میں سے ایک تھا۔ پہلی بار ہمیں اندازہ ہوا کہ پاک افغان بارڈر پر عام آدمی کس طرح ذلیل وخوار ہوتا ہے اور کیسے انہیں گھنٹوں تنگ کیا جاتا ہے۔ سامان سے لدے پھندے ٹرکوں کی میلوں لمبی قطار دیکھ کر افسوس ہوا۔ افغان سائیڈ سے بڑے بڑے ٹرالوں میں ٹماٹر اور سیب وغیرہ سے لبالب بھرے بوریاں ان پر لدی تھیں۔ گرمی اور دھوپ میں یہ ٹرالر اگر دو دن رکے رہیں تو ان سبزیوں اور پھلوں کا کیا حال ہوگا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایسا کیوں جاتا ہے، یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں تھا۔ میری ہمیشہ سے یہ رائے رہی ہے کہ پاکستان کا نمبر ون مسئلہ کرپشن ہے، ہر مسئلے کے پیچھے یہی کرپشن کارفرما نظر آتی ہے۔ عرصے سے سنتے آئے تھے کہ طورخم کراسنگ یا ملک کی دیگر کراسنگ (چمن وغیرہ)مافیاز کے کنٹرول میں ہے۔ افسوس کہ ہر وہ شخص جسے پیدل طورخم کراس کرنا پڑتا ہے، وہ اسی طرح کے ہر الزام یا چارج شیٹ کو بغیر تحقیق کئے ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

افغانستان کے سفر میں بہت سے دلچسپ مشاہدات ہوئے، ان پر ان شااللہ لکھیں گے۔ کئی سوالات افغان حوالوں سے پاکستانی ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں، ان کے جوابات بھی اپنی بساط اورمشاہدے، مطالعہ کے مطابق دیں گے۔ اس سیریز میں کوشش ہوگی کہ جو چیزیں سمجھ آ سکیں، انہیں عام فہم انداز میں بیان کر دیا جائے تاکہ قارئین کے سامنے مکمل تصویر آ جائے یا کم از کم وہ تصویر جو میں دیکھ پایا۔

حرف آخر یہ کہ ہم نے پانچ دنوں میں کابل اور افغانستان کو مجموعی طور پر پرسکون، محفوظ اور سیاسی، عوامی اعتبار سے مستحکم پایا۔ سڑکوں اور گلی بازار میں نکلنا محفوظ ہے۔ چیکنگ اور سکیورٹی کے انتظامات ضرور ہیں۔ طالبان سکیورٹی گارڈ جگہ جگہ چیکنگ کرتے ہیں، خاص کر شام کے بعد۔ ان کا رویہ مگر نہایت خوشگوار اور دوستانہ ہوتا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر وہ مسکراتے اور کئی تو گپ شپ لگانے کی کوشش کرتے۔ لاہور یا اسلام آباد، پشاور کا نام سن کر کھل اٹھتے، کئی بار ان نوجوان (اٹھارہ انیس سے بیس بائیس سالہ)گارڈز نے خوشی خوشی بتایا کہ ہم بھی فلاں سال وہاں رہے۔ جو صحافی دوست پچھلے دس بارہ برسوں میں متعدد بار کابل آتے رہے، ان کا کہنا تھا کہ کسی پاکستانی صحافی کے ساتھ پولیس، سکیورٹی اور حکومتی انتظامیہ کاایسا خوشگوار اور دوستانہ رویہ پہلی باردیکھنے کو ملا۔ کرزئی اور اشرف غنی حکومت میں انتظامیہ، پولیس اور سکیورٹی ایجنسی (NDS) کارویہ برعکس تھا، مخالفانہ، ناخوشگوار اور زہریلا۔

خاکسار اپنی قامت اور جثے کی وجہ سے جلد اور دور سے پہچانا جاتا ہے۔ ہمیں کابل ائیرپورٹ والوں نے یاد رکھا اور ایک دن بعد آنے والے صحافی دوست عبدالمجید ساجد کو خبر کی کہ چند پاکستانی صحافی کل آئے تھے، ان میں ایسے قد اور جسامت والا بھی تھا۔ کابل کے نسبتاً جدید اور پررونق علاقہ "شہر نو"میں ہمارا درمیانے درجہ کا ہوٹل واقع تھا۔ کہیں آتے جاتے تو قریبی چیک پوسٹوں والے گارڈز پہچان لیتے اور مسکرا کر اردو بولنے کی کوشش کرتے یا کبھی پنجابی میں ہلکا پھلکا جملہ بول دیتے تواچھا لگتا۔ یہ افغانستان کا نیا روپ ہے۔ طالبان کا افغانستان۔ (جاری ہے)